تحریر:پیر محمد اکبر نقشبندی
ساقی
18دسمبربروز اتوار مینار پاکستان لاہور کے بعد 22جنوری بروز اتوار لیاقت
باغ راولپنڈی کے بعد 29جنوری بروز اتوار سپورٹس گراﺅنڈ ملتان میں منعقدہ
لاکھوں پگڑیوں ، ٹوپیوں ،داڑھی والے عظیم مسلمانوں کے دفاع پاکستان سے
معنون تاریخی جلسوں نے نہ صرف قومی سیاست دانوں، صحافیوں ، دانشوروں ،
تجزیہ نگاروں اخبارات کے ایڈیٹروں ، عسکری دانشوروں کالم نویس کو حیران کیا
بلکہ امریکہ اور بھارت بھی ششدر اور پریشان ہو گئے مغربی اور ملکی میڈیا نے
قائد جمعیت شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق کے جلسوں کو حیران کن شو قرار دیتے
ہوئے کہا اس سے حکومت مخالف تحریک میں تیز ی آ سکتی ہے ۔ قائد جمعیت کی
بڑھتی ہوئی مقبولیت امریکہ اور بھارت کے لیے واقعتا تشویش ناک ہے واشنگٹن
پوسٹ کے مطابق 2لاکھ سے زائد افراد تھے ۔ اخبار نے لکھا کہ دفاع پاکستان
کانفرنسز میں بھارت اور امریکہ کی مخالفت اور کرپشن لبرل کلچر کی مخالف میں
مذہب اور ملک سے والہانہ محبت کرنے والوں کے دلوں میں زیاد ہ مقبولیت پیدا
کر دی ۔ نیز قائد جمعیت جو ہر جگہ ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف تمام قائدین
اور عوام سے لیتے ہیں جو نظریاتی کارکنوں اللہ ،رسولﷺ سے محبت رکھنے والوں
کے لیے انتہائی جاذبیت کا حامل ہے ۔ اگرچہ سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ کی
باتیں نئی نہیں لیکن مذہب سے لاتعلق سیاست دانوں کو ڈرون حملوں کے خلاف
اکٹھا کرنے میں ممد ثابت ہو رہی ہے ۔ شاید آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم
سردار عتیق نے 5فروری بروز اتوار یکجہتی کشمیر کے لیے ایک جلسہ مظفر آباد
کشمیر میں مانگ کر مزید جان ڈال دی۔ بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف
انڈیا نے بھی دفاع پاکستان کانفرنس کو کامیاب قرار دیا ۔اس طرح محض ملک سے
مخلص قومی سیاست دانوں نے اپنے اپنے قد کاٹھ کے مطابق مختلف بیان دیئے ۔
بہر حال انسانوں میں اختلاف فطری بات ہے ۔لیکن برتر کو کمتر کہنا یا سمجھنا
غیر انسانی فعل ہے ۔طویل ترین رات بھی سحر سے آگے نہیں جا سکتی۔نیز ظلم
وجبر ،دھوکہ اوراستحصال حد سے بڑھاجائیں تو دفاع کے نام پر اتحاد لازم آتا
ہے ۔کانٹوں بھری شاخ پہ بھی پھول نکل آتے ہیں۔کوئی بحث نہیں کیونکہ یہ
قانون قدرت ہے ۔ محنت رنگ لاتی ہے ۔ آپ نے دیکھا ۔ سینیٹ میں شریعت بل لانے
والے اور حرم کی توسیع کے لیے پوری دنیا سے منتخب ہونے والی شخصیت کبھی
دفاع افغانستان کبھی متحدہ شریعت محاذ اسلامی جمہوری اتحاد ، متحدہ دینی
محاذ ، متحدہ علماءکونسل اور متحدہ مجلس عمل کی تخلیقی محنتوں کے
موجدمولانا سمیع الحق صاحب کی 40سالہ جدو جہد رنگ لائی۔ ایسا رنگ جو صرف
تہذیبی ، ثقافتی اقدار سے ہم آہنگ ہی نہیں بلکہ نیا رنگ ”صِبغَةَ اللّٰہِ
وَمَن اَحسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبغَةً“جس پہ کوئی رنگ چڑھ ہی نہیں سکتا۔ ایسے
رتبہ سے قائد جمعیت کو سرفراز کر گیا جوشاید کسی اور کے نصیب میں نہ آسکے۔
