اللہ نے دنیا میں کوئی بھی چیز
بے مصرف نہیں بنائی۔ علامہ اقبال نے بھی کہا ہے کہ قدرت کے کارخانے میں
کوئی بُرا اور نِکمّا نہیں۔ کھوٹا سکہ بھی کبھی کبھی کام آ ہی جاتا ہے۔ بند
گھڑی میں بھی دن میں دو مرتبہ صحیح وقت بتاتی ہے۔ ایسے میں بھلا یہ کیونکر
سوچا جاسکتا ہے کہ ماہرین کی باتوں میں کہیں صداقت کا کوئی پہلو ہو ہی نہیں
سکتا؟ ہم ہمیشہ ماہرین کے معاملے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں۔ اُن کی
باتوں کو سچ مان کر قبول کرنے کے معاملے میں ہم نے ہمیشہ ”میٹھا میٹھا ہپ
ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو“ کے اُصول پر عمل کیا ہے۔ یعنی جو بات مطلب کی ہو وہ
لے لی جائے اور باقی سب کچھ مسترد کردیا جائے۔ گزشتہ دنوں ماہرین نے ایک
اور کام کی بات کرکے ہمیں پھر حیران کردیا۔
برطانوی ماہرین نے خاصی عرق ریزی کے بات یہ کام کی بات بتائی ہے کہ ڈیوٹی
کے دوران تھوڑا سا سو لینے سے طبیعت کام کے لئے زیادہ موزوں ہو جاتی ہے اور
بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ممکن ہوجاتا ہے! جب سے ہم نے یہ بات پڑھی ہے، ہم
خود کو بھی ماہرین میں شمار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ کسی تحقیق
کے بغیر یہ رائے تو خود ہماری بھی رہی ہے! اور سچ پوچھیے تو اِس کسوٹی پر
پرکھنے کی صورت میں تو پاکستانیوں کی اکثریت ماہرین کے زُمرے میں آ جائے گی!
ویسے نیند سے خود ماہرین کا بھی گہرا تعلق ہے۔ ان کی بیشتر باتیں اور خاص
طور پر تحقیق کے بعد کی جانے والی پیش گوئیاں نیند میں بڑبڑانے سے کم نہیں
ہوتیں! غنودگی کے بڑے فوائد ہیں۔ انسان کچھ بھی کہے، ”بھائی صاحب! میں تو
نیند میں تھا“ کہہ کر ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے بچ نکلتا ہے!
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں جاگتے رہنے پر نیند اور غنودگی کو
فوقیت دی جاتی ہے۔ اور بات ایسی نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے۔ ذرا سی نیند سو
بلاؤں کو ٹالتی ہے۔ اور اِن بلاؤں میں سونے والے کا بھی شمار ہوتا ہے! نیند
کے یوں تو اور بھی فوائد ہیں، مگر سب سے بڑا فائدہ دفاتر میں دکھائی دیتا
ہے۔ کچھ لوگ ڈیوٹی کے دوران سوکر خود بھی پُرسُکون رہتے ہیں اور دوسروں کو
بھی سُکون سے کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں! اگر کچھ دیر سونے سے دفتر
اور اپنا اور دوسروں کا وقت اچھا کٹتا ہے تو ایسا کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔
وقت اچھا کٹنا چاہیے۔ زندگی کا کیا ہے، وہ تو کسی نہ کسی طور گزر ہی جائے
گی!
ہم نے جب بھی اپنے دفتر کے بعض ساتھیوں کی توجہ اُن کی ”قابل رشک نیند“ کی
طرف دِلانے کی کوشش کی ہے اُن کی طرف سے یہی جواب ملا ہے کہ جب پوری قوم سو
رہی ہے تو ہم جاگ کر کون سا تیر مار لیں گے! دفتری اوقات میں نیند کی دیوی
کی پوجا کرنے والوں کے بارے میں یہ گمان کرنا درست نہیں کہ وہ کام چور اور
ہڈ حرام ہوتے ہیں۔ نیند کی وادی میں کھوکر وہ دفتری ساتھیوں کی اور دفتری
ساتھی اُن کی سازشوں سے محفوظ رہتے ہیں! اگر کچھ دیر نیند پوری کرنے سے
دفتر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے اور لوگ ہشاش بشاش ہوکر کام کرتے ہیں تو
آجروں کے لئے اس سے زیادہ آئیڈیل سچویشن کون سی ہوگی؟
اکیسویں صدی نے جہاں بہت سے سہولتیں پیدا کی ہیں وہیں چند ناقابل برداشت
قباحتیں بھی پیدا کی ہیں۔ موبائل کیمرہ بھی ایک ایسی ہی قباحت ہے۔ ہم نے جب
بھی دفتری اوقات میں کچھ دیر سونے کا سوچا ہے، بعض احباب کے انجام نے ہمیں
ایسا کرنے سے باز رکھا ہے۔ ہر دفتر میں جلنے کڑھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ہم
نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو دفتر میں کچھ دیر (یعنی ڈیڑھ دو گھنٹہ) کمر
سیدھی کرنے والوں کی موبائل کیمرے سے وڈیو بناکر سب کو دکھاتے پھرتے ہیں!
