باوجود اس کے کہ سیاست میں اصول
پرستی کم اور موقع پرستی زیادہ ہوتی ہے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھا جاتا
ہے پھر بھی کچھ نہ کچھ اصول اور اخلاقیات کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے لیکن
بابری مسجد شہادت کے ذریعہ مرکز کے اقتدار تک پہنچنے والی بھارتیہ جنتا
پارٹی کوموجودہ سیاسی منظر نامہ کے تحت اب داغ اچھے لگنے لگے ہیں۔ذرائع
ابلاغ بتارہے ہیں کہ پارٹی کی سرپرستی میں ان دنوں اتر پردیش کی سیاست میں
داغدار دامنوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل بدعنوانی کے
الزامات میں بہوجن سماج پارٹی سے نکالے گئے بابو سنگھ کشواہا سمیت متعدد
سابق وزراءاور ارکان اسمبلی کیلئے بی جے پی نے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔
ان داغدار وزراء، ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کو نہ صرف یہ کہ بی جے پی میں
شامل کیا جا رہا ہے بلکہ ان میں سے زیادہ تر کو پارٹی کے ٹکٹ سے بھی نوازا
جا رہا ہے۔ ان کے علاوہ عصمت دری سے لے کر رشوت خوری کے ذریعہ پارلیمنٹ میں
سوال پوچھنے کے مجرم لیڈروں کے نام بھی بی جے پی کے امیدواروں کی فہرست میں
شامل ہیں۔
بی جے پی کے اس فیصلے نے اس کے بہت سے حامیوں کو ساکت و جامد کر دیا ہے ،
تجزیہ کاروں کو چونکا دیا ہے اور تمام لوگ حیرت کا ا ظہارکر رہے ہیں۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ جو پارٹی خود کو اپنے ’چال(برتاؤ) ،چرتر( کردار) اور چہرہ ‘کی
بنیاد پر تمام پارٹیوں سے الگ یعنی’دی پارٹی ود ھ ڈفرینسThe Party with a
Difference بتاتی رہی ہے اوربھئے(خوف) ، بھوک اور بھرشٹاچار(بدعنوانی) کے
خلاف لڑنے کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتی ، وہ بدعنوانی کے الزامات میںدوسری
پارٹیوں سے نکالے گئے لوگوں کو تھوک کے بھاؤ میں اپنے پالے میں کیوں شامل
کر رہی ہے؟ سوال یہ بھی پیدا رہا ہے کہ جو بی جے پی دوسری جماعتوں کے
داغیوں کے مسئلے پر آسمان سر پر اٹھائے رکھتی ہے ، اور رام راجیہ اور جرائم
کے خلاف دم بھرتی رہتی ہے ، وہ کس منہ سے ان داغیوں کا دفاع کر رہی ہے؟
دوسری پارٹیوں کے داغی بی جے پی میں آکر پارٹی کیلئے توقیرکا ذریعہ کس طرح
بن جاتے ہیں؟
مزے کی بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے محض چار دن قبل جن بابو
سنگھ کشواہا کو اتر پردیش میں دس ہزار کروڑ روپے سے زائد کے مشہور قومی
دیہی صحت مشن گھوٹالے کا محرک بتایا تھا اور جو سی بی آئی جانچ کے دائرے
میں ہیں ، انہیں بی جے پی نے باعزت طریقے سے پارٹی میں شامل کر لیا لیکن
کشواہا اکیلے داغی لیڈر نہیں ہیں جن کا بی جے پی نے اس طرح بانہیں پھیلا کر
استقبال کیا ہے۔ ایسے بی ایس پی وزراء، ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کی تعداد
اچھی خاصی ہے جنہیں ان کی الیکشن جیتنے کی قابلیت کی بنیاد پر پارٹی میں
شامل کیا گیا ہے۔
ایسے لیڈروں میں مایا وتی حکومت کے ایک اور سابق وزیر بادشاہ سنگھ ہیں ،
جنہیں لوک آیکت تحقیقات میں مجرم پائے جانے کی وجہ سے ہٹایا گیا تھا۔ کچھ
