شاہ عبد اللہ کی قیادت اور عرب دنیا

عرب دنیا میں پھیلی ہوئی بے چینی اور بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اب ایک جہاں کی نظریں سعودی عرب پر جمی ہوئی ہیں ان حالات میں سعودی عرب دنیا کی غیر معمولی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔عراق، تیونس ،مصر ،لیبیا،یمن،بحرین اور شام کے بعد نام نہاد مبصرین اور بے لگام تجزیہ کار اپنے خیالات سے مملکة مقدسہ سعودی عرب کے امن کو میلا کرنے کی ناپاک سعی میں ہیں ان حالات میں سعودی عرب کو آگے بڑھ کرقائدانہ کرادر ادا کرنا ہے جسکے لئے سعودی عرب تیار نظر آتا ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی پاک سرزمین کے حامل خطہ کے رحمدل حاکم وقت شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود (جو حرمین شریفین کا خادم ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں ) میںنہ صرف عرب دنیا کی سیادت کا حوصلہ و ہمت ہے بلکہ عالم اسلام کیلئے بھی وہ دردمند رہتے ہیں اور پھر جہاں بھر میں مقتدر ترین مقام کے خادم کو ایسا ہی ہونا چاہیے جو اپنی ذات ،علاقہ ،ملک اور عوام کے علاوہ کائنات میں موجود سسکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوجبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج افغان مسئلہ ہو یا پاکستان کے اندرونی و بیرونی مسائل ،مصیبتوں کی شکار عوام ہویا تعلیم یافتہ ،ہنر مند بے روزگار طبقہ کی پریشانی کبھی ہوائی برج بنا کر خدمت انسانیت کی قابل تقلید مثال قائم کرکے اہل اسلام و پاکستان کے دلوں کا تارا بن جاتے ہیں کبھی ہنرمند بیروزگاروں کو اپنے ملک میں باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرکے ہزاروں خاندانوں اور لاکھوں افراد کے کفیل بن جاتے ہیں بحثیت پاکستانی ہر ناقد بھی سعودی حکمرانوں اور حکومت کی انسانیت کیلئے کی گئی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے بہر حال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مملکة خدادادکے غیر ت مند باسیوں کو انہوں نے اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے اور اس تعلق کو اہل نظر مفادات سے بالا تر قرار دیتے ہیں۔

سعودی عرب کی اہمیت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ تیل کی پیدا کرنے والا ملک ہے تحقیق کے مطابق تین حصے پوری دنیا سے اور چوتھائی حصہ صرف اکیلا سعودی عرب پیدا کررہا ہے اسی طرح عرب دنیا کا ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے اور اپنے اردگرد عرب ملکوں اور ریاستوں کے واقع ہونے کی وجہ سے ایک سربراہ کی حیثیت میں دکھائی دیتا ہے ہمیں ترتیب سے سعودی عرب کے اطراف میں واقع کئی ممالک نظر آتے جنکے ساتھ زمینی اور بحری راستے اور روابط کے زریعے سعودی عرب کے تعلقات استوار ہیں ۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ اطراف میں آباد ریاستوں اور ممالک میں ماحول گرما گرمی کا منظر پیش کررہا ہے سعودی عرب میں موجود مقامات مقدسہ کی طرف دنیا بھر سے اہل اسلام کشاں کشاں ہمہ وقت عموماً اور رمضان و حج کے مبارک ترین ایام میں بڑی تعداد میں عازم سفر ہوتے ہیں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر سے آنے والوں کی تعدادمیں سال بہ سال بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ابھی تقریبا ستر سے اسی لاکھ ہے جبکہ دوہزار تیس تک یہ بڑھ کے دوگنا ہوجائے گی یعنی ایک کروڑ تیس سے چالیس لاکھ تقریبا ً گو کہ ایک طرف سعودی عرب کی مقامی آباد ی ہے پھر اسی طرح و ہاں پاک وہند ، بنگلہ دیش، مراکو،فلپائن، برما اور دیگر ایشیائی ممالک کے آبادکا ر خصوصاً روزگار کے سلسلہ میں جنکی تعداد بھی ایک اندازے کے مطابق سعودی آبادی میں 27فیصد ہے ان تمام لوگوں سمیت حجاج اور زائرین کی حفاظت کا اہتمام ہے اور عمومی حالات کے مقابلے میں اب اسکی اہمیت بڑھ گئی ہے اس مسئلہ کی طرف سعودی حکمران اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب صرف مسلمانوں کیلئے مرکز وحدت کا مقام ہی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی مظبوط معیشت کا حامل ملک ہے جہاں ملی تقاضے ہیں وہیں حالات کی زمہ داری بھی اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا مادیت کے انتہاﺅں میں جاکر بدانتظامی اور بے چینی کا شکار ہو گئی ہو کسی بھی جارح ملک کی رال مملکة مقدسہ کے حصول کیلئے ٹپک سکتی ہے اور یہ کوئی بعید از قیاس نہیں قصور کس نے دیکھا زیادہ بے قصور ہی نشانہ بنتا ہے -

