شام :شانہ بھی میرا اور نشانہ بھی میں ہی تھا

شام کے صدر بشار الاسد نےگزشتہ ہفتے دمشق یونیورسٹی سے براہ راست نشر ہونے والے خطاب میں عالمی قوتوں پر شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کا الزام لگا یا اور’دہشت گردوں‘ کے خاتمے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی قوتیں شام میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ کئی ماہ بعد قوم سے براہ راست خطاب میں صدر اسد نے کہا کہ ملک میں جاری دہشت گردی کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ہم ایسے افراد سے بالکل نرم برتاؤ نہیں کریں گے جن کے تانے بانے بیرونی طاقتوں سے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیح لوگوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو کہ انہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے حاصل ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دہشت گردی کا مقابلہ سختی سےکیا جائے۔شام میں پچھلے چالیس سالوں سے ایمرجنسی نافذ ہے اور الاسد خاندان کی حکومت ہے۔ چار دہائیوں تک ظلم و استحصال کی چکی میں پسنے والی شامی عوام نے جب بشار سے اپنی جان و مال کے تحفظ کی دہائی سنی ہوگی تو یقیناً انہیں ڈاکٹر فریاد آزر کے یہ اشعار یا دآئے ہوں گے ؎
اپنی تباہیوں کا بہانہ بھی میں ہی تھا
شانہ بھی میرا اور نشانہ بھی میں ہی تھا

مبصرین ابھی اس خطاب کے اسرارورموز پر اپنا سرکھپا ہی رہے تھے کہ بشار نے پینترا بدل کر مظاہروں میں ملوث افراد کی معافی کا اعلان کر دیا ۔ اس معافی کا اطلاق ان افراد پر ہو گا، جو پر امن انداز میں مظاہرے کرتے رہے ہیں اور جنوری کے اختتام سے قبل اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سے وہ منحرف فوجی بھی استفادہ کر سکیں گے جو ۳۱ جنوری سے قبل خود کو حکام کے حوالے کر دیں گے گویا ایک ہفتہ کے اندر آہنی پنجہ ڈھیلا ہو گیا یا کسی سازش کے تحت کردیا گیا ۔بشارالاسد کی فریب کاریاں اب نئی نہیں ہیں دنیا اسے سمجھ چکی ہے ۔ اس سے قبل صدر بشار الاسد کئی بار معافی دے چکے ہیں مگر حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ تقریباً چودہ ہزار افراد اب بھی جیلوں میں بند ہیں، جہاں ممکنہ طور پر انہیں تشدد یا بدسلوکی کا سامنا ہے۔

بشارالاسد کو عام معافی کا اعلان اس لئے کرنا پڑا کہ یہ شامی حکومت کے عرب لیگ کے ساتھ طے پانے والے اس منصوبے کا حصہ ہے، جس کی دیگر شرائط میں خونریزی کا خاتمہ، فوج اور ٹینکوں کی شہری علاقوں سے واپسی اور مخالفین کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آغاز شامل ہیں ۔ابھی حال میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے اعتراف کیا کہ الاسد حکومت یا تو عرب لیگ کے امن منصوبے کو یکسر نظر انداز کر رہی ہے یا پھر وہ اس پر جزوی طور پر عمل درآمد کر رہی ہے حالانکہ اس نے مظاہرین کے خلاف تشدد کی کارروائیاں ختم کرنے کے لیے اس پر دستخط کررکھے ہیں۔ شامی حکومت نے متعدد وعدے کیے تھے لیکن اس نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو شام میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔

ایران نے شام کی جانب سے عرب ليگ کی تجویز قبول کرنے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر محمد رضا رؤف شیبانی نے شام کی نائب صدر نجاح العطار اور شام کی بعث پارٹی کے ڈپٹی سکریٹری جنرل محمد سعید بختیان سے الگ الگ ملاقاتوں میں کہا کہ شام کی حکومت کا قومی مذاکرات پر تیار ہونا موجودہ حساس مرحلے کو سرکرنے کی مناسب ترین راہ ہے۔ قطر ماضی میں شام کا ایک قریبی اتحادی ملک رہا ہے اور اب بھی اس کے ایران کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اس کے باوجود شامی صدر بشار الاسد کی جانب سے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے جاری تشدد کے باعث وہ اب بشار کاسخت ناقد بن چکا ہے۔شیخ حمد بن خلیفہ نے سی بی ایس کے پروگرام ''۶۰ منٹ'' میں گفتگو کرتے ہوئےشام میں تشدد کو روکنے کے لیے فوجی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ''اس صورت حال میں ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کچھ فوجیوں کو بھیجا جانا چاہیے’’۔ اس کے برعکس تہران اب بھی اپنی پرانی روش پر قائم ہے اور اس نے ایرانی پاسداران انقلاب کے تحت القدس یونٹ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو دمشق کے دورے پر روانہ کیا۔ جنرل سلیمانی کےدورۂ شام سے یہ قیاس آرائی تیزہوگئی کہ دمشق کے لئے شامی امداد میں فوجی ساز و سامان بھی بھجوایا گیا ہوگا۔اس بات کاقوی امکان ہے کہ جنرل سلیمان نے اپنے اس دور ے میں صدر بشار الاسد سمیت ملک کی دیگر اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کی ہونگی۔