اور وزراءجیسے اودھیش ورما ، ددن مشرا وغیرہ کو بھی مایاوتی نے ایسے ہی
الزامات میں کابینہ سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ بی جے پی نے ان تمام کو
ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ کئی اور سابق بی ایس پی وزیر ، رکن اسمبلی اور ممبر
پارلیمنٹ قطار میں اپنی باری کے منتظرہیں۔ تھوک کے بھاؤ میں داغیو ں کو
پارٹی میں شامل کرنے اور انہیں انتخابات میں امیدوار بنانے کے فیصلہ کی
میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں خوب تنقید ہوئی ہے۔ یہی نہیں ، بی جے پی کے
اندر بھی مخالفت کی اکا دکاصدائیں بلند ہوئی ہیں بلکہ اخباری رپورٹوں کے
مطابق لال کرشن اڈوانی سمیت کئی سینئر رہنما بھی ناراض ہیں۔
لیکن اعلان طور پر پارٹی کے ترجمان اور لیڈر مختلف قسم کے دلائل کے ذریعہ
اس فیصلے کو جائز ٹھہرانے میں مصروف ہیں۔ پارٹی کے ترجمان مختار عباس نقوی
کے مطابق ’بی جے پی وہ گنگا ہے جس میں کئی پرنالے گرتے ہیں لیکن اس سے گنگا
کی پاکیزگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دوسری ترجمان نرملا سیتارمن کے مطابق
’یہ فیصلہ کسی جلدبازی میں نہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا ہے۔ اس کا
مقصد پسماندہ خاص طور پر انتہائی پسماندہ ذاتوں کی قیادت کو آگے بڑھانا ہے۔
سینئر بی جے پی لیڈر یشونت سنہا کو بابو سنگھ کشواہا میں مایاوتی کی
بدعنوان حکومت کے خلاف’وسل بلور ‘دکھ رہا ہے۔
مگر بی جے پی لیڈران اور ان کے حامی دانشوروں کو احساس ہے کہ بدعنوانی کے
خلاف قائم ملک گیر رائے عامہ اور سیاسی ماحول میں پارٹی کا متوسط طبقہ اس
فیصلے کو ہضم نہیں کر پا رہا ہے۔ اس کی بے چینی کو بھانپتے ہوئے ٹی وی
مذاکروں میں کئی بی جے پی لیڈر اور دانشور رائے عامہ کو اس بنیاد پر مطمئن
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چونکہ یہ داغی پارٹی میں نچلی سطح کے لیڈر ہیں
اور رہیں گے اور پارٹی کی اعلٰی قیادت صاف ستھری ہے ، اس لئے یہ داغی پارٹی
کی پالیسیوں اور حکومت کو متاثر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس فیصلے کا
دفاع ’عملی سیاست کے تقاضوں‘ کی بنیاد پر بھی کیا جا رہا ہے کہ اتر پردیش
میں بی ایس پی ، ایس پی اور کانگریس کے مافیا اور بدعنوان امیدواروں سے
نمٹنے کیلئے بی جے پی کو بھی ایسے عناصر کو میدان میں اتارنا نہایت ضروری
ہے جو الیکشن جیت سکیں۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی کی ان دلیلوں میں کوئی دم نہیں ہے۔ یہ
دلیلیں اس کے عروج سیاسی زوال پر پردہ ڈالنے کی محض ناکام کوشش ہیں۔ سچ
پوچھئے تو بی جے پی کے اس فیصلے پر حیرانی سے زیادہ ہنسی آتی ہے۔ بی جے پی
کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پارٹی اس کھیل میں ماہر ہو چکی ہے۔ اس
کیلئے موقع پرستی اب صرف حکمت عملی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی فلسفے کا
حصہ بن چکا ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ بی جے پی فوری سیاسی فائدہ اور اقتدار