پرائیویسی میں اِس نوعیت کی مداخلت چونکہ ہمیں پسند نہیں اِس لئے ہم دفتر
میں نیند پوری کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دفتر میں سونے والوں کی وڈیو بنانے
والوں کو ہم نے کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بھائی! اس ملک میں
حکمران، قانون پر عمل کرانے والے، سرکاری ملازمین، اہل دانش، اہل قلم....
سبھی سو رہے ہیں، ایسے میں دو چار لوگ اگر تھوڑی سی نیند پوری کرلیں گے تو
کون سی قیامت آ جائے گی! ہم اُن خوش فہم لوگوں میں سے نہیں جو دفتری اوقات
میں ہمہ وقت جاگ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سارا رونق میلہ
کچھ اُنہی کے جاگتے رہنے پر منحصر ہے!
لوڈ شیڈنگ نے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح نیند کا نظام بھی تہس نہس کردیا
ہے۔ ہم نے دفتر کے ایک ساتھی کو ایک ڈیڑھ گھنٹے تک خواب خرگوش کے مزے لوٹتے
دیکھا تو ”وجہِ تسمیہ“ پوچھی۔ کہنے لگے رات کو گھر میں بجلی نہیں تھی اِس
لئے نیند پوری کر رہا تھا۔ ہم مطمئن ہوگئے کہ چلو، اِنسان کا دفتر پر اِتنا
حق تو ہونا ہی چاہیے! کچھ دیر بعد اُن کی گاڑی پھر کچّے میں چلی گئی! جب وہ
مزید ڈیڑھ گھنٹے کی نیند سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا کہ حضرت! نیند کی
زیادتی آپ کو کہیں تن آسانی کی طرف نہ لے جائے! بولے ”جناب! تن آسانی کیسی؟
پہلے گزری ہوئی رات کی نیند پوری کر رہا تھا، اب آنے والی رات کی نیند پوری
کی ہے!“ یہی وہ pre-emptive سوچ ہے جو امریکہ نے متعارف کرائی ہے!
دفتر میں سونے کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ اِنسان ذرا سا بھی خوفزدہ نہ ہو۔
ماہرین کے مشورے سے بہت پہلے ہم نے دفتری نیند کے چند اُصول وضع کئے تھے۔
دس بارہ سال قبل ہم کسی اور اخباری ادارے میں تھے۔ رات کی ڈیوٹی میں ہم
کبھی کبھی (یعنی روزانہ) تھوڑی دیر کے لیے(یعنی یہی کوئی ڈھائی تین گھنٹے)
کمر سیدھی کیا کرتے تھے! ایک دن اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں کسی نے مالکان سے
شکایت کی تو اُنہوں نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ جیسے اُنہیں سب معلوم ہے اور
کسی سے فیڈ بیک کی ضرورت نہیں، شکایت کرنے والے کو جھاڑ دیا۔ جب ہمیں یہ
بات معلوم ہوئی تو ہم نے نیند کا دورانیہ بڑھا دیا۔ کسی نے سبب پوچھا تو ہم
نے وضاحت کی کہ جناب! ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہماری نیند مالکان کے علم نہیں۔
اب جب یہ معلوم ہوگیا ہے تو اُن کا بھی تو کچھ بھرم رکھنا چاہیے یا نہیں!
اگر آپ دفتر میں کچھ دیر سونے کو بُرا سمجھتے ہیں تو اپنی سوچ فوراً بدل
ڈالیے۔ دفتری اوقات میں سونے کا رجحان اِتنی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ
بہت جلد وہ لوگ ناپسندیدہ کہلائیں گے جو ہمہ وقت جاگ کر مالکان کو خوش
رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں! |