ایران کے مذہبی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے متعدد نمائندوں نے شام کے مسئلہ پر گفت و شنید کی غرض سے مختلف خلیجی ممالک قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور سلطنت عمان کا مختصر دورہ کیا ۔ ان مذاکرات میں صدر بشار الاسد کا متبادل تلاش کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا جواس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے شام میں تبدیلی کو اب "نوشتہ دیوار" سمجھ کر مستقبل کی پیش بندی تیز کر دی ہے۔ان دوروں میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ترکی کا دورہ ہے اس لئے کہ تر کی نہ صرف عالمِ اسلام کی ایک بہت بڑی طاقت ہے بلکہ اس کی سرحدیں شام سے ملتی ہیں اور ترکی حکومت نے ببانگِ دہل شامی عوام کے احتجاج کی حمایت کی ہے۔ ایران کے اسپیکر علی لاریجانی اور ترکی کے وزير ا‏عظم رجب طیب اردوغان نے شام کے بحران پر تبادلہ خیال کیا اور باہمی تعلقات ، علاقائي حالات و بین الاقوامی مسائل پر گفتگو کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ مذاکرات کو جاری رکھنے پر بھی زور دیا۔ اس سے قبل ایرانی اسپیکر نے ترکی کے وزیر خارجہ داؤد اوغلو اورترکی کی پارلیمنٹ کے اسپیکر جمیل چیچک سے بھی ملاقات کی۔ شام کے مسئلہ پر باتیں تو بہت ہو چکیں اب مبنی بر انصاف موقف اختیار کرنے کا وقت ہے بقول فیض ؎
مرجائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر بپا کیوں نہیں دیتے

اس دوران ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان روس کےخصوصی دورے پر ماسکو پہنچے ۔ اس دورے کا مقصد بھی ماسکو میں حکام سے شام کی تازہ کشیدہ صورت حال بالخصوص صدر بشار الاسد کے متبادل کے بارے میں تبادلہ خیال تھا۔ گفتگو کا اہم موضوع شام می بشار الاسد کی حکومت کے بعد ایران اور روس کے مفادات کا تحفظ تھا۔ ماسکوکی ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی عہدیدار نے نہایت شرمناک انداز میں خارجی عناصر کو شام میں برپا شورش کیلئے ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں داخلی سطح پر عوام کی طرف سے تبدیلی کا کوئی مطالبہ نہیں بلکہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ بیرونی ہاتھوں کا کھیل تماشا ہے۔ ان کے مطابق بعض خارجی ہاتھ شام میں اپنی مرضی کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ موجودہ پریشان کن حالات میں ایرانی حکومت قومِ شام کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔اگر اب بھی حکومتِ ایران بشارالاسد کو شامی قوم کا مترادف سمجھتی ہے تو اس سے احمقانہ بات کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔ ایک طرف تو موصوف نے عرب ممالک میں جاری عوامی انقلاب کی تحریکوں کو بتیس سال قبل ایرانی اسلامی انقلاب کی تحریک کا حصہ قرار دیا اور ان تحریکوں کو تمام ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف بتایا پھر بشار کی حمایت بھی کر دی۔ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ اس طرح کی تضادبیانی کامنظر عام پر آنا افسوس نا ک ہے۔

عرب مبصرین کی شام میں موجودگی کے باوجود صدر اسد کی سکیورٹی فورسز نے حکومت مخالفین کو کچلنے کے لیے کریک ڈاؤن کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق عرب لیگ کے مبصرین کی ۲۶ دسمبر کو دمشق میں آمد کے بعد سے شامی فورسز نے چار سو سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس دوران فوجی کارروائیوں میں پانچ سو کے لگ بھگ افراد مارے جا چکے ہیں اور شامی فوج کے ٹینک ابھی تک شہروں کے اندر موجود ہیں ان حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے بشار الاسد نے عام معافی کا ڈھو نگ رچایاہے گویا جو مظلوم عوام نشانے پر ہیں انہیں کو دانہ بنا کر عا لمی برادری بشمول عرب لیگ کو گمراہ کرنے کی سازش رچائی جارہی ہے ۔
اس طرح سازشوں نے مجھے دام میں لیا
میں ہی حسیں پرندہ تھا ، دانہ بھی میں ہی تھا

