پاکستان پر سب کی نظر

میموگیٹ، دہشت گردی، ایبٹ آباد حملہ،پاک امریکہ تعلقات پر بیرونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں۔ پاکستان پر سب کی نظر

یہ گزشتہ اکتوبر کی بات ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک مختصر وضاحت جاری کی۔ جو کچھ اس طرح تھی۔،، دفتر خارجہ نے ایک پرائیویٹ شخص کے ذریعے ایک مبینہ پیغام واشنگٹن بھجوانے کے متعلق اخبارات میں شائع ہونے والی بعض خبروں کے حوالے سے کہا ہے کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں مبینہ پیغام کے متعلق شائع ہونے والی خبر قطعی بے بنیاد ہے اور اس پر تبصرے بلاجواز‘ غیر ضروری اور قیاس آرائی پرمبنی ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعہ کو اپنے بیان میں کہا کہ کسی غیر ملکی حکومت کو پیغام پہنچانے کیلئے ایک پرائیویٹ شخص کی خدمات حاصل کرنا پیغام رسانی کے مروجہ سرکاری ذرائع کی نفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فرضی کہانی میں بیان کئے گئے دعووں کی کوئی ساکھ نہیں ہے اور انہیں سختی سے مسترد کیا جاتا ہے ۔،، کسی کو نہیںپتا تھا کہ یہ چھوٹی سی خبر پاکستانی سیاست میں ایک طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اس خبر سے نہ صرف امریکہ میںپاکستانی سفیر حسین حقانی کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونے پڑیں گے بلکہ پاکستان کی جموری حکومت کے چل چلاﺅ کا کڑا وقت آجائے گا۔ اور ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستانی سفیر عدالت عالیہ کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوں گے۔ مائی لارڈ،، میمو کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، ملکی مفاد کیخلاف کوئی کام نہیں کیا، میمو لکھا نہ لکھوایا، دیکھا نہ بھجوایا، مجھے میمو کے معاملے میں غلط طور پر ملوث کیا گیا، اللہ کا نام لے کر جو کہوں گا سچ کہوں گا، پیشے کے اعتبار سے سکالر ہوں ، اپنا بیان سابق سفیر کی حیثیت سے دے رہا ہوں، اس وقت میرا عارضی پتہ وزیراعظم ہاؤس ہے۔ میں قومی اور عالمی اخبارات میں مضامین بھی لکھتا رہا ہوں۔ مئی دوہزار آٹھ میں وزیراعظم گیلانی نے مجھے امریکہ میں پاکستان کیلئے سفیر عمومی مقرر کیا۔ میں نے پاکستان کا کیس موثر انداز میں پیش کیا اور ان خدمات پر ہلال پاکستان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ دس اکتوبردوہزارگیارہ کو فنانشل ٹائمز میں منصور اعجاز نے مضمون لکھا جس کے بعد سولہ نومبر دوہزارگیارہ کو میں نے صدر کو ایک خط میں مستعفی ہونے کی پیشکش کی۔اس موقع پر کمیشن کے کہنے پر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے میمو سے متعلق مضمون پیش کئے۔ مضمون کے مطابق منصور اعجاز نے لکھا کہ سویلین حکومت نے مائیک مولن سے مدد مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میمو کی تشکیل، ڈرافٹنگ اور اسے مائیک مولن تک پہنچانے میں میرا کوئی کردار نہیں سوائے میڈیا کہ میمو کی حیثیت کے بارے میں بھی مجھے کوئی علم نہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ استعفیٰ منظور ہونے کے بعد نوٹیفکیشن بطور ثبوت کمیشن کو پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے بائیس نومبردوہزار گیارہ کو میرا استعفیٰ منظور کرلیا تھا۔ ،،حسین حقانی کا یہ مقدمہ عدلیہ میں زیر سماعت ہے۔

یہ پہلا اور آخری موقع نہیں ہے کہ امریکی اور عالمی اخبارات و جرائد سمیت تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے حالات اور واقعات کو نہ صرف بگاڑا ہے بلکہ پاکستان کو ایک ایسے گرداب میں لا پھنسایا ہے کہ اب اس سے نہ نکلا جاتا ہے۔ نہ اس سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے۔ کچھ عر صے پہلے تک حقانی نیٹ ورک کا تذکرہ تھا۔ طالبان کی پشت پناہی کا الزام تھا۔ تجزیہ میں کہا جارہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایسے مرحلے مےں داخل ہو چکے ہیں جہاں دونوں کے مفادات کا ٹکراﺅ شروع ہوگیا ہے، ایک جانب اگر امریکہ، افغانستان میں اتحادی افواج پر کیے جانے والے طالبان کے حملوں کا براہ راست الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کرتے ہوئے اس پر مزید دباﺅ ڈالنا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کرواناچاہتا ہے، تو دوسری طرف پاکستانی حکام اور افواج نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ اب وہ امریکی مطالبات مےں توسیع اور ڈومور کی گردان نہیں سننا چاہتے اور امریکی حکام اور افواج کو اس ضمن میں خود کو بھی کچھ کرنا چاہئے۔ ایک جانب جنگجو نیٹ ورک کی جوابی کارروائی کا قضیہ وجہ نزاع بنا ہوا ہے تو دوسری طرف پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا معاملہ بھی امریکہ کےلئے پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے۔ عالمی میڈیا کے پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز دیتا ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ اسے من و عن شائع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے اپنی ایک اشاعت میں ایک رپورٹ شائع کی۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حال ہی میں پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کی موجودگی میں ملاقات کرائی گئی ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ 2 روایتی سیاسی گروپوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بدعنوانی سے تنگ آکر عمران خان کی حمایت کررہی ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ،،یہ ایک کھلا راز ہے کہ فوجی قیادت اور طاقتور آئی ایس آئی عمران خان کی سیاسی مہم میں تعاون کر رہی ہے۔ ایک سینئر اہلکار نے تصدیق کی کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اس سے حکمران جماعت پی پی سے زیادہ نقصان نوازشریف کو ہوگا۔دوسری جانب آئی ایس پی آر نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹرکی ملاقات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیاہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سنڈے ٹائمز کی اس خبر پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ لندن میں عمران خان کے سالیسٹر ایس ٹی لاء سالیسیٹرز کے مہتاب عزیز نے روپرٹ مرڈوک کو لکھا کہ سنڈے ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل ”عمران ناگزیر“ (Imran the inevitable) سے خان کے سیاسی موقف اور پاکستانی عوام میں اس تاثر سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے کہ پاک فوج ان کی پشت پرہے۔حالانکہ یہ عمران خان کے ان اصولوں اور سیاسی آئیڈیالوجی سے براہ راست متصادم ہے جس کی خاطر انہوں نے بہت سی قربانیاں دیں۔ لاءسوٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان پاکستان کی طاقتور فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی اثر سے پاک ایک آزاد سیاسی رہنما ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس پارٹی کے(دعویدار) عمران خان نے آرٹیکل کی مین تھیم سے ایک بڑا ایشو اٹھایا ہے جس میں اخبار نے ہمارے کلائنٹ پر اپنے سیاسی ویژن کے خلاف جانے کا الزام لگایا۔

برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمز“ نے کر اچی میں ٹارگٹ کلنگ پر اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کے غیر مقبول صدر آصف علی زرداری ملک کے سب سے بڑے شہر میں تشدد کے خاتمے ناکام اور امن قائم کرنے میں کمزور ثابت ہوئے، پاکستانی عوام فوجی حکومت سے دکھاوے کی جمہوریت کی طرف سفر پر تذبذب کاشکار ہیں کہ یہ سفر ملک کو زیادہ استحکام دے گا یا اس کے ٹکڑے کر دے گا، کراچی میں تشدد ملک کے طویل مدتی استحکام اور مغربی ممالک کی سلامتی کے لیے وارننگ ہے،کراچی کے علاوہ پاکستان کا کوئی دوسرا ایسا شہر نہیں ،جہاں بندوق کی سیاست ، لسانی اورنسلی کشیدگی ، فرقہ وارانہ تناو ، ریاستی کمزوری ، عسکریت پسندی اور منظم جرائم ہوں، کراچی آج پریشر ککر بن چکا ہے،سفاکانہ طرز عمل نے ایک طاقت پکڑ لی ہے،ناقص اسلحے سے لیس اور کم نفری پر مشتمل پولیس طاقتور سیاستدانوں کے خوف سے قاتلوں کو پکڑنے سے ڈرتی ہے، سیکورٹی اداروں کو حکومت کی طرف سے ٹارگٹ کلرزکو گرفتار کرنے کی نہیں بلکہ ان پر نظر رکھنے کی ہدایت ہے۔ برطانوی اخبار نے کراچی پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ جنوبی ایشیا کے عظیم اقتصادی انجن کراچی پر کنٹرول کرنے کے لئے سست مگر تسلسل کے ساتھ جنگ جاری ہے۔کراچی نے ماضی میں بھی ایسے سنگین حالات دیکھے ہیں، اس وقت پاکستانی فوج نے کراچی کی گلیوں میں مسلح جھڑپوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا تھا۔کراچی میں قتل کے واقعات میں تسلسل دو حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری اختلافات کی وجہ سے ہے جن کی بنیادیں پشتون اور مہاجروں سے ملتی ہیں۔رواں موسم گرما میں تشدد نئی بلندیوں تک جا پہنچا۔ پیچیدہ بستیوں اور کٹی پہاڑی پر مشتمل شہر میں فائرنگ اور دستی بم کے حملوں میں جولائی میں 300 سے زائد زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے۔اس لحاظ سے جولائی سب سے بدترین ماہ ثابت ہوا۔ پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن کے مطابق رواں برس 800 سے زائد افراد کو کراچی میں ہلاک کیا گیا۔ ہر روز قتل کے واقعات ہورہے ہیں۔ پاکستا ن کے غیر مقبول صدر آصف علی زرداری 160ارب ڈالر کے معاشی حب،اسٹاک ایکس چینج اور اہم ترین بندرگاہ کے حامل ملک کے سب سے بڑے شہر میں تشدد کے خاتمے اور اسے امن قائم کرنے میں کمزور ثابت ہوئے۔ درحقیقت کراچی میں تشدد ملک کے طویل مدتی استحکام کے لیے ایک ہلکا سا انتباہ ہے جس کے نتائج مغرب کی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

اس تجزیئے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے افغانستان میں کردار پرامریکا اور یورپ کے خدشات اپنی جگہ پر ہیں۔ پاکستانی فوج میں اسلامی عسکریت پسندوں سے تعلقات اور جوہری ہتھیاروں کی سیکورٹی کے بارے بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ان درپیش خطرات میں مئی میں امریکی نیوی سیلز کی جانب سے اسامہ کی ہلاکت نے مزید اضافہ کردیا ہے۔ کراچی میں قتل عام کی نسبتاًبظاہر وجوہ سیاسی یا مقامی ہوسکتی ہیں۔ لیکن یہاں گہرے ہوتے تنازعات پاکستان کی ترقی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کراچی کے علاوہ پاکستان کا کوئی دوسرا ایسا شہر نہیں،جہاں بندوق کی سیاست ، لسانی اورنسلی کشیدگی، فرقہ وارانہ تناو، ریاستی کمزوری ، عسکریت پسندی اور منظم جرائم ہوں یہ تمام عوامل ملک کوکمزور بنا تے ہیں۔یہ ان رجحانات کا تعین ہے کہ فوجی حکومت سے دکھاوے کی جمہوریت کی طرف سفر پر پاکستانی ہچکچا رہے ہیں، یہ سفر ملک کو زیادہ استحکام دے گا یا اس کے حصے بکھیر دے گا۔

