آرزوﺅں کے بنتے بکھرتے دائرے

ضعیف العمری کے باوجود وزیر اعظم بن جانے کی آرزو میں آڈوانی جی نے جن چیتنا یاترا کے نام سے جو مشقت کی تھی وہ اب بھولی بسری یاد بن چکی ہے۔ یہ یاترا20نومبر کو دہلی میں ختم ہوئی تو ریلی میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے نمائندے بھی موجودتھے جس سے یہ قیاس آرائی کی گئی کہ کماری جے للتا این ڈی اے کا دامن تھام لینے کےلئے پینگیں بڑھارہی ہیںچنانچہ بھاجپا کومرکزمیں مسند اقتدار نزدیک نظر آنے لگی اور اس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آڈوانی جی نے اپنی تقریر میں اس شرکت کا اہمیت کے ساتھ ذکر کیا اور کماری جے للتا کو بھاجپا کو فطری شریک بھی قرار دیدیا حالانکہ ان کی پارٹی ایک مختصر مدت کےلئے ہی (1998-1999) باجپئی سرکار میںشامل رہی تھی اور اسی کی بدولت یہ سرکار 13ماہ میں ہی گر گئی ۔ان ڈی اے نے 2004 اور 2009 کے پارلیمانی انتخابات میں کوشش کی کہ جے للتا سے کچھ معاملہ ہوجائے مگر تمل ناڈو کی زیرک سیاستداں اس کےلئے آمادہ نہیں ہوئیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست میں پیر جمانے کی بھاجپا کی کوششوں کس سخت دھکا لگا۔

اڈوانی جی کی یاترا کے دوران یہ خبر آئی کہ تمل ناڈو میں ، جہاں 2011 کے اسمبلی الیکشن میں ان کی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیںملی تھی ،رتھ کے راستے میں بم ملا ۔اڈوانی جی نے اس کا تذکرہ بڑی ڈرامائی تفصیل کے ساتھ گزشتہ ہفتہ(14جنوری) مدراس کے ایک جلسہ میں کیا اور یہ دعوابھی کرڈالا کہ بم میں 7کلو آرڈی ایکس تھا ۔اس ساری داستان میں کتنی صداقت ہے؟ یہ تو معلوم نہیں البتہ اتنا معلوم ہے کہ اس سنسنی خیز خبر سے آڈوانی جی اور ان کی یاترا کے تئیں ہمدردی کی کوئی لہر نہیں اٹھ سکی تھی۔ البتہ آڈوانی جی نے جے للتا کو فون کرکے ان کا شکریہ ضرور ادا کیاتھا۔ کماری جے للتا ایک مہذب خاتون ہیں، انہوں نے آڈوانی جی کی پیرانہ سالی کا لحاظ کرتے ہوئے بات کی یہ بھی کہا کہ اگر خدانخواستہ کوئی سانحہ ہوجاتاتو وہ خود کو معاف نہیں کرسکتی تھیں۔جلسہ میں یہ تذکرہ انہوں جے للتا سے اپنے قریبی تعلق کے اظہار کےلئے بڑی تفصیل سے کیااور ان کی خوب تعریف کی۔یہ بھی دوہرایا کہ انا ڈی ایم کے تو بی جے پی کی قدرتی حلیف ہے اور این ڈی اے سے باہر رہتے ہوئے بھی وہ بھاجپا کی مدد کرتی رہی ہے۔ آڈوانی جی نے تمل ناڈو کی وزیر اعلا کا موازنہ نریندر مودی سے بھی کیا جو ڈائس پر موجود تھے اور کہا کہ خاندان کا کوئی جونیر فرد ہونہار ہو تو اس کا اعتراف ہونا چاہئے اور مودی نے گجرات میں جو ’کارنامہ‘ انجام دیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کو مرکز میں کام کا موقع ملے تاکہ پورا ملک گجرات بن جائے۔ اس مدح سرائی کے باوجود وزیر اعظم کے منصب کےلئے مودی کی دعویداری پر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔

نریندر مودی بھی جے للتا سے اپنی قربت کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ ان کی رسم حلف برداری میں شریک ہوئے تھے اور جوابا ً جے للتا نے مودی کی درخواست پر ان کے سیاسی سدبھاﺅنا اپواس کی تائید کےلئے اپنے دو ممبران پارلیمنٹ کو افتتاحی تقریب میںبھی بھیج دیا تھا۔ تاہم اس کی یہ وضاحت کی کہ یہ مودی یا بھاجپا کی نہیں بلکہ سیکولر اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے اصول کی تائید ہے۔ نریندر مودی شاید اس امیدسے مدراس کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے منصب کی دوڑ میں (جو ابھی شروع نہیں ہوئی ہے) وہ جے للتا کی تائید حاصل کرکے آڈوانی کو مات دے دیں گے، مگر ان دونوں لیڈروں کو اس وقت سخت مایوسی ہاتھ لگی جب مذکورہ جلسے کے میزبان چُو راما سوامی نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ مودی تو دیگر پارٹیوں کےلئے قابل قبول نہیں، چنانچہ غیر کانگریسی سرکار بننے کی صورت میں وزیر اعظم جے للتا کو بنایا جانا چاہئے۔ڈرامہ نویس، مزاح نگار ، صحافی چوسوامی تمل رسالہ ”تغلق“ کے مدیر ہیں اور یہ تقریب اس کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی تھی۔

مذکورہ جلسے سے پہلے میڈیا میں یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ وزیر اعلا جے للتا ان دونوں معزز مہمانوں کوملاقات کا موقع دیں گی مگر جے للتا نے وزیر اعظم کے امیدوار ان دونوں بھاجپائی لیڈروں کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا۔ آڈوانی جی کا تو معلوم نہیں،لیکن مودی جی تو کماری جے للتا سے ملاقات کی آرزو کے ساتھ مدراس گئے تھے اور ملاقات کےلئے وقت بھی مانگا گیا تھا۔کماری جے للتا کی بے رخی سے مودی کے ہم نوا زیادہ مایوس ہونگے ۔ مایوسی این ڈی اے کنوینر شرد یادو کے اس عندیہ سے اور بڑھ گئی ہوگی کہ ان کی پارٹی جنتا دل (یو) کو مودی کی قیادت منظور نہیں۔ خیال رہے کہ نتیش کمار کو بھی مودی کے حریفوں میںشامل ہیں اور ان کی یہ دعویداری اسلئے زیادہ مضبوط ہے کہ انہوں نے بہار میں واقعی چمتکار کردکھایاہے۔گجرات تو ہمیشہ سے ترقی یافتہ ریاست رہا ہے لیکن بہار کا گڈھوں میںسے نکل آنا بڑا کارنامہ ہے جس کا مرکز بھی معترف ہے۔

’اندر کی خبر‘ یہ ہے کہ کماری جے للتا کے رویہ میں یہ تبدیلی گزشتہ ماہ وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے بعد آئی جس میں انہوں نے ریاست کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا تھااورمرکز سے مالی امداد مانگی تھی ۔ وزیراعظم نے ان کو کچھ یقین دہائی ضرور کرائی ہوگی کیونکہ ڈی ایم کے کے سیاسی زوال کے بعد انا ڈی ایم سے راہ رسم بڑھانا یوپی اے کی ضرورت بن گیا ہے۔ ڈی ایم کے سے رشتہ فوری منقطع کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ لوک سبھامیں اس کے پاس18ممبر ہیں جبکہ انا ڈی ایم کے پاس صرف 9ہیں۔دراصل جے للتا نے این ڈی اے کی طرف جھکاﺅ دکھا کرمرکز سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کی کوشش کی ہے، مگر آڈوانی اور مودی اس علامتی جھکاﺅ سے خوش فہمی میںمبتلا ہوگئے۔

ایک خبر یہ ہے کہ ممتا بنرجی، جوباجپئی کابینہ میں وزیر تھیں ، این ڈی اے لیڈروں سے مل رہی ہیں۔ شایدوہ سمجھ رہی ہیں کہ اپنی سیکولر شبیہ کے ساتھ اگر نتیش کمار بھاجپا کے ساتھ چل سکتے ہیں تو وہ بھی وقت آنے پر ریاست میں سیکولر اور مرکز میں بھگوا جھنڈا لہرا سکتی ہیں۔لیکن یہ ابھی دور کی بات ہے۔ فی الحال سب کی نظریں چار اسمبلیوں کے رواں انتخابات پر لگی ہیں، جس میں بھاجپا کی پسپائی اور کانگریس کے پیش رفت کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ پنجاب میں صاف نظرآرہا ہے کہ اکالی۔ بھاجپا اتحاد کے ہاتھ سے اقتدار نکل جائے گا۔ اتراکھنڈ میں بھی تبدیلی کے امکانات ہیں۔یو پی کے انتخابی دنگل میں راہل گاندھی نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق بھاجپا مسلسل زوال پذیر ہے اورتیسرے مقام سے کھسک کر چوتھے پر آگئی ہے۔ ہر چند کے الائینس کے اس دور میں بھاجپالیڈرروی شنکر پرسادکا اصرار ہے کہ ان کی پارٹی چناﺅ کے بعد کسی سے گٹھ جوڑ نہیں کرےگی، پارٹی صدر نتن گڈکری کابھی یہی کہناہے ، مگر گمان یہ ہے کہ بھاجپا بھاگ کر مایاوتی کا دامن تھام لیگی تاکہ اقتدار کی ملائی میں حصہ مل سکے۔ بصورت دیگر امکان اس بات کا ہے کہ کانگریس ۔ ایل ڈی اور ایس پی مل کر سرکار بنائیں اور مرکز میں ایس پی بھی یو پی اے میں شامل ہوجائے۔ یہ صورتحال بھاجپا کےلئے بڑی مایوس کن ہوگی۔ اگر یو پی میں یوپی اے کی موافق سرکار بن گئی تو تلون مزاج ممتا بنرجی کا چیلنج بڑی حد تک بے اثر ہوجائے گا۔