کیلئے اپنے اعلان کردہ سیاسی اصولوں اوراقدار کی قربانی چڑھاتی آئی ہے۔
بی جے پی کی سیاست میں بابو سنگھ کشواہا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
نوے کی دہائی میں کانگریسی رہنما اور اس وقت کے وزیر مواصلات سکھرام کی
بدعنوانی پر کارروائی کی مانگ کے سلسلے میں بی جے پی نے تیرہ دن تک
پارلیمنٹ نہیں چلنے دی تھی لیکن ہماچل پردیش میں اقتدار کیلئے انہی سکھرام
سے ہاتھ ملانے میں اسے کوئی حجاب نہیں ہوا۔ اسی طرح یو پی اے حکومت کے وزیر
شیبو سورین کو داغی بتا کر کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ پر بی جے پی نے
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر خوب ہنگامہ کیالیکن جھارکھنڈ میں اضافہ اور توڑ
کرکے انہیں شیبو سورین کے ساتھ وہ اقتدار کا مزہ لوٹ رہی ہے۔
بی جے پی نے اتر پردیش میں پہلے کلیان سنگھ کی قیادت میں دل بدلو ،
بدعنوانی اور مجرمانہ پس منظر والے ارکان اسمبلی کے ساتھ سب سے بڑی کابینہ
بنا کر اور پھر مایاوتی کی قیادت میں بی ایس پی کے ساتھ اقتدار کی شراکت
کرکے سیاسی موقع پرستی کا نیا ریکارڈ بنایا۔ بی جے پی کی سیاسی تاریخ میں
ایسی موقع پرستی کی ایک پوری سیریز ہے۔ کرناٹک میں پارٹی نے کان کنی مافیا
کے طور پر بدنام زمانہ رےڈڈی برادران کی بغاوت کے بعد ان کے آگے گھٹنے ٹیک
دئے اور بعد میں بدعنوانی کے سنگین الزامات میں پھنسے یدیورپا نے بھی بی جے
پی قیادت کی پوری فضیحت کرانے کے بعد ہی استعفی دیا۔
آج بدعنوانوں ، مجرموں اور دولتمندوں کو سیاسی تحفظ دینے میں بی جے پی کسی
بھی پارٹی سے آگے نظر آتی ہے۔ پارٹی میں ایسے عناصرکے رسوخ بہت گہری ہو چکے
ہے۔ یہ کہنا ایک فریب ہے کہ بی جے پی کی اعلی قیادت نہایت صاف ستھری ہے ‘
اس لئے نچلے سطح پر ایسے بدعنوان ، مجرم ، موقع پرست عناصر کے ہونے سے کوئی
فرق نہیں پڑے گا۔
بی جے پی کے رہنما بھلے ہی قبول نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بدعنوان
اور مجرم عناصر کے آگے اعلٰی قیادت پوری طرح سے لاچار ہو چکی ہے۔ اس کی
لاچاری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اڈوانی سے لے کر سشما سوراج تک
اور اوما بھارتی سے لے کر آر ایس ایس کی مبینہ ناراضگی کے باوجود پارٹی
بابو سنگھ کشواہا اور دیگر داغیوں کو نکالنے کے لئے تیار نہیں ہے؟ کیا یہ
ممکن ہے کہ پارٹی کے سب سے اوپر لیڈر اور یہاں تک کہ آر ایس ایس بھی جس
فیصلے سے ناراض ہو ، اسے پلٹنا اتنا مشکل ہو؟ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ
یا تو پارٹی کے سرفہرست لیڈران کی مبینہ ناراضگی صرف عوامی دکھاوے کیلئے ہو
یا پھر انہوں نے ایسے عناصر کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
بی جے پی اور اس کے سرفہرست لیڈران کیلئے یہ دونوں ہی باتیں درست محسوس
ہورہی ہیں۔ دراصل وہ گڑ بھی کھانا چاہتے ہیں اور گلگلوںسے بچنے کا ڈرامہ
بھی کرتے ہیں۔ دراصل ، ایک قومی پارٹی کے بطور بی جے پی کاسیاسی نظریاتی
دیوالیہ پن جیسے جیسے اجاگر ہوتا جا رہا ہے ، اس کیلئے اقتدار ، وسائل کی
