کہانی کب پیدا ہوئی اور کب تک
جاری و ساری رہے گی، اس کا جواب اب تک کوئی نہیں دے سکا ہے، مگر دنیا میں
جب تک کہانی موجود رہے گی اس وقت تک سعادت حسن منٹو کا نام زندہ رہے گا،
کیوں کہ اس وقت تک منٹو کی کہانی بامعنی رہے گی۔ بلکہ اس میں نئے زاویے
پیدا ہو تے رہیں گے۔
سعادت حسن منٹو کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک
محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔
منٹو 11مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانے میں پیدا ہو ا ۔ ان کے والد
لدھیانے کی کسی تحصیل میں تعینات تھے-منٹو کے دوست اور سوانح نگار ابو سعید
قریشی کے مطابق سعادت حسن بچپن ہی سے کھلنڈرے اور شرارتی قسم کے لڑکے تھے
جو اپنے دوستوں کو چونکا دینے کے لئے غیر معمولی شرارتیں کیا کرتے تھے۔
دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے ۔منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ
تھا۔ سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ
ظاہر نہ کر سکتے تھے۔ ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے
تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔
|
|
1921میں انہیں ایم اے او مڈل سکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان
کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل
ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے
ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر منٹو نے ایم او
کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع
بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ
ٹیک سنگھ ، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی
مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ 18 جنوری 1955 میں 43 سال کی
عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
سعادت حسن منٹو اردو کے واحد کبیر افسانہ نگار تھے جن کی تحریریں آج بھی
ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کے افسانہ
مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک تھے۔ منٹو ایک معمار
افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-افسانہ مجھے
لکھتا ہے منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری
انسانی جدوجہد بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے
نے لکھا ۔
|
|
منٹو نے دیکھی پہچانی دنیا میں سے ایک ایسی دنیا دریافت کی جسے لوگ اعتنا
نہیں سمجھتے تھے یہ دنیا گمراہ لوگوں کی تھی۔ جو مروجہ اخلاقی نظام سے اپنی
بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں پر چلتے تھے ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے
بھی ۔ یہ لوگ منٹو کا موضوع تھے اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی
تبدیلی تھی جو معمار افسانہ نویس کی پہلی اینٹ تھی۔ ان کے افسانے محض
واقعاتی نہیں تھے ان کے بطن میں تیسری دنیا کے پسماندہ معاشرے کے تضادات کی
داستان موجود تھی۔
منٹو نے شروع میں ترقی پسند نظریات کے حامل افسانے لکھے جس کے بعد ان کے
اسلوب اور تخلیق میں مسلسل نکھار آتا گیا اور پھر ان کی ہر تحریر آنے والے
وقت کا ادبی معیار بنتی گئی۔ منٹو بر صغیر کی تقسیم کے بعد بھارت میں بمبئی
سے پاکستان آ کر لاہور میں قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں انہوں نے اپنی زندگی
کے آخری سال گزارے۔
|
|
منٹو نے نہ صرف اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ اس کے
بعد آنے والی نسل بھی اس کی کہانی کا جواب پیدا نہیں کر سکی۔ شاید اسی لیے
منٹو نے لکھا تھا ”سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا۔ “ |