عزمِ انقلاب تحریر:ساجد
کاشر
ہمیشہ تاریخ کے اندر مختلف ادوار میں حکمران طبقے نے محکوموں، مظلو موں، بے
کسوں پر اپنا تسلُط بر قرار رکھتے ہوئے ٬ اخلا قی اور معاشرتی جنگ مسلط کر
کے اپنے مفادات کو طوالت دی اور اسی تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے موجودہ
سامراجی قوتوں ،امریکہ اور نیٹو نے اپنی طاقت کا مظاہرہ لبییا کے نہتے عوام
پر بموں اور میزائلوں کو برسا کر دیا اگر ہم مشرقی وسطی کے انسانی حقوق کے
گروپ جس نے جنگی متاثرین سے انٹر ویو کر کے رپورٹ ثبوت کے ساتھ تر تیب دی
کہ کس طرح امریکہ اور نیٹو افواج نے گزشتہ سال لیبیا پر ایک غیر انسانی جنگ
مسلط کر کے جنرل قذافی کی حکمرانی کا خاتمہ چنداو باش اجارہ داریوں کی
ایماءپر کیا اور حملے میں سب سے زیادہ حدف عوامی اداروں جن میں
سکولز،ہسپتال اور فوڈز وئیرہاﺅس شامل ہیں رپورٹ کا ایک حصہ ا ن خوانخوا ر
درندوں کی عکاسی کچھ اس طرح کرتا ہے کس طرح اپنے بنائے ہوئے انسانی حقوق کی
دھجیاں بکھیرتے ہوئے لیبیا میں سیاسی کارکنوں اور قذافی کے خیر خواہوں کو
حکمت عملی کے ساتھ جسمانی اذیت اورتضحیک کی بنیاد پر علاقہ بدر کیا یا
مروایادیا اور تورگا ہ کے بہت سارے بلیک باشندوں کو نیشنل عبوری کونسل یا
عبوری حکومت نے ملک بدر کیا یہ ایک وحشی عمل ہے کہ بغیر کسی جرم کے قیدیوں
کو حبسِ بے جا میں رکھا گیامعمولی شک یا ذاتی دشمنی کی بنیاد پر قید کر لیا
گیا اور اگر کوئی سابق فوجی ہے تو اس کو ذبح کیا گیا۔ اس سارے عمل نے عالمی
انسانی حقوق اور ڈیمو کریٹک قوتوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ وہ امریکہ ،
برطانیہ اور اتحادیوں کے وحشیانہ پن کو جاری رکھتے ہوئے اپناسامراجی کا
لونینز م کو دوہرانے کی کوشش کی شواہد موجود ہیں کہ جب بن غازی یا دوسرے
شہروں میں جب قذافی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہو ا تو جزبِ اختلاف
نے نہ صرف یورپی قوتوں سے ٹریننگ لی بلکہ نیٹو اور اس کے عرب اتحادیوں نے
اسلحہ فراہم کیا گزشتہ سال فروری میں قذافی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک
اگرچہ اپنے پہلے فیز میں مصر کے صدر حسنی مبارک کو گرانے والی تحریک کا
تسلسل تھی۔ لیکن جلد ہی وہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں کے
ہاتھوں میں چلی گئی۔ اور پھر سامراج نے سول وار کی بنیاد رکھنے میں اہم
کردار ادا کیا سامراج لبیاکی کوئی آبادکار ی کے لیے ہی نہیں گیا تھا اور
اگر گیا ہوتا تو لوگوں کی سوشل سکیورٹی کو نشانہ نہ بناتا۔ اس سارے کھلواڑ
میں پورے عمل کی منظرکشی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ عالمی سامراج اپنے ماضی
کے چھوڑے ہوئے مفادات کو پانے کے لیے ہر طرح کے وحشی ہتھکنڈے استعمال کیے
ہے۔ اس جنگی مشن میںسامراج نے اپنا ترتالیس سال سے چھینی ہوئی مراعات کو
پانے کی کوشش ہے۔جب لیبیا کے بادشاہ ادریس نے ایک گماشتے کا کردار ادا کرتے
ہوئے ملک کے تمام تیل کے وسائل کو امریکہ اور برطانیہ کے لیے کھولتے ہوئے
اِن طاقتوں کو سرزمین پر دیوہکل عسکری بیس بنانے کی دعوت دے کر مسرت محسوس
کی تھی لیبیا کا بلاتکار یہ عندیہ دیتا ہے کہ سامراج کوجب مشرقیِ وسطی اور