بجائے ندامت بنتی جا رہی ہے۔ جب اقتدار ہی ندامت بن جائے تو اسے حاصل کرنے
کیلئے پارٹی کو کوئی بھی جوڑ توڑ کرنے ، کسی بھی تگڑم یا چالبازی کا سہارا
لینے اور بدعنوان مجرم عناصر کے ساتھ خلط ملط ہونے میں کوئی حجاب نہیں رہ
گیا ہے۔ اسلئے اتر پردیش میں جوکچھ ہو رہا ہے ، وہ بی جے پی کے اسی سیاسی
نظریاتی دیوالیہ پن سے پیدا ہوئے موقع پرستی کی دین ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ یہ سیاسی نظریاتی دیوالیہ پن ایک ایسی ابن الوقتی
بن چکی ہے جس سے اقتدار کے کھیل میں شامل کوئی بھی پارٹی اچھوتی نہیں بچی
ہے۔ حیرانی کی بات نہیں کہ داغی عناصر ایک سے دوسری ، دوسری سے تیسری اور
تیسری سے چوتھی جماعت میں داخل ، احترام اور فیصلہ کن مقام حاصل کرنے میں
آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک پارٹی کیلئے داغی شخصیت ، دوسری کیلئے
سیاسی کامیابی کی کنجی ہے۔ یہاں تک کہ یہ مان لیا گیا ہے کہ یہی عملی سیاست
ہے اور عملی سیاست محض اعلیٰ خیالات، اصول اور اقدار سے نہیں چلتی۔ مطلب یہ
کہ اس میں اگر آپ کامیاب ہیں تو سب کچھ جائز ہے۔
بی جے پی کے ساتھ خاص بات یہ ہے کہ وہ سیاسی اخلاقیات ، پاکیزگی اورخیر
سگالی کی جتنی ہی زیادہ شیخیاں بگھارتی ہے ، اتنے ہی دھڑلے سے ان کی دھجیاں
بھی اڑاتی ہے۔ اس میں اسے کوئی حجاب یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔ اس معاملے
میں اس کی ڈھٹائی شاید ہی کوئی اور پارٹی مقابلہ کر سکے گی۔ اس کا واضح
مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی جس مشتعل ہندوتو اور ثقافتی حب الوطنی پر مبنی
سیاست کرتی ہے ، اس میں اس کے پاس داغیوں کو ہندوتو اور قوم پر ستی کی نقاب
کے پیچھے چھپانے کی موقع پرست سہولت ہے۔ یہ ’سہولت‘کسی اور پارٹی کومیسر
نہیں ہے۔
سیموئل جانسن نے کہا تھا کہ ’قوم پرستی اور حب الوطنی لفنگوں کی آخری
پناہگاہ ہوتی ہے۔‘ بدعنوان مجرم اور داغی عناصر کو بی جے پی اسی لئے بہت
متوجہ کرتی ہے۔ ایسے عناصر بی جے پی میں آکر نہ صرف حب الوطنی اور ہندوتوا
کے پرچم کے زیر سایہ اپنے تمام گناہوں کو ڈھکنے اور چھپانے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں بلکہ بڑے آرام سے اپنے کالے کاروبار کو بھی جاری رکھ پاتے ہیں۔
جانے انجانے میں مختار عباس نقوی نے بی جے پی کوگنگا سے موازنہ کرتے ہوئے
ہندوتو کی علامت کا ہی استعمال کیا۔ بی جے پی کی سیاست کی یہی اصلیت ہے
لیکن ہندوتو اور قوم پر ستی کی تنگ اور نفرت پر مبنی سیاست سے اور امید بھی
کیا کی جا سکتی ہے۔اگر غور کیا جائے اور سوچا جائے تو سیاست جس چڑیا کا نام
ہے اس میں وہی لوگ کامیاب و کامران رہتے ہیں جو وقت کے مطابق فیصلے کرتے
ہیں‘ وقت کے مطابق چلتے ہیں ‘ جو لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں وہ لکیر ہی
پیٹتے رہ جاتے ہیں جبکہ دین سے خالی سیاست تو نام ہی موقع پرستی کا ہے۔عدل
وانصاف سے محروم سیاست کی اپنی اخلاقیات ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز
ہے ۔ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست اور اقتدار میں سب جائز ہے۔ |