ان حالات میں سعودی عرب کو اپنی دفاعی پالیسوں اور حکمرانوں کو وہاں آباد مقامی اور غیرملکیوں کے حقوق کا خصوصاً خیال رکھنا چا ہیے ۔میرے مشاہدے میں ایک بات آئی جسکا بیان میں ضروری سمجھتا ہوں کہ امسال سفر حج کے دوران وہاں مقیم غیر ملکیوں سے ملاقاتیں ہوئی جنمیں سے اکثر نے ایک بات کی شکایت کی کہ سعودی عرب کے قوانین صرف سعودیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہیں اور یہاں غیر ملکیوں کا اداروں ، ٹھیکداروں ، کمپنیوں حتی کے عدالتوں تک میں استحصال ہوتا ہے اگر چہ میرا ذاتی خیال اس سے مختلف تھا کہ جو سعودی حکومت پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظلوموں اور مصیبت زدہ لوگوں کی بہتری کیلئے اہتمام کرتا ہے وہاں کیا یہ ممکن ہے؟ لیکن جب اکثر کی زبانی اس شکوہ کو سنا تو محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور گڑ بڑ ہے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن سعودی حکمران اپنے ملک میں آباد غیرملکیوں کو جان و مال کا تحفظ دیکر کڑے وقت کیلئے اپنے ملک کے اس 27فیصد سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھا سکتا ہے ان غیر ملکیوں کو وہاں اپنوں کا سا احساس چاہیے فی الواقع یہ امر ضروری ہے کہ ضرورتمند ہی انتہائی مجبوری کے عالم میں اپنے وطن سے ہجرت کرکے روزگار کے سلسلہ میں وہاں آباد ہیں لیکن انکی احساس کمتری کو ختم کرکے سعودی حکمران انکے دلوں کے فاتح بن سکتے ہیں جو فریقین کیلئے حالات کے پیش نظر خوش آئند بات ہوگی۔

حالات و واقعات سے اس بات کا انداز ہوتا ہے کہ سعودی عرب اپنے کسی بھی حریف کو ٹف ٹائم دینے کیلئے عالمی سطح کی پالیسیاں اور اقدامات کررہا ہے اوراس بات میںبھی کوئی شک نہیں کہ پیش آمدہ خطرات سے مقابلے کیلئے سعودی عرب نہ صرف بھر پور تیار نظر آتا ہے -

