پاکستان کا قیام ہندستان سے ایک
دن قبل 14 اگست1947کو ہوا تھا۔ دونوں ملکوں نے پارلیمانی جمہوری نظام کو
پسند کیا۔ مگران 65برسوں میں جہاں ہندستان میں جمہوری نظام پروان چڑھا ہے
اور تمام ادارے مثلاً انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور فوج اپنے اپنے دائرہ کار
میںرواں دواں ہیں، وہیں پاکستان میں ہنوز روز اول ہے۔ اس ملک کا قیام
’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ‘ کے نعرے کے زور پر ہوا تھا۔جن سادہ
لوح مسلمانوں نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہوکرتقسیم کی تحریک کا ساتھ دیا
تھاان کو یہ خوش گمانی تھی کہ نیا ملک اسلام کا گہوارہ ہوگا اور امن و
انصاف، دیانت و امانت کا وہ دوردورہ ہو گا جو خلفائے راشدینؓ کے زمانے کی
یاد دلائے گا۔ مگر جن ہاتھوں میں زمام کار آئی ان کے ذہن میںنقشہ کچھ اور
تھا۔پے درپے فوجی مداخلتوں کے چلتے جمہوریت پنپ نہیں سکی۔ ہرنیا حکمراں
گزشتہ بنیادوں کو اکھاڑکر نئی طرح بساط بچھانے میں لگا رہا۔تسلسل کافقدان
رہا۔وقفوں کے ساتھ تقریباً 40سال فوجی قائم آمریت رہی، چنانچہ ادارے پنپ
نہیںسکے۔ البتہ بدعنوانی، دولت کی حکمرانی ، نمود ونمائش کی فراوانی،
اشیائے ضروریہ کی گرانی، مسلکی عدم رواداری اوراخلاقی انحطاط کا زور بڑھتا
گیا۔بیرونی ریشہ دوانیوں نے بھی رنگ دیکھایا۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا
ہے: ”نکلے تھے کہاں جانے کےلئے، پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں؛ اب اپنے بھٹکتے
قدموں کو منزل کا نشاں معلوم نہیں ؛ہم نے بھی کبھی اس گلشن میں ایک خواب
بہاراں دیکھا تھا، کب پھول جھڑے، کب گرد اڑی کب آئی خزاں معلوم نہیں “
داخلی حالات اور بیرونی دباﺅ کی بدولت پرویز مشرف کا دور آمریت ختم ہوااور
جمہوریت کا دروازہ کھلا پاکستان پھر اپنی منزل کی تلاش میںمحو سفر ہوگیا۔
جنرل مشرف نے،جو اتاترک بن جانے کا خواب دیکھ رہے تھے اور فوج کے تحت ویسا
ہی نظام حکومت فروغ دینا چاہتے تھے جیساکچھ عرصہ پہلے تک ترکی میں تھا،
انتخابات سے قبل ایک غیر اصولی اقدام یہ کیا کہ ایک صدارتی حکم ’این آر
او‘(National Reconciliation Ordinance) جاری کردیا، جس سے آٹھ ہزار سے
زیادہ افسروں اور سیاستدانوں کو بدعنوانی کے مقدمات سے گلوخلاصی مل گئی ۔اس
میں سرفہرست نام آصف زرداری کاآتا ہے، جو ملک کے صدر بن بیٹھے۔اس وقت جو
بحران اٹھ کھڑا ہوا ہے اس کا مرکزی نقطہ انہیں کی ذات شریف ہے۔انتخابی مہم
کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے جو ہیجان برپا ہوا اور ہمدردی کی
لہر چلی اس سے پی پی پی کو قومی اسمبلی میں سبقت مل گئی۔اگرچہ جمہوریت کی
بحالی کی مہم میں نواز شریف کی مسلم لیگ(ایم ایل ۔این) بھی ساتھ میں کھڑی
تھی اور حکومت سازی میں بھی شریک تھی مگر زرداری صاحب کے دو اہم اقدامات کی
وجہ سے اعتماد میں دراڑ پڑ گئی۔ اگرچہ مفاہمت یہ ہوئی تھی کہ کوئی غیرسیاسی
فرد باہم مشورے سے صدر بنایا جائے گا، مگر اس مفاہمت کو بالائے طاق ر کھ کر
اپنی پارٹی کے زور پرزرداری خود صدر بن گئے۔انہوں نے ججوں کی بحالی کے
