مشرق وسطی میں نہتے فلسطینیوں کو
ظلم و جبر کا نشانہ بناکر امن و امان کو غارت کرنے کے بعد اسرائیل نے جنوبی
ایشیاءمیں بھی پر پھیلانے شروع کردئے ہیں۔ ہندوستان نے اسرائیل کو 1950میں
تسلیم کیا تاہم9 2جنوری 1992کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کئے۔تب سے
آج تک حالات میں کافی تبدیلی آ چکی ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ گاندھی جی
سمیت کانگریس کی قیادت مذہب کے نام پر تقسیم ہند کی مخالف تھی۔ اسرائیل بھی
یہودیت کے نام پر قائم ہوا تو سرکاری اور اصولی طور پر اس کی مخالفت کی گئی۔
گاندھی جی نے مذہب کے نام پر اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی جبکہ سنگھ
پریوار اسرائیل کے قیام کا کھلم کھلا اور زبردست حامی تھا۔ان دنوں ملک کی
سابقہ روایتوں کو طاق پہ رکھتے ہوئے ہند-اسرائیل سفارتی رشتوں کے قیام کی
20سالہ سالگرہ منائی جارہی ہے جس کے تحت وزیر خارجہ اسرائیل کے 2روزہ دورے
پر ہیں جہاں ان کے ہم منصب ابکڈور لیہہ برمن نے شکریہ ادا کیا کہ اس قدم سے
ہند -اسرائیل تجارتی تعلقات کومزید فروغ ملے گا۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف
یروشلم میں ہند-اسرائیل قربتوں میں اضافے کے دوران ایس ایم کرشنا کا خیر
مقدم کرتے ہوئے اسرائیل کے صدر شمعون پیریزنے جہاں مہاتما گاندھی کو
’پیغمبر‘ جبکہ پنڈت جواہر لال نہرو کو ’بادشاہ‘قرار دیا ہے تو دوسری جانب
دفاع، سکیورٹی، ذراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کے تحت
ہائی ٹیک سیکٹر میں ہند- اسرائیل تعاون کوفروغ دینے کی غرض سے ہندوستان نے
بنگلور میں ایک قونصل خانہ کھولنے کیلئے یروشلم کواجازت دینا منظور کیا ۔
اسرائیلی ہائی ٹیک سیکٹر کے سینئر نمائندوں کے کئی دفاتر بنگلورمیں ہیں۔
انہوںنے بھی اس قدم کا خیرمقدم کیا اورکہا کہ اس سے ایک دوسرے کی جگہوںتک
سفر کرنے کیلئے لاگت اوروقت میں کافی کمی آئی ہے ۔ اسرائیل کا پہلے ہی
ممبئی میں ایک قونصل خانہ ہے اورنئی دہلی میں اس کا سفارت خانہ واقع ہے ۔واضح
رہے کہ گزشتہ تقریبا ایک دہائی کے دوران ہندوستان کے کسی وزیر خارجہ کا یہ
پہلا اسرائیلی دورہ ہے۔ایس ایم کرشنا نے اپنی تقریر میں پیریز کو ہنر مند
لیڈر بتاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو خود کفیل بننے میں اسرائیل سے سبق
ملاہے۔ ہر جنگ کے بعد اسرائیل پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر ابھرا ہے۔ سفارتی
تعلقات سے قبل بھی ہندوستان اور اسرائیل کے فوجی اور سیاسی سطح پر غیر
اعلانیہ تعلقات تھے۔ ہندوستان نے اسرائیل اور عرب ممالک سے بیک وقت اچھے
تعلقات قائم کرکے ایک طرف اسرائیل سے اسلحہ خریدا دوسری طرف آج عرب ممالک
میں کام کرنے والے لوگوں میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سب سے
زیادہ ہے ۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کا بھی کوئی امتیاز نہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی حکومت سات ہزار سے زیادہ ہندوستانی یہودیوں کو
اسرائیل میں بسنے کی بھی منظوری دی۔ یہ ہندوستانی یہودی خود کو اسرائیل کے
کھوئے ہوئے قبیلے کی نسل کا بتاتے ہیں۔ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں ناگا
لینڈ اور منی پور میں ہزاروں یہودی آباد ہیں اور انہیں بنی مناشہ کہا جاتا
ہے۔ اسرائیل کے ربائیوں کے ادارے نے انہیں اسرائیلی نسل کا تسلیم کر لیا
تھا اور گزشتہ برسوں میں تقریباً 2000 بنی مناشہ اسرائیل منتقل ہوئے لیکن
سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی حکومت نے2007 میں ان کے امیگریشن پر روک
