سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے
غیرترقی یافتہ علاقہ جات کے بہاول پور میں ہونے والے اجلاس میں تمام شرکا
اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے یہ جانا کہ جنوبی پنجاب میں تعلیم ، صحت
اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے وفاقی حکومت نے64بڑے منصوبے تیار
کئے ہیں جن پر 170ارب روپے لاگت آئے گی، اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ اس
کل رقم کا 85فیصد حصہ صرف ملتان شہر پر خرچ کیا جارہاہے۔ کمیٹی نے اس رویے
پر سخت احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ جنوبی پنجاب کی تین ڈویژنوں کے کل گیارہ
اضلاع ہیں، دس اضلاع کے لئے صرف 15فیصد اور صرف ایک شہر کے لئے 85فیصدرقم
مختص کی گئی ہے۔ یہی نہیں، پیپلز ورکس پروگرام کا حال بھی اس سے زیادہ
مختلف نہیں۔
یہ حکومتی خانہ جنگی تو نہ جانے کیا رنگ دکھائے گی، مگر عدالت کی یہ بات
کہ” بادی النظر میں جناب وزیراعظم کے معاملات ایمانداری پر مبنی نظر نہیں
آتے“، قابل توجہ ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ عدالت کو کون کونسے ثبوت مہیا کئے
گئے ہیں، یاانہوں نے ”بے ایمانی“ پرکھنے کا کیا پیمانہ مقرر کیا ہے ، مگر
اتنا معلوم ہے، کہ جب خلق خداکچھ کہتی ہے تواس کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی
بات ہوتی ضرور ہے۔ سرکاری وسائل کا استعمال ہو یا پروٹوکول کا معاملہ ،
دیکھنے والے انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں ، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ گیلانی
سرکار کے (ملتان والے) گھر کے باہر پولیس سکواڈ کی گاڑیاں ہمہ وقت تیار
رہتی ہیں، نہ جانے کب برادرِ خورد برآمد ہوجائیں ، کب بڑے صاحبزادے کا باہر
نکلنے کا پروگرام بن جائے یا کب چھوٹے (یہ کہنا بھی عجیب سالگتاہے کیونکہ
یہ بھائی جڑواں ہیں) صاحبزادے کا کسی تقریب میں جانے کا موڈ ہو؟
ایک وزیراعظم تو اسلام آباد میں مقیم ہے ، مگر ان کے بھائی اور اولاد کی
صورت میں دوتین وزرائے اعظم ملتان میں بھی رہائش پذیر ہیں، یہ بات کسی کے
علم میں اضافے کا موجب شاید نہیں بنے گی کہ وزارت عظمیٰ سے قبل کی صورت حال
اور اب کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہوتارہے، وطن عزیز میں کسی سے
یہ پوچھنے کی روایت نہیں کہ بھائی مال کہاں سے بنایا۔ یہ خاندان تو صدیوں
سے روحانی حکمرانی پر مامور ہے، یہ الگ بات ہے کہ روحانی سے دنیاوی حکمرانی
بعد میں ایسی شروع ہوئی کہ روحانیت صرف گدی نشینی تک رہ گئی، اعمال وافعال
دنیاوی ہوگئے، یہ لوگ پیری مریدی سے بھی مال کماتے ہیں اور دنیاداری سے بھی
مال بناتے ہیں۔
وزیراعظم کا پہلے اپنے بھائی کے لئے اور اب اپنے لخت جگر کے لئے انتخابی
مہم چلانا اور ان حلقوں میں کروڑوں کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنا اور
کچھ کا افتتاح کرنا اور سنگ بنیاد رکھنا قرین انصاف نہیں ، یہ عمل کسی بھی
صورت میں دیانتداری کے ذیل میں نہیں آتا، یہ کرپشن بھی ہے اور دھاندلی بھی۔
لیکن سرعام سب کچھ ہورہا ہے، کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی، اپوزیشن
بھی خاموش ہے کہ پنجاب میں یہی کچھ لاہور اور دیگر اضلاع کے ساتھ ہورہاہے،
دوردراز علاقوں کاخون نچوڑ کر لاہور کی رنگینیوں میں اضافہ کیا جارہا ہے،اب
ملتان کا سیدزادہ بھی اسلام آباد اور لاہور کی طرح اپنے ساتھی غریب علاقوں
کا استحصال کرنے پر اتر آیا ہے۔
یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ مذکورہ بالا دس اضلاع کے عوامی نمائندے کس خواب
غفلت میں غرق ہیں، انہیں اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ روارکھے جانے والے ظلم
کا احساس کیوں نہیں ہوتا، وہ کن مصلحتوں کا شکار ہیں، انہیں کونسے مفادات
عزیز ہیں، اس غیر منصفانہ تقسیم کا ذمہ دار کون ہے، اس کا احتساب کون کرے
گا۔ ٹوٹی پھوٹی یا کچی سڑکوں پر اڑتی دھول ، پینے کے صاف پانی کی عدم
دستیابی ، تعلیمی اداروں کے فقدان اور بنیادی طبی سہولتوں کا نہ ہونا جیسے
مسائل والے علاقے فنڈسے بھی محروم اور وزیراعظم کا شہر سب کچھ ہڑپ کر جائے،
عوام کو اپنے روزگار کی فکر ہے تو عوامی نمائندوں کو اپنے پیٹ کی ۔ نہ کوئی
سننے والا اور نہ سنانے والا!!! |