گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والے
عمران خان کے جلسے مسلم لیگ ن کے قائدین سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے کرتا
دھرتاﺅں کی پہلے سے حرام نیندوں میں بدرجہا اضافہ کر دیا‘ بلکہ یوں کہا
جائے کہ”حرام نیندیں حرام کر دیں“ تو بہتر ہے‘ پاکستان کی سُکڑی ہوئی نیم
مردہ اور حکمرانوں کے ظلم وستم سے ستائی ہوئی عوام کو عمران خان اور تحریک
انصاف کی صورت میں امید کی ایک کرن دکھائی دینے لگی‘ موجودہ صورتھال میں
امید کی یہ کرن ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے سیاسی دھماکوں سے مشابہت
رکھتی ہے‘ بھٹو (مرحوم) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے میرا نظریاتی اختلاف
اپنی جگہ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی عوام میں جو مقبولیت تھی اس سے انکار
نہیں کیا جا سکتا‘ بھٹو (مرحوم) کے بعد عوام عمران خان کو ملک و قوم اور
قومی اداروں کا مسیحا سمجھنے لگی‘ عمران خان کی اس عوامی مقبولیت کا کیا
نتیجہ نکلتا ہے یہ آنے والے وقت میں واضح ہوتا جائے گا‘ عمران خان نے
تقریباََ 15 سال پہلے اپنی سیاسی پارٹی ”تحریک انصاف“ کی بنیاد رکھی لیکن
تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی کے طور پر 2008 ءسے ابھر کے سامنے آئی اور اب
تک اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بلند ہوتا جارہا ہے‘ جاوید ہاشمی‘ شاہ
محمود قریشی جیسے سینئر ترین رہنماﺅں کی تحریک انصاف میں شمولیت نے ملکی
سیاست کا نقشہ یکسر بدل کے رکھ دیا ہے‘ عمران خان کے کراچی کے جلسے کے بارے
میں لوگوں نے ”جتنے منہ‘اتنی باتیں“ کے مصداق اپنی قیمتی آراءپیش کیں‘
عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی مخالفین اور
جماعتوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی
منصوبہ بندی شروع کر دی جس کا منہ بولتا ثبوت قصور میں تحریک انصاف کا جلسہ
تھا‘ تحریک میں لوگوں کی جوق در جوق شمولیت کے ساتھ ساتھ پارٹی کو غیر منظم
کرنے اور پارٹی میں دراڑیں ڈالنے کیلئے ”کالی بھیڑیں“ بھی حرکت میں آ گئیں
اور یہ کالی بھیڑیں تحریک انصاف میں شامل ہو کر تحریک کی صفوں میں کھلبلی
مچانا شروع ہو گئیں‘ تحریک انصاف کے قصور کے جلسے میں کُرسیاں چوری کرنے کا
واقع انہی کالی بھیڑوں کی “محنت“ کا شاخسانہ ہے‘ جواپنے مقاصد میں کافی حد
تک کامیاب بھی رہیں اور کرسیوں کی چوری جیسے واقع کا مخالفین نے خوب فائدہ
اٹھاتے ہوئے بیانات ”داغنے“ شروع کر دیئے کہ ’جو انسان ایک جلسے کو نہیں
سنبھال سکتا وہ پوری قوم کا لیڈر کیسے بن سکتا ہے؟ قصور کے جلسے میں پیدا
ہونے والی صورتحال کی ذمہ داری تحریک انصاف کی مقامی قیادت اور مقامی
انظامیہ پر عائد ہوتی ہے‘ تحریک انصاف کیلئے ان کالی بھیڑوں سے چھٹکارا
حاصل کرنا نا ممکن سا لگتا ہے لیکن اگر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا
جائے تو ان سے بچاﺅ کسی حد تک ممکن ہے‘ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے ساتھ
ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی میدان میں موجودگی تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے
گی اور تحریک کو مکمل سیاسی اور عوامی پارٹی بننے کیلئے وقت درکار ہوگا۔
قوم قائد اعظم کے بعد برسوں سے ایسے لیڈر کی ضرورت محسوس کر رہی ہے جو ملکی
سلامتی کو دوام بخشنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی
اور بحرانوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کر سکے چاہے وہ لیڈر میاں
نواز شریف یا پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوتا‘ پی پی
پی اور مسلم لیگ ن اپنے دور اقتدار میں مکمل عوامی حمایت کے باوجود وہ موقع
اپنے ہاتھ سے گنوا چکے ہیں جس سے وہ عوام کے دلوں میں گھر کرنے کیساتھ ساتھ
اپنا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری الفاظ سے درج کروا سکتے تھے‘ لیکن خدائے
بزرگ و برتر نے اب یہ موقع عمران خان اور تحریک انصاف کو دیا ہے‘ عمران خان
کو موقع شناسی کرتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اگر وہ اقتدار
میں آجاتے ہیں تو انہیں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہوں گے وگرنہ عمران
خان اور تحریک انصاف کا شمار بھی دوسری سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں میں
ہونے لگے گا‘ بھٹو (مرحوم) کو عوامی تائید و نصرت اس لئے حاصل تھی کیونکہ
اس وقت کوئی دوسری قابل ذکر سیاسی پارٹی اور عوامی لیڈر موجود نہ تھا اور
میاں نواز شریف پر قسمت کی دیوی اس لئے مہربان ہوئی تھی کہ ان کے سر پر
”امیر المومنین“ کا سایہ شفقت تھا‘ لیکن عمران خان کی عوامی مقبولیت خالصتاََ
عوامی ہے اور عمران خان کی اس مقبولیت کا سبب تن تنہا 15 سالوں تک جدوجہد
ہے‘سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد
شامل ہے‘ نوجوان کسی بھی ملک کا سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی نقشہ تبدیل کرنے میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو استعمال
کرنے کیلئے صحیح قیادت سامنے آئے اور عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ بھی
حاصل ہے‘ ایسی صورتحال میں یہ دعا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف عوامی
توقعات پر پورا اترتے ہوئے وطن عزیز کو ترقی کے سفر پر گامزن کریں‘ ورنہ
مخدوم جاوید ہاشمی اس بابت یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ”میں باغی ہوں“ ان کے
ساتھ ساتھ پوری قوم بھی باغی ہو جائے گی‘ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو‘
آمین۔ |