انتخابی وعدے کے پورا کرنے میں بھی آنا کانی کی۔ آصف زرداری کی اس غیر
اخلاقی روش سے نئی جمہوری حکومت کے وقار کو سخت دھکا لگا۔خصوصاً ججوں کی
بحالی سے انکاراور اس پران کی اس دلیل نے کہ انتخابی وعدہ کوئی قرآنی آیت
نہیں، یہ عالم آشکارا کردیا ملک کی زمام کار ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں
آگئی ہے جس کے قول و فعل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ بس غنیمت یہ ہے کہ
وزیر اعظم کے منصب پر ایسا شخص فائز ہوگیا جس کا تعلق صوفیاءکے سلسلہ سے
ہے۔سید یوسف رضا گیلانی(اصل جیلانی) کا شجرہ نسب پیران پیر شیخ عبدالقادر
جیلانیؒ سے ملتا ہے۔ ان کے جد میاں میرصاحبؒ (ولادت 1550۔وصال 1625 )جہانگیرکے
دور کے ایک بڑے نامور صوفی بزرگ تھے۔کتب سیر میں ان کا یہ واقعہ درج ہے کہ
کسی فوجی مہم سے لوٹتے ہوئے جہانگیر ان کی خانقاہ پہنچ گیا۔ مگر خدام نے
بادشاہ کو باہر ہی روکدیا۔جب حاضری کی اجازت ملی تو جہانگیر نے شکوہ کیا ،”با
درِ درویش دربان نباید“یعنی ”درویش کے دروازے پر دربان نہیں ہونا چاہئے۔“
میاں صاحب نے سکون سے فرمایا،’بباید کہ سگِ دنیا نہ آید“ ”وہ اس لئے ہیں کہ
کوئی سگِ دنیا (لالچی) اندرنہ آجائے۔“ یہی وہ صوفی بزرگ ہیں جن سے سکھ
گروارجن دیو نے ، جو خود تصوف کے رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے، ہرمندر صاحب(دربار
صاحب) کی بنیاد رکھوائی۔چنانچہ یوسف رضا گیلانی کی پشت پر صدیوں سے خلق خدا
کی دعائیں ہیں۔ ان کی روش سلامتی پر قائم ہے اور سیاسی بصیرت و جرات بھی ان
کی ظاہر ہے۔اس منصب پر ان کا انتخاب اتحادی پارٹیوں کے مشورے سے ہوا تھا
اور اتحادٹوٹ جانے کے باوجود ان کا وقار گرا نہیں۔ اپنی حلف برداری سے پہلے
22 مارچ 2008کو وزیر اعظم نامزد کئے جاتے ہی ان کا پہلا اقدام چیف جسٹس
افتخار چودھری سمیت تمام ججوں کی رہائی کاحکم تھا، حالانکہ ان کا یہ حکم اس
وقت صدر پرویز مشرف کو بہت گراں گزرا تھا۔
اس وقت جو بحران پاکستان میں نظرآرہاہے اس میں فوج اور عدلیہ ، دونوں کااصل
نشانہ صدر زرداری ہی ہیں۔ ’این آر او‘ 5اکتوبر2007کو جاری ہوا جس کو ایک ہی
ہفتہ کے اندر 12 اکتوبر کو افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک
بنچ نے معطل کردیا۔جب جنرل مشرف کو محسوس ہوا کہ ایک دوسرے مقدمہ میں، جس
میں ان کے دوبارہ صدرچنے جانے کو چیلنج کیا گیاتھا، سپریم کورٹ ان کے خلاف
فیصلہ دیگا تو انہوں نے 3نومبر 2007کو آئین کو کالعدم کردیا اور چیف جسٹس
سمیت متعدد ججوں کوبرطرف کرکے نظر بند کردیا۔نئے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر
نے 27فروری 2008 کو این آر او کو پھر بحال کردیا۔16مارچ 2009کو افتخار
چودھری پھر اپنے منصب پر بحال ہوئے اور 16دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ نے
دوبارہ اس متنازعہ آرڈننس کو کالعدم کردیااور بدعنوانی کے تمام مقدمات
کوسابق پوزیشن پر بحال کردیا۔ سپریم کورٹ کا اصرار ہے کہ اس حکم پر عمل ہو
اورسوئس بنک میں زرداری کی دولت کا معاملہ دوبارہ کھولاجائے۔ وغیرہ۔ حکومت