افریقہ کے اندر محنت کشوں کی سماجی اور معاشی بے چینی تحریکوں کی شکل میں
نظر آئی باالخصوص تیونس اور مصر کے ملکوں میںتوبوکھلاہٹ کا شکار ہو کر
لیبیا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس سے نہ صرف ملک کے تیل کے وسائل کو لوٹا
جا سکتا ہے بلکہ پورے خطے میں محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلا جائے اور اس
نظام کے اندر رہتے ہوئے چین اور روس کے خطے میں معاشی تعلقات کوقذافی حکومت
کاخاتمہ کر کے ختم کیے جائیں۔آج حکمرانوں کے اپنے ذرائع ابلاغ کہتے ہیں کہ
لبیا کو بری طرح برباد کیا گیا اور پچاس سے ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں کی
جانیں ضائع ہوئیں اور پچاس سے ساٹھ ہزار لوگ زخمی ہوئے اور یہ سلسلہ سول
وار کی شکل میں ابھی تک جاری ہے۔اور آبادی کار کے لیے جو نیشنل عبوری کونسل
بنائی گئی ہے وہ ان بنیاد پرستوں پر مشتمل ہے جو ہمیشہ سامراج کے ہاتھوں
استعمال ہوئے۔یہ اتنا ہی انسان کی بربادی ثقافتی نا ہمواری کے مجرم ہیں
جتناکہ ان کاسامراجی آقا۔ گزشتہ ہفتے میں نیشنل عبوری کونسل کے نائب صدر
عبدالحفیظ گوگا کواستعفیٰ دینا پڑا عوام نے کونسل کے ہیڈکوارٹر پر حملہ آور
ہو کر گوگاکے استعفے کا مطالبہ کیا۔کیونکہ گوگانے اپنے سامراجی آقاﺅں کی
اطاعت کرتے ہوئے عوام کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا ہوا تھا۔ جس کی پاداش میں
اُسے اقتدار سے الگ ہونا پڑا،کیونکہ طبقاتی کشمکش اکشریت جو طبقاتی معاشرے
میں عوام ہوتے ہیں جب اپنے مفادات کی خاطر برسرپیکار ہوتے ہیں تو ترُمخان ،بادشاہ،اور
ڈکٹیٹرز اُن کے قدموں کی خاک بن جاتے ہیں اور یہی گوگا کے ساتھ ہوا ۔اب جب
ایک طرف امریکہ اور نیٹو کی افواج سامراجی درندرگی کے راج کو برقرار رکھنے
کے لیے لیبیا میںشدت سے مداخلت کرنا شروع کر چکے ہیں تو دوسری طرف بائیں
بازو کی دانشور اشرافیہ نے کنفیوز تناطر کو اپناتے ہوئے صرف وومن رائٹس کا
واویلا کرتے ہوئے کٹ پتلیوں کے طور پر استعماری قوتوں کی بیک ہنڈز حمایت کر
کے لیبیا پر جنگی جنوں نازل کروانے میں اہم کردار ادا کیا ان سوشل
ڈیموکریٹوں ،گرینز اور بائیں بازو کی انٹرنیشنل سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے
اپنے آپ کو سامراجی کیمپ کا حصہ بنا کر دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے یہ
ثابت کیا کہ آج کا بحران بنیادی طور پربائیںبازوکی قیادت کا بحران ہے جو کہ
سب سے پہلے تناطر کے تخلیقی پن کا زوال اور حکمت عملی کا فقدان ہے جس کی
وجہ سے آج محنت کش طبقے کی تحریکیں ناکامی اور تنزلی کا شکار ہیں لیکن
تاریخی طور پر یہ نظام متروک ہو چکا ہے جو کہ عوام کے اُوپر آ ئے روز
ذلت،بھوک ،بیماری اور جنگیں مسلط کر رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ
دارانہ نظام کے خلاف ٹھوس حکمت عملی اپناتے ہوئے عالمی محنت کشوں کو ایک
انقلابی لڑائی کے لیے منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے لیے ناقابلِ مصالحت
جدوجہد کی جائے کیونکہ آج کے عہد میں نسلِ انسانیت کے تمام تر مسائل کا حل
سوشلسٹ انقلاب میں ہی پنہاں ہے۔ |