کیونکہ لاہور ، پنڈی ، ملتان ، کشمیر ، کراچی یہ سب میدان اس مرد میدان کے
تاریخی میدان قرار پائے ۔ لاکھوں کی تعداد میں فرزندان ِ اسلام کے چہروں کو
کئی بار دھیان سے دیکھنا نصیب ہوا محسوس ہوتا تھا یہ چہرے مایوسیوں اور
محرومیوں کے بجائے امید افزا رنگوں ، نئے جذبوں اور خوشبوﺅں سے معطر و
سرشار تھے ، جھوم رہے تھے ۔6سے7گھنٹے استقامت سے کھڑے اپنی رات کا سورج
طلوع ہوتا دیکھنے کے لیے بیتاب تھے ۔ جلسوں میں کئی بار جگہیں بدلیں اپنی
کان لوگوں کے ہونٹوں کے قریب کیے بار بار میرے کانوں نے یہ سنا آج ملک سے
یہود و نصاریٰ کی غلامی ،انتقامی اور فرسودہ سیاست کے خاتمے کا دن ہے ۔یہ
دھرتی کے باسیوں کا غیر ملکی تسلط سے نجات کا دن ہے ۔ یہ تاریک مستقبل کے
بجائے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔میں نے پھر اپنی جگہ بدلی مجھے قائد جمعیت
،حافظ سعید ، منور حسن، لیاقت بلوچ، احمد لدھیانوی ، مولانا طیب طاہری ،
مولانا شیخ عبدالرحمن مکی ، مولانا عصمت اللہ نظریاتی ، مولانا اشرف علی،
مولانا فضل الرحمن خلیل ، سابق ایم این اے مولانا حامد الحق حقانی ، مولانا
زاہد الراشدی ، شیخ رشید،اعجاز الحق ،جنرل مرزا اسلم بیگ ، جنرل حمید گل ،
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، مولانا عبداللہ شاہ مظہر اور دیگر عظیم قائدین کے
چہرے صاف نظر آ رہے تھے ۔ سٹیج پر مولانا عبدالرﺅف فاروقی ، شیخ مسعود آنے
والے ہر معزز مقرر کو دل کی گہرائی سے اقتباسات سنانے بلاتے ہر ملکی محبت
سے سرشار ستارہ اتحاد و اتفاق اور ملکی دفاع کی بات کرتا ۔ بھارت اور
امریکہ کے تسلط سے نجات کے گر بتاتا ۔ جن میدانوں میں یہ جلسے ہوئے وہ
میدان خود انگشت بدنداں تھے کہ اس سے پہلے ایسے دفاعی حصار کے مینار کم
دیکھنے نصیب ہوئے ۔ بالخصوص جہادیوں کے بیدار ذہن اور گرم لہو کچھ کر
دکھانے کے موڈ میں تھے ۔ اگر ہم نے انہیں دفاع وطن کے لیے آواز نہ دی تو وہ
بپھر کر اپنے رستے خود بنائیں گے ۔تباہی پھیلائیں گے قومی ہیرو بننے کے
بجائے چوراور راہزن بنیں گے مگر اب وہ اپنے سامنے منزل پا کر بہت پر عزم
اور پر جوش ہیں۔گھنٹوں کھڑے نہ کسی چہرے پہ گھٹن نہ اداسی نہ تھکاوٹ کے
آثار مجھے ایسے لگا جیسے لاکھوں درخت قبلہ رخ جھکے نماز کو پابندی وقت پر
ادا کرتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے اتحاد کا مظاہرہ کر رہے تھے۔سبز پتوں کے
بجائے رنگ برنگے جھنڈے پھلوں سے محروم ، جذبوں سے لدے ہوئے لیکن جڑیں سلامت
Fundamentalistہونے کا ثبوت دے رہے تھے ۔ مجھے یقین ہے برف پگھلے کی ، موسم
کروٹ لے گا ، سبز پتے مہکتے پھول ، پھل ہر پیڑ کا مقدر ہوگے۔
بلاشبہ قوموں کی زندگی خون اور گوشت سے وابستہ ہے جس طرح کھیتی کے لیے پانی
اور سورج کی ضرورت ہے اسی طرح آزادی کے لیے جان مال کی قربانی ضروری ہے ۔
جب تک قوم کے بہترین افراد شہید نہ ہوں تو کبھی جوش ، ولولہ اور انتقام
پیدا نہیں ہوتا۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے |