لیڈر۔ لوٹا کیوں اور کیسے بنتا ہے؟

ُپاکستان میں لوٹوں کا موسم کب ، کہاں اور کس وقت شروع ہو جائے ، مری کے مو سم ا ور کسی بد مزاج بیوی کی طرح اسکا بھی کوئی وقت مقرر نہیں۔ پہلے قومی اسمبلی میں لوٹا لوٹا ہوئی، پھر پنجاب سمبلی میں لوٹا لوٹا ہوئی اور اب اسمبلیوں سے باہر لوٹا لوٹا ہو رہی ہے۔ پہلے تو ایسے ہوتا تھا کہ لوٹا ہوکر بھی لوگ ڈھٹائی کے ساتھ اسمبلیوں میں براجمان رہتے تھے اور ہم عوام کی محنت کی کمائی خوب سیر ہو کر کھاتے اور مٹی پلید کرتے تھے۔ تا ہم اب صد شکر یہ کہ لوٹے بھی کچھ باغیرت سے ہو گئے ہیں اور ریزائن کر جاتے ہیں۔آجکل ایک صاحب منہ میں کچھ پھونک کر دانہ ڈالتے ہیں کبوتروں کی پوری لاٹ اڈاری مار کر انکے چھجے پر آکر بیٹھ جاتی ہے اورساتھ میں دوسروں کی اڈاری سے بھی کچھ نہ کچھ مال کھینچ لاتی ہے جو کہ فورا جھپ لیا جاتا ہے۔اب جب سے اسی سال الیکشن ہونے کی خوشخبری مارکیٹ میں آئی ہے تو امید ہے اس لوٹا ما ری میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔

ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ آخر یار یہ لیڈر لوگ لوٹے ہی کیوں ہوتے ہیں؟بالٹی، تسلا، پتیلا، پتیلی ، کڑاہی، چمچ، کفگیر، ڈوئی، توا یا چمٹا وغیرہ کیوں نہیں ہوتے؟۔ کچھ غور و فکر اور ادھر ادھر سے پوچھ پاچھ کے بعد پتہ چلا کہ در اصل میں یہ بیچارے لیڈر لوگ لوٹے عوام کے غم میں گھل گھل کر ہوتے ہیں۔ انہیں عوام بیچاری کی اتنی فکر ہوتے ہے کہ لوٹا گیری بھی انکے دامن میں ڈال کر بچ بچا کے نکلنے کی کوشش کر تے ہیں۔ مثلا: ایک صاحب نے از خود فرمایا کہ وہ لوٹے اس لیے ہوئے ہیں کہ انکے حلقے میں ترقیاتی کام نا پید تھے، لوٹا ہونے پر انہیں بے بہا فنڈ مل گئے ہیں اور میرے حلقے میں دودھ دہی کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ مزید فرما یا کہ پہلے مجھے کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا اب اعلیٰ قسم کی امپورٹیڈ گھاس ملنے لگی ہے ۔ میرے حلقے کے لوگ ترقیاتی کام نہ ہونے پر میرے پیچھے جوتے لیکر دوڑتے تھے ، اور اس چکر میں اپنی بہت سی قیمتی کمالیہ کی دھوتیاں گنوا بیٹھا تھا، نوکریوں کے لیے بوری بھر بھر درخواستیں ملتی تھیں میں کچھ نہیں کر پاتا تھا البتہ گندم کے لیے سال بھر کی بوریاں جمع ضرور ہو جاتی تھیں۔ پہلے میں سالوں اپنے حلقے اور گھر میں نہیں جا پاتا تھا کہ میرے بچوں نے بھی مجھے ماموں کہنا شروع کر دیا تھا۔ اگر جاتا بھی تھا تو رات کے اندھیرے میں پچھلے بوے سے جاکر پچھلے سے ہی مال شال رکھ کر واپس آجاتا تھا۔ پر اب جب سے میں لوٹا بنا ہوں سب ٹھیک ہو گیاہے۔ اب تو میں جب چاہوں، جہاں چاہوں چلا جاﺅں۔ دورانِ اجلاس بھی کسی بھی درخواست پر کسی بھی منسٹر یا وزیرِ اعظم سے سائن کرا کر اپنا کام نکال لیتاہوں۔ ہیں نہ فائدے ہی فائدے لوٹا بننے کے۔

ہر چیز کی طرح لوٹے کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں مثلا: ۔۔ ایک نمبر کا لوٹا۔ یہ لوٹا کچھ زیادہ دن چل جاتا ہے جبکہ دو نمبر لوٹا کچھ عرصے بعد جواب دے جاتا ہے اور عجیب و غریب آوازیں نکالنا شروع کر دیتا ہے جو نوٹ دکھا کر بند کی جاتی ہیں ۔سستا لوٹا۔ یہ وہ لوٹا ہوتا ہے جو کہ عموما صرف پیسوں سے خریدا جاتا ہے جبکہ مہنگا لوٹا بعض دفعہ فنڈ کے ساتھ وزارت بھی مانگ لیتا ہے۔ کچھ لوٹے بہت ہی قیمتی قسم کے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں لوٹا کرنے کے لیے بڑے ہینڈسم اماﺅنٹ ، وزارت ، گاڑی اور، بنگلے شنگلے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ کچھ لوٹے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انکے ایک ووٹ سے حکومت ڈانوا ڈول ہو جاتی ہے ۔ایسے لوٹے بہت زیادہ نخرے والے ہوتے ہیں اور انکے نازو نعم اٹھانے کے لیے حکومتی چمچے ہر وقت انکے ساتھ دم چھلے بنے رہتے ہیں کہ چھینک بھی آ جائے تو فورا سپیشل جہاز کرا کر باہر کے ملک علاج کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔کچھ لوٹے خاندانی ہوتے ہیں کہ جنکا کام ہی لوٹا ہونا ہوتا ہے، ان لوٹوں کو جہاں کچھ ملتا نظر آئے فورا وہیں گر جاتے ہیں۔ بلکل ایسے جیسے کہ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گر تا ہے۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بس ہر حال میں لوٹا ہونا ہے چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے اور یہ عادت ،،چھوٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی،، کے مصداق قبر تک انکے ساتھ جاتی ہے۔ انکا بس نہیں چلتاکہ مرنے کے بعد بھی دوسرے کی قبر میں لیٹ جائیں۔ ویسے آجکل سیاست میں کچھ ایٹی کیٹس آنے سے لوٹا ہونے والے کچھ لوٹے ریزائن بھی کر دیتے ہیں اور کچھ اس تکلف میں نہیں پڑتے بلکہ فاروڈ لوٹا، بیک لوٹا ، فرنٹ لوٹا وغیرہ جیسے قافیے ساتھ لگا کر کام چلا لیا جاتا ہے ۔ کچھ ایسے لوٹے بھی ہوتے ہیں جو کہ بوجوہ ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ کافی عرصے سے لوٹے نہیں ہوئے ہوتے اور ہر وقت لوٹا ہونے کے لیے مچلتے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہیں لوٹا بننے کی کھرک ہورہی ہو تو ایسے لوگ اپنی یہ عادتِ قدیمی وقتی طور پر اپنے گھر میں ہی پوری کر لیتے ہیں کہ کبھی بیگم کی طرف تو کبھی بچوں کی طرف ہوکر لوٹا بن جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سرائیکی کی مثال ہے نہ کہ۔ سِر ونجے تے عادت ونجے۔ہمارے ہاں کچھ لوٹے ایسے بھی ہیں کہ جو باجماعت لوٹے بننا پسند فرماتے ہیں۔ بعض دفعہ گروپ کی صورت میں تو بعض دفعہ اپنی پوری جماعت ، قبیلے، اہل و عیال اور دیگر تما م افراد کے ساتھ لوٹے ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوٹے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں شامل رہتے ہیں۔ اگر انکی بات نہ مانی جائے تو جھکائی اپوزیشن کی طرف اور اگر مال پانی اچھا مل جائے تو حکومت کی طرف۔ تاہم اسکی بھی مدت ہوتی ہے، جونہی مال ختم ہوتا ہے یہ پھر سے لوٹا بننے کو ہر دم تیار ہو جاتے ہیں۔ لوٹے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں لوٹیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں پر ان پر نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے کہ ہم نے شام کو اپنے گھر بھی جانا ہوتا ہے؟؟؟ تو جناب ! اب حال یہ ہے کہ اس لوٹا گیری کو ہم سب کے قائد یعنی قائد اعظم سے ملا دیا گیا ہے کہ جی انہوں نے بھی تو پارٹی بدلی تھی۔۔۔۔۔۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ بھی لوٹا ہوئے تھے۔۔۔۔ دیکھیے کیسی کیسی خرافات بکتے ہیں زمانے میں یہ لوگ۔