کراچی ملک کے سب سے زیادہ لبرل ، سیکولر شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ کراچی کو نیول بیس پر عسکریت پسندوں کے حملے جیسی دہشت گردی کی کارروائیوں کا بھی سامنا رہاہے۔ کراچی میں2000سے2006تک سالانہ اوسطاً قتل کے واقعات دو سو سے کم رہے، 2008 تک قتل کے واقعات کی تعداد سالانہ8 سو تک جا پہنچی،2009سے اب تک قتل کے واقعات کی تعدادسالانہ8سو سے14سو کے درمیان ہوگئی۔ 2009-10میں کراچی سے سالانہ ملک کا79فیصد کسٹم ڈیوٹیز،44فیصد ڈائریکٹ ٹیکسز اور58فیصد سیلز ٹیکسز حاصل ہوئے۔ کراچی میں تشدد کی کارروائیاں ووٹوں پر کنٹرول کے لیے ہیں۔ تنازعات سے بھری سیاست کا یہ کھیل کسی اور جگہ نہیں دیکھا جیسا کراچی میں ہے۔اخبار کہتا ہے کہ جتنا زیادہ لوگ خوفزدہ ہوں گے، اتنا ہی وہ اپنے تحفظ کیلئے ان جماعتوں کی طرف رخ کریں گے اور اس سے ان کے رہنما زیادہ طاقت ور بن جائیں گے۔کراچی میں قتل صرف سیاسی پارٹیوں کے سرگرم رکن ہی نہیں ہوتے بلکہ عام لوگوں،مسافروں ، ٹیکسی ڈرائیوروں اور دکانداروں کو بھی اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپنے تحفظ کی خاطر درجنوں تاجروں نے بندوق کے لائسنس کے لئے درخواستیں دی ہوئی ہیں۔ریاست بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ انصاف سے وابستہ توقعات کم ہیں۔ناقص اسلحے سے لیس اور کم نفری پر مشتمل پولیس طاقتور سیاستدانوں کے خوف سے قاتلوں کو پکڑنے سے ڈرتی ہے۔ فنانشل ٹائم کی ایک اور رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا کہ پاکستان نے چین کو اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن میں تباہ ہونے والے امریکی اسٹیلتھ ہیلی کاپٹر کے ملبے کا معائنہ کرایا تھا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن میں گرکر تباہ ہونے والے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کی چین کے انٹیلی جنس اہلکاروں نے تصاویر لیں اور اس کے ڈھانچے کے نمونے میں بھی حاصل کئے۔ میمو گیٹ کے بارے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے جو رپورٹ دی اس میں کہا ہے کہ پاک فوج سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اب صدر آصف علی زرداری کی روانگی اور انتخابات کے انعقاد میں خوشی محسوس کرے گی،جنرل کیانی نے انتہائی سخت اور جذباتی انداز میں میموکی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں میموسکینڈل سے بننے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے انتہائی سخت اور جذباتی انداز سے سپریم کورٹ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اخبار کے مطابق پاکستانی فوج مبینہ طور پر صدر آصف علی زرداری کے غیر دستخط شدہ پیغام کو دو مئی کے بعد اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ذریعے پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کے ہاتھوں امریکی حکام تک پہنچانے کے اقدام پر غصے میں نظر آتی ہے۔

اخبارکے مطابق طاقتورفوج اور کمزور سویلین حکومت کے درمیان صدر آصف علی زرداری کے بیرون ملک روانگی سے ٹکراؤ روکنے کی کوششیں سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس پر متضاد بیانات پیش کرنے سے دم توڑ گئی ہیں۔اخبارکے مطابق کہ فوجی حکام میمو کو درست اور عدالت کے ذریعے حقائق سامنے لانا چاہتے ہیں مگر حکومت اپنی تشکیل کردہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات چاہتی ہے۔