روس کو گرانے کیلئے امریکہ نے
پاکستان اورمجاہدین کو استعمال کیا ۔جب روس کو شکست ہو گئی ۔ بلکہ روس کی
شکست و ریخت ہو گئی تو پاکستان کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پرے پھینک
دیا۔ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ امریکہ نے طالبان کی مدد کی
بلکہ امریکہ نے طالبان خود بھی بھرتی کئے۔ طالبان ابھرے ، ملاعمرکی سرکردگی
میں طاقت پکڑی اور پورے ملک پر چھا گئے۔ ٹوٹے پھوٹے زخم زخم افغانستان میں
طالبان نے ملا عمر کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی وہ اس وقت دنیا میں سب
سے پر امن حکومت تھی۔
تب عالم کفر اور اس کے سرخیل امریکہ کی آنکھیں کھلی اور کان کھڑے ہوئے کہ
غلط ہو گیا۔ یہ تو اسلام کے نام لیوا اوپر آ گئے۔ انھیں فکرلاحق ہو گئی کہ
کمیونیزم کے بعد اب اسلام ہمارے مد مقابل آگیا۔سرجوڑ کربیٹھے اور 9/11 کا
ڈرامہ سٹیج کیا گیا اوراسامہ کابہانہ بناکر سرزمین جہاد افغانستان پر چڑھ
دوڑے ۔ اس وقت پاکستان پرایک آمر مشرف مسلط تھا۔مشرف نے انتہائی بزدلی،بے
غیرتی، بے حمیتی کامظاہرہ کیا ۔امریکہ کے آگے لم لیٹ ہو کر اسکی خواہش
اورتوقع سے بڑھ کر تعاون کیا۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے پاک سرزمین کو خالہ جی کا باڑہ سمجھ کر اس کے
زمینی راستوں کے علاوہ ہوائی اڈوں کابھی بے دریغ استعمال کیا۔ اور ساڑھے
ستاون ہزاربمبار پروازوں کے ذریعے افغان سرزمین پر آتش و آہن کی بارش بر سا
دی۔پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کھنڈرات اور راکھ کاڈھیر بنادیا۔اس
تباہی اوربربادی سے دنیا کی پرامن ترین حکومت ختم ہوگئی۔وہ طالبان جنھوں نے
کہا تھا کہ روس ختم ہو گیا۔ اب اپنے بھائی پاکستان کوکشمیر دلوائیں گے۔ اور
وہ طالبان ”اپنے بھائی“ کے تعاون سے ہی مارے گئے۔ ظلم و جبر کا تختہ مشق
بنائے گئے۔ تتر بتر کر دیے گئے۔
اور اس کے بعد پاکستان کوجو کچھ ملا وہ ظاہر ہے۔ بہت بڑی بدامنی خود کش
دھماکے، معاشی اورمعاشرتی تباہی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک بے مقصد اور
ناجائز جنگ کا ایندھن بن کر امریکہ کی غلامی کا پٹہ گردن میں ڈلوا
لیا۔اورمشرف کوکیاملا؟بے شک اس کا نام اسلام دشمنوں ، مسلم امہ کہ غداروں
اور بے غیرتوں کی فہرست میںجلی حروف کے ساتھ لکھا گیا۔ اس دنیا میںبھی بے
شمارلعنت اورپھٹکاراور آخرت میں بھی بے حساب لعنت اورپھٹکار۔
اللہ جل جلالہ کا وعدہ ہے ۔ فتح آخر ایمان والوں کی ہوگی۔ افغانستان کے
انہی کھنڈرات سے ، اسی خاکستر سے طالبان جاں گسل جدوجہد کے بعد اللہ کی
تائید و نصرت سے پھر ابھرے ۔ اوراب تک اس قدرزور پکڑ چکے ہیں کہ امریکی
اورنیٹو فوجی مخصوص شہروں اورچھاؤنیوں میں محصورہو کررہ گئے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔طالبان پہلے امریکہ نے خود ہی پرورش کئے
پھرجب انھوںنے پر امن حکومت قائم کرلی تو وہ گردن زدنی ٹھہر گئے۔ اب ان پر
بس نہیں چل رہاتوپسندیدہ ہو گئے۔ اور امر یکہ انہیں اپنے ساتھ ایک میز پر
بٹھانا چاہتاہے۔ ملا عمرکے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی گئی تھی۔ اب وہ
بھی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اورامریکہ اس کے
سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔”اچھے بھائی معاف کر دو۔ اورمجھے عزت کے ساتھ نکل
جانے دو“ ۔
امریکہ کے سب سے بہادر بقول ہمارے ملک صاحب ” انتہائی “ تربیت یافتہ فوجی
میرین کہلاتے ہیں۔ ان کے دل اور جگر ے کا اندازہ اس واقعہ سے لگا لیں ۔
جیکب آباد کے ایریا میں واقع کسی پٹرول پمپ پر ایک فوجی ٹرک آ کر رکا۔جس
میں کوئی دو درجن میرین بہادر سوار تھے۔ ٹرک میں پیٹرول ڈالا جا رہا تھا۔
کہ اتفاقاً ٹرک کا ٹائر پھٹ گیا۔ اس اچانک دھماکے سے سارے کے سارے میرین بے
ہوش ہو کر لمبے ہو گئے۔ پٹرول پمپ پر موجود لوگوں نے انھیں ہوش میں لانے
کیلئے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے ۔ خوب خوب جھنجھوڑا۔ بڑے جتن اور بڑی محنت
کی۔ وہ ہوش میں آ تو گئے ۔ لیکن ان کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی اور چہروں پر
مردنی چھا گئی تھی۔ ایک دم نڈھال اور لاچار ۔گویا برسوں کے بیمار ہوں۔ ٹائر
پھٹنے کے اس دھماکے کو انھوں نے خود کش حملہ سمجھا تھا۔ انھیں ہوش میں لانے
کی اس ساری کاروائی کے دوران یقینا لوگ اپنی بے اختیارہنسی کو منہ میں کپڑے
ٹھونس ٹھونس کر روکتے رہے ہوں گے۔
امریکہ اور اس کے حواری جو طالبان کو ختم کرنے کیلئے افغانستان میں آ ئے
تھے۔ ان کی حالت اب یہ ہے کہ وہ طالبان کے خوف سے اپنے محفوظ ٹھکانوں سے
ایک قدم باہررکھنے کی جرات نہیں کرتے۔ ہاں لا محالہ باہر جانا ہی پڑ جائے۔
تو پورے بندوبست کے ساتھ ۔ جدید ترین ہتھیار بند اور بکتر بند گاڑیوںمیں
بند ہو کر نکلتے ہیں۔ پورے بندوبست کامفہوم یہ ہے کہ ہر ایک بہادر پیمپر
بند بھی ہو۔ کیونکہ وہاں صورتحال ہی کچھ ایسی ہے کہ کسی لمحہ کچھ بھی ہو
سکتا ہے۔ کوئی دھماکہ ہی ۔ پتلون کا آلودہ یا گیلا ہو جانا معمولی بات ہے۔
چلو ایسا کچھ نہ بھی ہو ۔ تو گھنٹوں بکتر بند گاڑی میں بند رہنے والا وہ
آخر انسان ہی تو ہوتا ہے۔ جو کھاتا ہے ، پیتا ہے تو فطری نظام کے ہاتھوں
بھی مجبور ہوتا ہے۔ ایسی ضرورت پر گاڑی سے باہر نکلنا نری حماقت بلکہ خود
موت کو دعوت دینا ہی تو ہو گا۔ سب کو پورے یقین کی حد تک خوف ہوتا ہے ۔ کہ
بس باہر نکلے اور مارے گئے۔
اب کچھ دنوں سے پاکستان کے راستے نیٹو اور امریکن افواج کا سامان ضرورت
پہنچنا بند ہے۔ انتہائی ضروری اشیاءمیں پیمپر بھی شمار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ
بھی نہیں پہنچ رہا۔ امریکی اور اتحادی فوجی دہائی دے رہے ہیں ۔ سفارتی
ذرائع استعمال ہو رہے ہیں۔ ”انسانی ہمدردی “ کے واسطے دےے جا رہے ہیں۔ فوجی
ایک پیمپر کے پچاس پچاس ڈالردینے کو تیار ہیں۔
میرا تو مشورہ ہے کہ مشرف پاکستان نہ آئے ( ویسے بھی ۔ کعبہ کس منہ سے جاﺅ
گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی)۔ بلکہ فوراً ہی افغانستان چلا جائے اور
وہاں پیمپر دھونے کی لانڈری کھول لے۔ بیٹھے بیٹھے طبلہ بجائے اور پانچ ڈالر
فی پیمپر کمائے۔ بعد میں نئے پیمپر تیار کرنے کی فیکٹری لگا لے ۔ ڈالر جمع
کرنے کا شوق بھی پورا ہوتا رہے گا اور آقاﺅں کی خدمت گاری بھی جاری رہے گی۔
اسی طرح کے دوہرے فائدے پر آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کہاجاتا ہے۔ خیال
رہے کہ وہاں طالبان بھی ہوں گے۔ |