ایک لیڈر صاحب کا قصہ سنیے جو کہ تازے تازے لوٹے ہوکر اپنے آبائی گاﺅں پہنچے تو انکا پر تپاق استقبال ہوا۔ ڈھول کی تاپ پر لوگ بھنگڑے ڈال رہے تھے اور کچھ اس طرح کے نعرے لگا رہے تھے۔۔۔۔۔ لوٹا ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر اے۔ آوے آوے لوٹا آوے ۔ آیا آیا لوٹا آیا۔لوٹے دے نعرے وجن گے۔ہمارے آن ہماری شان۔۔۔لوٹا خان لوٹا خان۔ انکی شان میں اتنا کچھ ہونے کے با وجود مجال ہے جولوٹا صاحب نے ذرا بھی برا منایا ہو کیونکہ سیاست کے کاروبار میں تو سب چلتا ہے نہ۔ اسکے علاوہ ان کی شان میں مختلف بینرز کچھ اسطرح کے تھے: ہم اپنے عظیم قائد کو لوٹا ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے کچھ نہیں کیا بس درجن بھر مختلف سائز اور رنگ کے لوٹے ایک ڈنڈے پر لٹکائے جلوس میں موجود تھے۔ میڈیا کے نمائندوں نے اسکے تاثرات لیے تو پتہ چلا کہ موصوف کی لوٹوں کی دکان ہے اور اسکی ما رکیٹنگ کے لیے جلوس میں شریک ہیں۔ ایک بینر کچھ اسطرح کا تھا۔لوٹا ہونے والے تیری عظمت کو سلام۔ ایک اور بینر کچھ اسطرح تھا۔ لوٹے رے لوٹے تیری ٹونٹی کدھر ہے؟؟ لوٹا صاحب نے مجمع سے اپنے مختصر خطاب میں فرما یا: میرے محلے اور حلقے کے پیارے لوگو جیسا کہ آپکو معلوم ہے کہ مجھے لوٹا ہونے کا کوئی خاص شوق نہ تھا پرمیں آپ لوگوں کے گٹروں کے ڈھکن لگوانے کو لوٹا ہوا ہوں، میں آپ لوگوں کی نالیاں بنوانے کے لیے لوٹا ہوا ہوں، میں آپ لوگوں کے ڈنگروں کے بھانے بنوانے کے لیے لوٹا ہوا ہوں، میں آپ لوگوں کو تھانے اور پٹواریوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے لوٹا ہوا ہوں۔ مجمعے سے کسی نے آواز لگائی کہ آپکے تو اپنے بھائی بند پٹواری اور تھانیدار ہیں، ایک جَنا ڈھکواتا ہے اور دوسرا جَنا لے دلا کر چھڑواتا ہے، پر ان صاحب نے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی تقریر جاری رکھی اور مزید بولے کہ میں آپ لوگوں کو آپ کی بیگمات کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کو لوٹا ہوا ہوں۔ اس پر مجمعے میں بہت زور سے تالیاں اسیے پیٹی گئیں کہ جیسے وہاں سارے ہی رن مرید یعنی صنفِ نازک کے ظلم کا شکار ہوں ۔ مزید گویا ہوئے کہ میں آپ لوگوں کو بھتہ خوروں اور اٹھائی گیروں اور رشوت ستانی سے نجات دلانے کے لیے لوٹا ہوا ہوں۔ مجمعے سے پھر آواز آئی کہ آپکا اپنا لختِ جگر یہ کام بحسن و خوبی یہ کارنا مہ انجام دے رہا ہے تو انہوں نے بھر پور بہرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقریر جاری رکھی اور بولے کہ میں لوٹا آ پ لوگوں کی بھلائی کے لیے ہوا ہوں، ہوتا رہاہوں اور اگر آپ کے حقوق ؟؟ادا نہ کیے گئے تو آپکا یہ پڑھا لکھا لیڈر آپ لوگوں کے لیے سو بار لوٹا ہوتا ر ہیگا۔ تالیاں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے خوشی ہے کہ آپنے مجھے لوٹا ہونے کے باوجود سینے سے لگا یا اور عزت دی۔اسکے علاوہ میرے وہ بھائی بند جو مجھے لوٹا ہونے کا بار بار طعنہ دیتے ہیں وہ سن لیں کہ میں طعنوں سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں اور اگر انہوں نے اپنی گندی زبان بند نہ کی تو میں انکی وہ ۔۔۔۔؟؟ والی فلمیں یو ٹیوب پر چلا دونگا ۔ مجمعے سے پھر آواز آئی کو سر جی! آپ کی بھی ایک ویسی ہی ؟؟؟ویڈیو یو ٹیوب پر پڑی ہے اسکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے ؟؟؟

لیڈر صاحب دھیان دوسری طرف کر کے پھر بولے کہ میرے لوٹا ہونے کی ایک اور وجہ میرا اپنی پالٹی سے اختلاف ہے، جہاں میر ی بات نہیں سنی جاتی تھی ۔ مثلا: میں انہیں کہتا تھا کہ وینا ملک کے کیس میں آپ کچھ کریں، وہ مجھے پیسہ وغیرہ دے کر چپ کرا دیتے تھے۔ ایک بار میں نے تیسری جنس کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہوں نے مجھے فری ریٹرن ایئر ٹکٹ ، سات ستارہ ہوٹل میں قیام و طعام، لیموزن کار اور ایک مشہور اداکارہ کے ساتھ باہر کے ملک کانفرنس میں بھجوادیا۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ میں اَدھا درجن بچوں کا باپ ہوں ، انگریزی تو کجا میری تو اَردو بھی ٹھیک نہیں، اور یہ کہ مجھے تو سائیکل بھی نہیں چلانی آتی تو لیموزن کار اور کڑی کیوں دی؟؟ پر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور آخر کار میں وہاں کار کا چالان کرا بیٹھا۔ بی بی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی صحت کا بھی خیال رکھیں گی اور انگریزی بھی سکھائیں گی اسلیے ساتھ لے جائیں، حالا آنکہ میری صحت ویسے بھی بہت اچھی ہے صرف بارہ گولیا ں روزانہ کھاتا ہوں، اور وہ بی بی جیسے گئی تھی ویسے کی ویسے ہی واپس آگئی بغیر کچھ سیکھے سکھائے ؟؟۔ ایک بار پھر میں نے انکی ایک اور بات پر اختلاف کیا تو انہوں نے مجھے ایک فلاں کمیٹی جس کا مجھے نام ٹھیک طرح نہیں آتا اسکا چیئر مین بنا دیا اور میں آجتک اسکا چیئر مین ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ چور مین بننے کے بعد سے میری دال روٹی اچھی چل رہی ہے ۔ ۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے مجھے اپنی پرانی پالٹی چھوڑنی پڑی ۔۔۔ اب آپ بتائیں کہ میںنے غلط کیا یا ٹھیک؟؟ مجمع سے کچھ مری مری سی آواز آئی کہ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔ آواز کچھ کم ہونے پر انتظامیہ کے کسی بندے نے آواز لگائی کہ یا ر پانچ پانچ سو روپیہ دے کر نعرے مارنے کو لایا ہوں، کچھ تو آواز نکالو۔ یوں پھر سے نعروںمیں تیزی آگئی۔

ذرا وقفے کے بعد لیڈر صاحب دوبارہ گویا ہوئے کہہ: لوٹا ہوکر اب میں دوبارہ الیکشن ولیکشن لڑ کر ملک اور قوم کا پیسہ اور آپکا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چا ہتا۔ لہذا آپ نے مجھے جیسے پہلے قبولا تھا اسی طرح جہاں ہے اور جیسے ہے کہ بنیا د پراسی حال میں قبول لیں۔ مزید یہ کہ اللہ کا شکر ہے مجھے فنڈ بہت سارے مل گئے ہیں آپ لوگ اپنے اپنے علاقے کے ترقیاتی کاموں کا حساب کتاب اور میرا دال روٹی کا خرچہ لگا کر مجھے بتادیں، انشائاللہ میں آپکے تمام مسائل حل کرا دونگا۔ قریب کھڑے ایک چیلے نے لیڈر کے کان میں کھسر پھسر کی کہ سر جی اذان کا ٹائم ہو رہا ہے اس ٹائم پر جھوٹ ذرا کم بولیں، بلکہ بہتر ہے کہ اپنی تقریر یہیں اینڈ کر دیں اس سے پہلے کہ لوگ ہم پر لوٹے برسانا شروع کریں۔لیڈر صاحب نے پوچھا کہ کیا عصر کی اذان؟ چیلے نے چپکے سے پھر کان میں کہا کہ سر جی! سورج غروب ہوتے وقت مغرب کی اذان ہو تی ہے، عصر کی نہیں ۔ مزید کہا کہ اس سے پہلے کہ لوگ آپ سے عشا ءکی نماز کی رکعتیں پوچھ لیں ، یا کوئی سورت سنانے کا کہیں، جو کہ آپ کو نہیں آتیں، آپ یہاں سے کھسکنے والی بات کریں۔لیڈر صاحب نے بھی پھر وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247493 views self motivated, self made persons.. View More