اخبار نے صدر زرداری کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیا اب ان کے مخالف کامیاب ہوجائیں گے، تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج چاہے زرداری کو نکال باہر کرنا چاہتی ہو یا کمزور، مگر وہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔پاکستان کے میمو اسکینڈل میں بلیک بیری کے ریکارڈ کی خبروں پر ردِ عمل میں یہ اسمارٹ فون بنانے والی کمپنی ریسرچ اِن موشن نے کہا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی پرائیویسی کے قانونی حقوق کا دفاع کرے گی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ،حسین حقانی کی حمایت میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ سابق سفیر حسین حقانی اپنی زندگی کو خطرہ محسوس کررہے ہیں ، وہ بطور سفیر، سابق صحافی اور بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر انتھک شخص معلوم ہوئے مگرپاکستان میں انہیں مشکوک تصورکیاجاتاہے ،پاکستانی فوج نے انہیں پاکستان کی نسبت زرداری کا سفیر تصور کیا،میموکا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے جوپاکستان کی تاریخ میں زیادہ آزادعدالت تصورکی جارہی ہے مگرپاکستان کی حکمران جماعت اسے آرمی اور اپوزیشن کا آلہ کارقراردے رہی ہے، جوڈیشل کمیشن کی انکوائری جنوری کے آخرمیں مکمل ہونے پر عدالت معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کرکے صدر زرداری کے مواخذہ کی سفارش یاتفتیش کاروں کو حسین حقانی کیخلاف غداری کی فردجرم عائدکرنیکا حکم دے سکتی ہے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جنرل (ر)پرویزمشرف اپنے دور میں ہونیوالے ہرڈرون حملے کی خود منظوری دیتے تھے،ان کے دور میں چوالیس ڈرون حملے ہوئے ، جتنے حملوں کی اجازت دی اتنی ہی تعداد میں حملوں کی تجویز مسترد بھی کی ،موجودہ حکومت کے آنے کے بعد امریکی انتظامیہ نے ڈرون حملوں سے قبل پاکستان سے اجازت لیناترک کردیا،آصف زرداری عوامی سطح پر ڈرون حملوں کے مخالف نظرآئے ،ذاتی طور پر حامی رہے، حملوں کاکوئی خاص نوٹس نہیں لیا،پاکستان میں ڈرون حملوں کا مکمل اختیار سی آئی اے کو حاصل ہے ،رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے متعدد ڈرون حملوں میں تیرہ سو پچاس سے لے کر دوہزار دو سو پچاس افراد ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر عام شہری ہیں۔ اکتوبر میں برطانوی اخبار گارجین نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ جنرل پرویز اشفاق کیانی نے صدر زرداری کو نااہل اور بد عنوان وزراءکو ہٹانے کے لئے ایک فہرست دی ہے۔ تاہم اخبار نے ان وزراءکے نام بتانے سے گریز کیا۔برطانوی امریکی اخبارات کے علاوہ بھارتی اخبارات بھی اس مہم میں شریک رہتے ہیں ۔ ہمارے اخبارت اور میڈیا کی بدقسمتی کہیے یا تساہل کہ ان خبروں کی کسی ذریعے سے تصدیق کیئے بغیر ہی یہ خبریں ہمارے اخبارت اور چینل کی ہیڈ لائینز اور بریکنگ نیوز بن جاتی ہیں۔ اور پھر ہماری سیاست میں ایک بھونچال سا آجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اخبارت پاکستان کی داخلی سیاست سے متعلق بیرونی ذرائع ابلاغ کو اسقدر اہمیت کیو ں دیتے ہیں۔ اور وہ اپنے ذرائع سے ان خبروں کو کیوں نہیں شائع کرتے۔ اس میں حکومت کا بھی قصور نظر آتا ہے۔ جو ملکی اخبارات اور صحافیوں کو اعتماد میں لے کر معاملات کے بارے میں شفاف طور پر موقف نہیں اپناتے۔ جس کے نتیجے میں ہمیں اکثراہم واقعات کی خبریں غیر ملکی اخبارات اور جرائد سے لیتے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387731 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More