لگا دی تھی۔اسرائیل کے اخبار ’ا جیروسلم پوسٹ‘ نے خبر شائع کی کہ امیگریشن
اور اسرائیل میں بسانے سے متعلق وزارتی کمیٹی نے ہندوستان کی شمال مشرقی
ریاستوں کے باقی بچے ہوئے 7232 یہودیوں کو اسرائیل لانے کی اصولی طورپر
اجازت دے دی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بنی مناشہ کا تعلق اسرائیل کے دس کھوئے ہوئے
قبیلوں سے ہے جن کے بارے میں روایت ہے کہ انہیں2 ہزار7 سو برس قبل ان کے
خطے سے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ہندوستانی یہودیوں کے بارے میں خیال ہے کہ
جلا وطنی کے بعد وہ صدیوں تک وسطی ایشیا اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھٹکتے
رہے اور بالآخر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں انہوں نے مستقل سکونت
اختیار کی۔بنی مناشہ کے باقی بچے ہوئے ارکان کو ہندوستان سے اسرائیل آنے کی
اجازت دیے جانے پر اسرائیل کے ایوینجی لیکل عیسائیوں نے خوشی کا اظہار کیا
۔بنی مناشہ کے باقی بچے ہوئے ارکان کو ہندوستان سے اسرائیل آنے کی اجازت
دیے جانے پر اسرائیل کے ایوینجی لیکل عیسائیوں نے خوشی کا اظہاربھی کیا ۔
ان کی واپسی کو وہ اپنے عقیدے کا حصہ مانتے ہیں اور ان عیسائی گروپوں نے
کہا کہ وہ بنی مناشہ کو ہندوستان سے اسرائیل لانے میں مالی مدد کریں گے۔ان
کا عقیدہ ہے کہ یہودیوں کی واپسی کا ذکر ان کی مذہبی کتاب انجیل میں کیا
گیا ہے اور ان کی واپسی مکمل ہونے پر ہی حضرت عیسٰی مسیح کا ایک بار
پھرظہور ہوگا۔دنیا بھر میں کھوئے ہوئے یہودیوں کی تلاش اور ان کی شناخت کا
کام کرنےوالی تنطیم ’شیوی اسرائیل‘ کے بانی مائکل فرائنڈ نے کہا کہ ’مجھے
پوری امید ہے کہ آئندہ ہفتوں میں ہمیں تاریخی کامیابی ملنے والی ہے جس کے
تحت بنی مناشہ کے کھوئے ہوئے لوگ وابس اسرائیل آ جا ئیں گے جبکہ ہندوستانی
یہودیوں کو تین سے پانچ برس کے درمیان مرحلے وار طریقے سے لایاجائے
گا۔اسرائیل کے ’واپسی کے حق کے قانون‘ کے تحت ہر یہودی یا یہودیوں کی نسل
کے لوگوں کو خود بخود اسرائیل کی شہریت مالی مدد دی جاتی ہے۔ہندوستانی
یہودیوں کو اسرائیل لانے پر تقریباً دو کروڑ ڈالر خرچ ہونے کاتخمینہ ہے۔
انہیں بسانے اور مالی امداد کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ذرائع پر یقین کریں
تواسی پر بس نہیں بلکہ ہندوستان اور اسرائیل فوجی تعاون میں اضافہ کررہے
ہیں اس سلسلے میں ہندوستان اسرائیل سے 1.1 بلین ڈالر (ایک ارب 10 کروڑ ڈالر)
کا جدید ترین فضائی دفاعی نظام خریدے گا۔یہ نظام 2017میں ہندوستان کے حوالے
کیا جائیگا۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز ہندوستانی آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے
اسرائیل میں اعلیٰ سطح کے مذاکرات کئے جس کے بعد یاراک 8 سسٹم کی ہندوستان
کو فروخت کا معاملہ سامنے آیا۔ بحری جہازوں پر نصب کیا جانیوالا یاراک 8
نظام اسرائیل کے سرکاری ادارے ائیراسپیس انڈسٹریز کا تیار کردہ ہے جس کے
ذریعے اہداف کی طرف آنیوالے میزائلوں‘ طیاروں اور ڈرونوں کو نشانہ بنایا
جاسکتا ہے۔ اسرائیل حکام کے مطابق اس نظام کے جدید ترین ورڑن کو زمین پر
بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل ہندوستان کو سب سے زیادہ جنگی
ہتھیار فراہم کرنیوالا ملک ہے۔ ایک اسرائیلی افسر کے مطابق ہندوستان یاراک
سسٹم پہلے بھی حاصل کرچکا ہے۔ اسرائیلی افسروں نے بتایا کہ یاراک 8 کے
معاہدے پر اپریل میں دستخط ہونگے اور ڈلیوری 6 سے 8 برس میں ہوگی۔ واضح رہے
کہ ہندوستانی آرمی چیف اس سے قبل اسرائیل کے 4 روزہ دورے پر پہنچے تھے۔ اس
سے قبل 2006میں بھی دونوں ممالک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔
|
|
غورطلب ہے کہ1950تا1980 کے درمیان تقریباً 40یا50 ہزار یہودیوں نے اسرائیل
ہجرت کی۔ ان کی اکثریت کو ملک کے تیسرے درجے کے شہروں میں آباد کیا گیا۔
جنوبی اسرائیل کا ریگیستانی شہر بیر شیوا Beersheva ایک ایسا ہی شہر ہے
جہاں 10ہزار سے زیادہ مراٹھی بولنے والے یہودی آباد ہیں۔بین گورین
یونیورسیٹی کی شاندار عمارت کو دیکھ کر تو یہ ایک متوسط شہر معلوم ہوتا ہے
لیکن اندرونی علاقوں کی ٹوٹی ہوئی عمارتیں اس کی اصل پہچان ہیں۔ اس کے
برخلاف کوچینی یہودیوں کو ذرخیز علاقوں میں بسایا گیا ہے۔حکومت کی اس غیر
منصفانا پالیسی پر برہم ہبرو یونیورسٹی کی ڈاکٹر سیلوا بیل کہتی ہیں
’یوروپین یہودیوں کو تو یوروشلم اور تل ابیب جیسے شہروں میں بسایا جاتا ہے
جبکہ ہندوستان سے آئے یہودیوں کو دھول اور گندگی سے بھرے ڈائے نما، اسڈور،
لاد، رام لے اور بیر شیبہ جیسے شہروں میں پھنک دیا جاتا ہے۔ فلسطینی علاقوں
سے قریب ان شہروں میں اکثربمباری ہوتی رہتی ہے۔ 1970میں اسرائیل ہجرت کرنے
والے بینیں اسرائیلی رہنماں ریمنڈکے مطابق ’ہندوستان میں ہم کافی خوش تھے ،وہاں
ہمیں کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑنی پڑی۔ یہاں ہمیں روز یہ سب کچھ کرنا
پڑتا اور یہ سب ہمارے کالے رنگ کی وجہ سے ہے۔‘ ممبئی سے گئے انجینیر یووال
ابراہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں’ اگر آپ گورے اشک نازی یہودی نہیں ہیں تو
آپ کے ساتھ دوم درجہ کے شہری جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔1997 میں تو اشک نازی
ربی اعظم نے ہندوستانی یہودیوں (بغدادیوں کو چھوڑکر) سے ازدواجی تعلقات
قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔یہودی روایات و آداب میںناپختگی اس
کی سب سے بڑی وجہ قرار دی گئی تھی۔جب کہ ہندوستان میں کبھی ان کو اس طرح کے
برتاو کا سامنا نہیں کرنا پڑابلکہ یہاں یہودی ہونے کی وجہ سے انکو کافی عزت
حاصل تھی۔ 20 ویں صدی کے مشہورشاعرNissim Ezekiel کو قومی عزاز پدم شری سے
بھی نوازہ گیا۔ دہلی سینوگوگ (یہودی عبادت گاہ) کے موجودہ صدراور 1971کے
ہند-پاک جنگ کے فوجی ہیر و لیفٹیننٹ جنرل فیڈرک جیکب Lieutenant General
Frederick Jacobجو بعد میں پنجاب کے گورنر بنے ، کلکتہ کے یہودی تھے۔ ممبئی
فلم انڈسٹری بالی ووڈکی ابتدا میں بھی یہودیوں کا کافی اہم کردار رہا ہے
کیوں کہ بالی ووڈ سے ان کا قریبی تعلق تھا۔ بکرپرایز سے نوازی گئی مشہور
ناول نگار انیتہ دیسائی بھی ہند نژاد یہودی ہیں۔ الی بین مناچین لیبر پارٹی
کے ایم پی بننے میں کامیاب ہو سکے جبکہ ممبئی میں یہودی تین بار مییربن چکے
ہیں۔مہاجر یہودیوں کی دوسری اور تیسری نسل کافی جد و جہد کے بعد معاشرے میں
اپنا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ بھی تب جبکہ انہوں نے یوروپین (اشک نازی) طرز کے
ملبوسات ، کھانے پینے ، رہن سہن اور زبان کو پوری طرح اپنا لیا ہے لیکن نسل
اول اب بھی اپنی جڑوں سے وابستہ رہنا چاہتی ہے۔وہ آج بھی اپنے گھروں میں
ہندوستانی کھانے،موسیقی اوررقص کا اہتمام کرتے ہیں۔انہوںنے ایسے میوزیم
اورثقافتی مرکز قائم کئے ہیں جس سے ہندوستان سے ان کے قریبی تعلق کا اظہار
ہوتا ہے۔انہوں نے میے بولی جیسی مراٹھی رسائل کی اشاعت شروع کی ہے تو وہیں
مراٹھی کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی طلب دن بہ دن بڑھی۔روایتی ملیالم
موسیقی کو پروان چڑھانے کی کوششیںتو پچھلی دہائیوں سے ہی جاری ہیں۔یہاں تک
کہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے انہوں نے ہندوستان میں موجود یہودی