کا موقف یہ ہے کہ آئین کی رو سے صدر مملکت کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی
نہیں کی جاسکتی۔ الزام بے نظیر پر بھی آئے گا اور پی پی پی نہیں چاہے گی کہ
اس کی مقتول لیڈربدعنوانی کے الزامات میں گھسیٹی جائیں۔ چنانچہ اس حکم پر
عمل نہ ہونے سے سپریم کورٹ برہم ہے۔حد یہ ہے کہ وزیر اعظم کو بے ایمان تک
کہہ ڈالا اوراب توہین عدالت کا نوٹس دےدیا ، اور وزیر اعظم کو خود 19جنوری
کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دے ڈالا ۔غنیمت یہ ہوا کہ میاں یوسف نے نرم
خوئی سے کام لیا اور عدالت میں طلبی کو اپنی انا کا سوال نہیں بنایا اور
حاضر ہوگئے۔ججوں کی انا کو بھی اس سے تسکین مل گئی ،چنانچہ ایک جج نے ان کی
حاضری کو عدلیہ کی فتح قراردیا اور نو رکنی بنچ نے معاملہ کی سماعت یکم
فروری کےلئے ملتوی کردی۔ یہ تو واضح ہے اصل نشانہ نہ تو گیلانی ہیں اور نہ
ان کی حکومت بلکہ صدر زرداری ہیں،اس لئے سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے لئے
اپنے موقف میں نرمی دکھائی۔ ملک کا سیاسی ماحول بھی پیش نظر رہا ہوگا۔بہر
حال وجہ قانونی ہو یا سیاسی ، جمعرات کی پیشی سے مفاہمت راستہ کھلا ہے۔
دوسرا معاملہ میمو گیٹ کا ہے۔ امریکا میں مقیم ایک سرکردہ پاکستانی تاجر
منصوراعجاز کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی کاروائی میں اسامہ بن لادن کے قتل کے
بعد زرداری کو یہ کھٹکالاحق ہوگیا تھا کہ کہیں فوج ان کی حکومت کا تختہ نہ
پلٹ دے، چنانچہ زرداری کے اشارے پر امریکا میںپاکستان کے سفیر اوران کے
معتمد خاص حسین حقانی نے ان (منصور اعجاز) کو استعمال کرکے امریکی فوج کو
یہ خفیہ پیغام بھجوایا تھاکہ اگر امریکا پاکستانی فوج کو بغاوت سے باز رکھے
تو زرداری حکومت امریکا کے تمام مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہے۔معاملہ اس
وقت طول پکڑگیا، جب آئی ایس آئی چیف شجاع پاشالندن گئے اور منصور اعجاز سے
طویل سوال و جواب کے بعد اپنی رپورٹ جنرل پرویز کیانی کو تو پیش کی، حکومت
کو بے خبر رکھا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی جانچ کےلئے ایک
کمیشن مقرر کردیا، حالانکہ سرکار پہلے ہی جانچ کا حکم دے چکی تھی۔اس کیس
میں فوج کی طرف سے جو بیان حلفی داخل ہوا ، اس سے فوج اور سول حکومت کے
درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔وزیر اعظم نے ایک چینی اخبار کو یہ بیان دیدیا کہ
فوج نے اپنے آئینی اختیار سے تجاوز کیا ہے جس پر جنر کیانی نے’ سنگین نتائج‘
کی دھمکی دیدی۔ اس کشاکش میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ فوج پھر اقتدار پر
قابض نہ ہوجائے، حالانکہ موجودہ حالات میں فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ
براہ راست مداخلت کا کھیل کھیلے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت،کراچی کے ایر بیس
پرسنگین حملہ اورصحافی سلیم شہزاد کے قتل کے بعد عوام فوج سے نالاں ہیں۔اسی
کے ساتھ میڈیا اورسپریم کورٹ نے بھی واضح کردیا ہے کہ مطلوب جمہوری نظام
میں اصلاح ہے ، نیا مارشل لاءہرگز قبول نہیں۔بارکونسل کے ایک وفد نے ان
حالات میں چیف جسٹس کے ملاقات کی جس میں چیف جسٹس اور بار کونسل کے صدر نے
بیک آواز اس عندیہ کا اعادہ کیا کہ اقتدار کی غیر آئینی تبدیلی منظور
نہیں۔ان حالات میں جمعرات 16جنوری کی رات قومی اسمبلی نے دوتہائی سے زیادہ
اکثریت سے جمہوریت کے حق میں جو قرارداد منظور کی ہے اور اس موقع پر وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی نے جو تاریخی تقریرکی ہے، اس سے ان ک ساسی قد بڑھا ہے
اور جمہوری نظام کے حق میں ماحول مزید مستحکم ہوا ہے۔عدالت میں حاضری سے
بھی وزیر اعظم کاوقار بڑھا ہے۔ ایسی صورت میں اگر سپریم کورٹ یا فوج یا
دونوں مل کر وزیر اعظم کے خلاف کوئی غیرمعمولی اقدام کرتے ہیں تو اس سے خود
اس کا الٹا اثر ہوگا اور وزیر اعظم کے ساتھ پی پی پی کی بھی عوامی تائید
بڑھے گی اور زرداری بھی مضبوط ہونگے جوان کے مخالفین کے نقطہ نظر سے
غیردانشمندانہ ہوگا۔
اس سیاسی عدم استحکام سے جنرل مشرف کی باچھیں کھل گئیں اوروہ ایک مرتبہ پھر
پاکستان میں اقتدار کا مکھیا بن جانے کا خواب دیکھنے لگے اور اعلان کردیا
کہ وہ عنقریب وطن واپس چلے جائیں گے۔ لیکن 24 ہی گھنٹے میں ان کا منصوبہ
گرد آلود ہوگیا۔ہرچند کہ پرویز مشرف نو سال اقتدار پر قابض رہے مگر سیاست
میں کچے ہیں۔چند ہفتہ قبل انہوں نے عمران کے بارے میں کہا تھا، حکومت
چلاناکرکٹ کے ۱۱ کھلاڑیوں کا کھیل نہیں، اب وہ عمران میں نیا وزیر اعظم
تلاش کررہے ہیں۔ایک ہندستانی صحافی(کرن تھاپر) سے ایک انٹرویو میں انہوں نے
یہاں تک کہہ دیا کہ عمران سے وہ گٹھ جوڑ کرلیں گے ، مگر عمران نے صاف کہہ
دیاکہ مشرف کی عوام میں حیثیت ہی کیا ہے؟ ان حالات میں مشرف کی واپسی دور
کا خواب لگتی ہے۔ اگر واپس آئے تو عجب نہیں کہ زرداری ان کو جیل کی اسی
کوٹھری میں بند کردیں گے جس میں وہ خود برسوں بند رہے۔
پارلیمانی انتخاب اگلے سال فروری میں واجب ہیں۔یہ بھی قیاس کیا جارہاہے کہ
کچھ پہلے بھی ہوسکتے ہیں، مگر اکتوبر سے پہلے ہرگز نہیں۔ امیدکی جاسکتی ہے
کہ اس وقت تک سیاسی ماحول گرم رہے گا اور عمران خان کے نام سے جو بلبلہ
ابھرا ہے وہ اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح ہمارے یہاں انا ٹیم کا بیٹھ گیا
ہے۔ وجہ اس قیاس کی یہ ہے کہ سیاست کے داﺅں پیچ میں عمران بھی کچے ہیں۔
چنانچہ انتخاب میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان ہی ہوگا۔
جو بات حتمی طور سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ نظام حکومت کو کنٹرول کرنے
کی فوج کی کوشش جاری رہیگی مگرمشرف کی آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری ادارے
جو اپنی جگہ بنا رہے ہیں وہ جاری رہیگا۔ہر چند کہ عدلیہ پرجوش ہے لیکن اگر
اس نے آئین اور قانون کے غیرجانبدارنہ حفاظت کے اپنے دائرہ کار سے تجاوز
کیا اور فیصلوں میں سیاسی رنجشوں کووزن دیا تو اس سے غلظ پیغام جائے گا۔
لیکن امید کی جانی چاہئے کہ ایسا نہیں ہوگا اوراس بحران سے جمہوریت مضبوط
ہوکر ابھرے گی۔(ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری
ہیں) |