یو پی میں اومابھارتی
بندیل کھنڈ سے اوما بھارتی کو اسمبلی کا ٹکٹ دئے جانے پر راہل گاندھی نے یہ سوال کیاتھا کہ وہ اس وقت کہاں تھیں جب اس خطے کے باشندے مصائب میں گھرے تھے؟خیال رہے کہ بھاجپا نے ذات برادری کا کارڈکھیلتے ہوئے مدھیہ پردیش کی اوما بھارتی کوچرخری اسمبلی حلقہ سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا بھاجپا کو علاقے کا کوئی لیڈر امیدوار بنانے کو نہیں ملا تھا کہ دیگر ریاست سے امیدوار لایا گیا۔ اس کا جواب خود دیتے ہوئے اوما بھارتی ایک مرتبہ پھر سونیا گاندھی کے ’غیر ملکی‘ ہونے کاسوال اٹھایاحالانکہ بھاجپا کے اس اعتراض کو عوام بارہا مسترد کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’ راہل گاندھی کو اپنی ’بوا‘ (پھوپی) کے غیر ریاست کا ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی ماں اطالوی النسل ہیں۔‘ہمیں یہ اچھا لگاکہ اوما بھارتی نے راہل کی پھوپی بن کر سونیا گاندھی کو اپنی بھاوج اور گھر کی بہوتسلیم کرلیا۔ ان کو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہمارے سماج میں گھر کی فطری کرتا دھرتابہو ہوتی ہے۔ بھاوج کو اس کے مائکے کا طعنہ دینا اور غیر ریاست سے آکر بھتیجے کے خلاف محاذ آرائی کرنا ’بھارتی بوا‘ کو کیونکرمنظور ہوا؟ بیشک سونیا گاندھی اٹلی سے آ ئیں مگر پوری طرح یہاں کے رنگ میں رنگ گئیں۔ نندسادھوی جی کو ان پر اعتراض کرنے سے پہلے خود اپنا بھی احتساب کرناچاہئے کہ ان کی مصرفیات اور زبان و بیان ان کے گیروئے چولے سے ہم آہنگ ہے یانہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ سونیا تو بہو بن کر بھارت آئیں، وہ کس حیثیت سے اپنا گھر چھوڑ کر یوپی آئیں؟ دراصل شدید سیاسی ہزیمت اٹھانے کے بعد مدھیہ پردیش میں ان کےلئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی اور وہ ریاست بدر کی گئی ہیں ۔ گڈکری جی ان کی شجرکاری اس زمین میں کررہے ہیں جو ان کو کبھی قبول نہیں کریگی۔پارٹی کے سینئر لیڈر کلراج مشرا کا بیان کہ وہ غیر ریاست کی ہیں، یوپی میں ان کی قیادت تسلیم نہیں کی جاسکتی، خاصا اہم ہے۔ کیا گڈکری جی کی پیوند کاری اس بات کا اعلان نہیں ہے کہ یوپی کی سرزمین بھاجپا کےلئے بانجھ ہوچکی ہے اور ریاست کا کوئی لیڈر قیادت سنبھالنے کا اہل نظر نہیں آیا؟ نظرآئیں تو وہ بڑبولی خاتون جو اپنی ریاست میں اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکیں؟قیادت کے اسی فقدان کے باعث ریاست میں واجپئی جی کے پوسٹروں سے کام چلایا جارہا ہے۔ پوسٹر بے جان ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح سے جس طرح سے ریاست میں پارٹی بیجان ہوگئی ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.