تاریخی مقامات کی تعمیر نو اور حفاظت کا بیڑا اٹھا یا۔ اسرائیل میں مقیم
کوچینی یہودیوں کے مطالبہ پر حکومت کیرلہ کو سرکاری خرچے پر چنڈامنگلیم میں
واقع قدیم یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کرنی پڑی جبکہ صوبہ میں کل یہودیوں کی
تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوگی۔فروری 2006میں اسی سینوگوگ میں ایک ادارہ قایم
کیا گیا جہاں سے اسرائیل میں مقیم یہودیوں کے بارے میںتفصیلات حاصل کی جا
سکتی ہیں۔ کیرلہ ٹورزم نے باقائدہ یہودی سیاحت کو فروغ دینے کا بھی فیصلہ
کیا ۔ حکومت گجرات نے آب پاشی کا جو نیاDrip irrigation system شروع کیا
اسے بھی ہندوستانی یہودیوں نے ہی متعارف کرایا ہے۔صوبہ بہار میں بھی ہند
نژاد یہودیوں نے کئی کیمیکل فیکٹریاں لگانے کا منصوبہ بنایا ۔ مہاراشٹرا کی
حکومت سے ان کے قریبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہٹلر
کے نام پر کھلنے والے ریسٹورینٹ کو شہر میں آباد پانچ ہزار یہودیوں کے
علاوہ اسرائیل میں مقیم مراٹھی یہودیوں کی منھ بھرائی کی خاطر راتوں رات
بند کروا دیا۔7/11کے دھماکوں کے بعد وزیر اعلی دیشمکھ نے اعلان کیا کہ
تفتیش میں اسرایئلی خفیہ ایجینسی موساد سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ہندو-یہودی مذہب کے بیچ تاریخی تعلق کی دریافت کی سنجیدہ
کوششیں پچھلے کئی برسوں سے جاری ہیں۔Journal of Indo-Judaic Studies کے زیر
اہتمام فلوریڈہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے مذاہب کے پروفیسرNathan Katz تو
1995سے اس پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے یہودیوں،اسرائیل اور
ہندوستان کے درمیان کئی مشترکہ قدروں کی تلاش کی ۔پروفیسر ناتھان اپنی
تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ اس تور پر بیان کرتے ہیں کہ ہندوستانی اور یہودی
تہذیب کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ا ن دونوں کے درمیان قدیم زمانے سے ہی
مضبوط ثقافتی ،ادبی اور تجارتی تعلق ہے۔ شاید اسی لئے اسرائیلی سفیر ڈاکٹر
یہودہ ہیم نے لال کرشن اڈوانی کے بارے میں کہتیں ہیںکہ مجھے تو ان میں اپنے
آباءو اجداد کی جھلک نظر آتی ہے۔پروفیسر ناتھانے ایک ایسی حقیقت کی جانب
بھی اشارہ کیا ہے جس پر بہت کم لوگوں نے ہی کلام کیا ہے۔ان کے مطابق’ اب تو
مجھے اس بات پر تقریباًشرح صدر ہوچکا ہے کہ روحانیت کے بارے میں ان دونوں
مذاہب کے عقاید میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔واضح رہے کہ بظاہر یہودیت اور
ہندو ازم عقاید میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔یہودیت جہاں ایک
خدا،پیغمبر اورآخرت کے تصور کی قایل ہے تو ہندوا زم اس کی سرے سے ہی مخالف
ہے۔اس گتھی کوپروفیسر ناتھان اس طور پر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’یہ
تصور بھی صرف ان کے اعلٰی طبقوںElites میں ہی پایا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ
ہ اورفلسفیانہ سمجھ رکھتے ہیں۔ یہودیت کی ہی طرح ہندوازم بھی عقاید و
عبادات کی بجائے نسلی برتری کے تصورکو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی قائل ہے
بلکہ زیادہ درست تو یہ ہے کہ اس ’برتری‘کی حفاظت کیلئے ہی عقاید و مراسم کی
ایک چار دیواری کھینچ دی گئی ہے تاکہ بیرونی خطرات سے ان ’مذاہب‘کی حفاظت
ہوتی رہے۔ان دونوں ’مذاہب ‘کے ہزاروں سال سے باقی رہنے کا راز بھی اسی میں
پنہاں ہے۔ا س حقیقت کو عربوں نے بہت پہلے ہی پا لیا تھا جس کی نظیر ان کے
یہاںمشہوریہ جملہ ہے کہ’اتقواالیھود والھنود ولوبسبعین بطناً‘یہود اور ہنود
سے ستّر نسل تک بچتے رہو ۔ |