بلکہ بین الاقوامی سطح پر حریفوں کے خلاف پالیساں تشکیل دینے ، وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دفاعی مہارتوں میں اضافہ اور جد ید ٹیکنا لوجی سے استفادے کے ساتھ ساتھ کسی بھی بڑے سے بڑے اقدام سے گریز نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتاہے خلیج کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاراس صورتحال کو غیر معمولی قرار دے رہے ہیں اور ساتھ سعودی تیاریوں کو جہاں اپنے ملک اور عوام کے تحفظ کما حقہ منصبی فرائض کے شایا ن شان قرار دے رہے ہیں وہیں کسی بھی حریف کے دانت کھٹے کرنے کی بھر پور صلاحیت کے ساتھ اپنے دفاع کیلئے کسی بھی بیرونی طاقت کے انحصار والی بات کی نفی کررہے ہیں ایک اور بات بھی واضح ہے کہ زمینی حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ شورشوں کو دفع کرنے اور کسی بھی سازش کو زیادہ سے زیادہ چند دنوں میں ختم کرنے سعودی نہ صرف ید طولیٰ رکھتے ہیں بلکہ سعودی عرب کو لیبیا ، بحرین، یمن ،تیونس سمجھنے والے احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں ۔میں ایسے لوگوں کی نظر گزشتہ چند ایام میں وقوع پذیر اقدامات ،برپا ہونی والی کانفرنسز، ذمہ داران کے خیالات کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتا ہوں۔

گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں ”خلیج تعاون کونسل “ کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جسمیں شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود نے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے حالات کی سنگینی احسا س کرتے ہوئے اور خطرات کو بھانپتے ہو ئے ایک محتاط اندازمیں کہا کہ سعودی عرب اور اس کے پڑوسی ملکوں کے تحفظ اور سلامتی کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ جس سے نمٹنے کیلئے خلیجی ملکوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ شاہ عبد اللہ نے ایک ملک کا نام لیے بغیر خبرادار کیا کہ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ خطے کے تحفظ اور سلامتی کووہ نشانہ بنارہا ہے ۔ اس لیے سب کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ انہوں نے خلیجی ملکوں پر زور دیا کہ انہیں ایک وجود کے خیال پر غور اور مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ انہوں نے تجویز دی کہ خلیج تعاون کونسل کو مشرق وسطی کو درپیش نئی صورتحال کو قبول کرنا چاہیے ان کا مذید کہنا تھا کہ تاریخ اور تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے حقائق کا سامنا کرنا اور موجودہ صورتحال کو اسی طرح برقرار نہیں رکھنا چاہیے ۔ شاہ عبد اللہ نے واضح کیا کہ جو خطے کے مفاد میں نہیں ہوگا اسے قبول نہیں کریں گے ۔

شاہ عبد اللہ کی گلف یونین کی تجویز خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ہے خلیجی مبصرین کے کہنا ہے کہ یہ صرف بات کی حد تک نہیں بلکہ ”گلف یونین“ کا ہوم ورک بھی ایک حد تک پہلے سے مکمل ہے جو ان ممالک کے تحفظ اور ایکا کیلئے عملی قدم ہے شاہ عبد اللہ نے آج سے قبل کے تعلقات کو با الفاظ دیگر صرف ایک تعلق قراردیا اور اب انہوں نے تعلق اور تعاون سے بڑھ کر کام کرنے پر زور دیا اُنکی یہ بات بھی غور سے تعلق رکھتی ہے جسمیں کہا گیا کہ ہماری سیکورٹی اور استحکام کا شدید خطرات لاحق ہیں اب اپنی زمہ داریوں پر زندگی بسر کرنا ہوگی ہمارے ملک اور پڑوسیوں کی سیکورٹی کا ہدف بنا یا جارہا ہے اور تمام زمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آچکی ہیں ۔بالا سطور سے جہاں شاہ عبد اللہ کی مملکة مقدسہ کے تحفظ کے حوالے سے ذمہ داریاں نبھانے کے عزم کا علم ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے کہ ملک اور عوام کا تحفظ ہر قیمت پر اولین حیثیت میں رہے گا۔

اسی طرح گزرے کچھ ایام میں عالمی زرائع ابلاغ کی زینت بننے والی سعودی عرب کی چند خبریں کچھ احوال سے اہم ہیں سعودی وزیر داخلہ نے ایک موقع پر متفرق شعبوں کی شخصیات سے اپنے خطاب میں کہا کہ مملکة کے شمال ، جنوب اور مغرب میں خطرات منڈلا رہے ہیں۔دہشتگرد سعودی عرب کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں جبکہ خارجی قوتیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں اسی طرح انہیں غالبا ً پہلی بار اتنی واضح انداز میں کہنا پڑاکہ سعودی عرب سنی ریاست ہے اسکا آئین قرآن و سنت ہے ،اور ہم اس آئین کے محافظ ہیں جبکہ ریاستی زمہ داریاں مسلمہ اصولوں پر ہی چلائی جائیں گی انہوں نے کہا کہ مملکة کے شمال جنوب ، اور مغرب کی طرف سے خطرات پھیلے ہوئے ہیں ۔

سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں گلف اینڈ ورلڈ فورم سے اپنے خطاب میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ علاقائی حریف اسرائیل اور....کے مقابل سعودی عرب بھی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں غور کرسکتا ہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور.... کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے باز رکھنے کیلئے قائل کرنے کی ہماری کوششیں ناکام ہوگئی ہیں ۔قوم اور لوگوں کے حوالے سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ان ہتھیاروں کو رکھنے سمیت تمام ممکنہ آپشنز پر غور کیا جائے ۔کیونکہ ہم میں سے کسی پر بھی بیتنے والی ایٹمی تباہی سے ہم تمام متا ثر ہوں گے اسی طرح سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے فورم سے اپنے پیغام میں کہا کہ خطے میں تیل ،گیس اور دیگر قدرتی وسائل پر بیرونی نظروں نے اس حساسیت کو اور بھی بڑھادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مفادات کیلئے بیرونی مداخلت نے نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ پوری دنیا کے عوام کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ انہوں نے اسرائیل پر کڑی تنقید کیااور کہا کہ اسرائیل نے ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے معاہدوںپر دستخط بھی کررکھے ہیں لیکن اس کے باوجود صیہونی ریاست نہ صرف جوہری اسلحہ جمع کررہی ہے بلکہ اس کے پھیلاﺅ کی بھی مرتکب ہورہی ہے ۔

سعودی عرب کے مزاج سے اشنا لوگ جانتے ہیں کہ یہ کم گو لوگ ہیں اور گفتگو کے مقابلے میں کام کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی طرح سعودی حکومت کی پالیسیاں بھی ایک تسلسل کا نام ہے ۔پاکستان سمیت ممالک اسلامیہ میں سعودی عرب حقیقی اثر روسوخ رکھتا ہے اور ہر کڑے وقت سمیت اہم فیصلہ میں ثالث کے کردار میں نظر آتا ہے حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کی امریکی صدر اوباما سے ملاقات پھربرطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی ریاض میں شاہ عبد اللہ سے ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جبکہ گزشتہ دنوں کی یہ خبر کہ سعودی عرب نے امریکا سے تقریبا ً 30 ارب ڈالر مالیت کے لڑاکا طیارے خرید لئے ہیں جن میں 84 ایڈوانس ایف 15 بھی شامل ہیں ۔انتیس اعشاریہ 4ارب ڈالر مالیت کی اس ڈیل کا اعلان امریکا کے محکمہ خارجہ نے کیا ہے ۔جن میں 70پرانے ایف 15طیاروں کو جدید بنانے کا معاہدہ بھی شامل ہے ،محکمہ خارجہ کے سیاسی و فوجی امور کے بیورو کے سربراہ اینڈ ریوشپیرنے بتایا کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کے لئے خطے کی سیکورٹی کے لحاظ سے کلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔

بالا سطور سعودی عرب کے حکمرانوں کا اپنے ملک کے تحفظ کے حوالے سے موقف کی جہاں وضاحت کرتی ہے وہاں اس بات کا بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کے سعودی عرب خطرات سے نمٹنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے اور دنیا کی مقتدر شخصیات سے ملاقاتیں معمول کا حصہ نہیں بلکہ ممکنہ حالات کو فیس کرنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پرہیں۔سعودی حکمرانوں کی اپنے ملک سے وفاداری کا اظہار عملی طور پر اُنکے کردار سے عیاں ہے جبکہ عرب ممالک کو ایک لڑی میں پرونے کا خیال شاہ عبد اللہ کے قائدانہ کراد ر کا عکاس ہے۔کسی بھی بیرونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ اور مقابلے کی تیاری دوست ممالک سے ملکر جنگی مشقیں ،جدید اسلحہ و الات جنگ کی خریداری ، آمدہ حالات کیلئے ”خلیج یونین “کا قیام نہ صرف سعودی عرب کے حریفوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا بلکہ سعودی عرب کے ناقابل یقین اقدامات سعودی شہریوں کیلئے خوش آئند ہیںاور زمہ داران مملکة کی مناصب سے انصاف اور ذمہ داریوں سے مکمل عہدہ برآں ہونے کا عمل ایک محفو ظ اور پائیدار مستقبل کی خبردیتا ہے ۔ایک طرف سعودی عرب کی تاریخ میں اقتصادی سطح اورترقی کی رفتار بلندی پرہے تو دوسری طرف بیرون دنیا سے آئے ہوئے ضیوف الرحمن کی ضیافت کا مثالی پہلو،حد سے زیادہ سہولیات، بہترین امن وامان اور صالح معاشرہ یقیناعوام و خواص کیلئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ان اقدامات کا سہرا بلا شبہ شاہ عبد اللہ کے سر سجتا ہے جنہوں نے سعودی عرب کو قابل تقلید ریاست بنا دیا ہے جبکہ اپنی جغرافیائی سرحدات کے دفاع کیلئے ہمہ وقت مستعد حکام اور چاق و چوبند جدید ھتیارو ں سے مسلح فورسزکسی بھی جارح کو اقدام جارحیت سے قبل باربار سوچنے پر مجبور ضرور کرے گا۔سعودی عرب نے گلف کے ممالک کے تحفظ کیلئے جس منزل پیشرفت کی ہے یہ بھی ایک دانا سربراہ کی رہین منت ہے یوں تو ان حالات میں ہرکسی کو اپنی ہی فکر دامن گیر ہوتی ہے لیکن شاہ عبدا للہ کا اپنوں کے لئے یہ پیغام کہ” تاریخ اور تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے حقائق کا سامنا کرنا اور موجودہ صورتحال کو اسی طرح برقرار نہیں رکھنا چاہیے“زمینی حقائق کا ادراک اور مسائل کا سامنا کرنے کی تیاری اور انکے حل میں عملی اقدامات اُٹھانے کیلئے ہے شاہ عبد اللہ نے عرب ممالک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے جس جانب قدم بڑھایا اُس سے گرتے ہوﺅں کو سہارا ملا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کا موقع نصیب ہوا گو کہ اب عرب دنیا کے تنہائی کے شکار حکمران شاہ عبد اللہ کی قیادت میں اپنے ممالک اور عوام کی حفاظت کیلئے متحد ہونے والے ہیں اور یہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے سامنے ایک مظبوط بندھ باندھ دیا گیا ہے جسے اب بڑا سے بڑا سونامی بھی متا ثر نہیں کرسکتا چونکہ اب بیچ منجدھار کے پھنسی ہوئی اس کشتی کا ناخدا ،سیادت و قیادت ،ہمت و حوصلہ ،جرات و بہادری ،عزم کی پختگی اور اپنوں کا غم خوار جیسی صفات سے متصف شاہ عبد اللہ (خادم حرمین )ہے لگتا یہ ہے کہ عرب ممالک شاہ عبداللہ کی قیادت میں اپنے ممالک کو تحفظ دینے کے ساتھ اقتصادی ترقی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہوں گے ایک ایسے نازک موقع پر شاہ عبد اللہ کی قیادت اور راہنمائی عرب دنیا کی کامیابی کی ضمانت کے طور پر دیکھی جارہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ عرب دنیا پاسبان حرم کی آواز پر متحد ہو کر کامیاب ہونا چاہیں گے یا منتشر ہو کر تاریخ میں ایک ناکام و نامراد ہونا پسند کریں گے -
Hafiz Ullah Usmani
About the Author: Hafiz Ullah Usmani Read More Articles by Hafiz Ullah Usmani: 57 Articles with 40592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.