بعث پارٹی گزشتہ نصف صدی سے اس طرح کی شعبدہ بازی کے ذریعہ اپنے مظالم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو کچلتی رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کا وقت ختم ہو چکا ہے سارے عالمِ اسلام میں بیداری کا ایک ایسا طوفان بپا ہے جس نے بے دین سیاسی نظریات کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ مراکش سے لے مصر تک ہر جگہ انہیں ناکامی کا سامنا ہے اس لئے شام میں بھی یہ تماشے اب کسی کام آنے والے نہیں ہیں ۔ جو فرمانروااقتدار کو اپنے لئے آزمائش سمجھنے کے بجائے اس کے ذریعہ دوسروں پر ابتلاء و آزمائش کا قہر برساتے ہیں وہ بالآخر مشیت کے ہاتھوں عبرتناک انجام سے دوچار ہوکر رہتے ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے رسول اکرم ؐسے پوچھا ابراہیمؑ کے صحیفوں کیا تعلیمات تھیں تو آپؐ نے فرمایا صحیفہ ابراہیمیؑ کی تعلیمات تمثیل کی زبان میں اس طرح پیش کی گئی تھیں:
اے فریب خوردہ بادشاہ ، تجھ کو اقتدار دے کر آزمائش میں ڈالا گیا ہے،میں نےتجھ کو اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا کا مال جمع کرکے ڈھیر لگائے ۔بلکہ میں نے تجھے اس لئے بادشاہ بنایا ہے تا کہ تو اپنے انصاف کے ذریعہ مظلوموں کی فریاد کو مجھ تک پہنچنے سے روکے کیونکہ مظلوم کی پکار میں رد نہیں کرتا اگرچہ کہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو------

عدل کا قیام امت کے ہر خاص و عام کی مشترکہ ذمہ داری ہے لیکن حکمرانوں کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ عدل و قسط کو قائم کریں قرآن مجید جہاں انصاف کو قائم کرنے کی براہ ِ راست تلقین کی گئی ہے ان دونوں مقامات پر اس راہ میں پیش آنے والی دو مختلف اورمتضاد رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔ سورہ النساء میں فرمان ِ خداوندی ہے :
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘

اس آیت ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تئیں جذبہ ٔ خیر خواہی کسی فر دیا حکومت کو عدل سے باز رکھ سکتا ہے ۔اس میں سب اول تو خود اپنی ذات و خواہش نفس ہے اور پھر اقربا،غریب و امیر تفریق کی جانب اشارہ ہے ۔ ایران کے لئے شام کے معاملے میں پہلی رکاوٹ یہی انسیت ہے ۔ایران کو فلسطینیوں سےہمدردی اس بنا ء پر ہے کہ وہ مظلوم ہیں ۔شام بھی ان کا حامی ہے اس لئے لازم ہے کہ ایران اور شام کے تعلقات خوشگوار ہوں لیکن اب ضرورت اس امر کے جائزے کی ہے کہ کہیں یہ انسیت و تعلق عدل و انصاف کی راہ کا روڑہ تو نہیں بن گیا اگر ایسا ہوتا ہے تو اسے عبور کر نا ہوگا اور لگی لپٹی باتیں کہنے کے بجائے ظالم و جابر بشارالاسد کے بجائے شام کی مظلوم عوام کا ساتھ دینا تقاضائے عدل ہے ۔

اس معاملے میں دوسری آزمائش نفرت و عناد ہے ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے۔ ان لوگوں نے قبلۂ اول پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے نیز ہمارے فلسطینی بھائیوں کو خود اپنی ہی سر زمین پر غلام بنا رکھا ہے۔ اس لئے امریکہ اور اسرائیل سے دشمنی بالکل حق بجا نب ہے اب چونکہ شام بھی اب دونوں کا دشمن ہے اس لئے شام اور ایران بلکہ شام اور حماس کے تعلقات کا بہتر ہونا بھی ایک فطری امر ہے لیکن جس طرح کسی مستضعف کی دوستی عدل میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اسی طرح امریکہ و اسرائیل جیسے مستکبرین کی دشمنی بھی بشارالاسد جیسے ظالم کی حمایت کاجواز نہیں بن سکتی ۔ اس لئے کہ سورہ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے :
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔

اس طرح کی نازک صورتحال میں جہاں ایک جانب آگ اور دوسری طرف کھائی ہو کامیابی کے ساتھ گزرجانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دوستی اور دشمنی کی بنیاداللہ کی خشیت و محبت پر ہو سارا لین دین حق باری تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ہو ورنہ عدل و انصاف کی پاسداری کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے ۔حضور اکرمؐ نے ایمان کی تکمیل کو ان باتوں سے جوڑ دیا اور فرمایا جس نے اللہ کیلئے دوستی کی اور اللہ کیلئے دشمنی کی نیز جس نے اللہ کیلئے دیا اور اللہ کے لئے روکے رکھا اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا ۔اگر اس حدیث نبوی ؐ کی روشنی میں ایرانی رہنما اپنی خارجہ پالیسی بناتے ہیں تب انہیں شامی عوام کی مظلومیت اور بعث پارٹی کا ظلم نظر آئیگا ورنہ بشارالاسد کی یہ دوستی انہیں مہنگی پڑے گی اور وہ صورتحال پیدا ہوجائیگی جس کا ذکر سورۂ فرقان کی آیات ۲۸ ۔۲۹میں اس طرح کیا گیا ہے :
ہائے افسوس،کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہو تا ۔اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان تو انسان کا رسوا کرنے والا ہے ہی (یعنی اس کی دوستی اور رفاقت نے مجھ کو قرآن کی پیروی سے محروم کر کے گمراہ کر دیا ہے)۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.