ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ایک شام

جنوری کی ایک خنک شام ،جو رفتہ رفتہ رات میں تبدیل ہوتی رہی، کچھ شاعروں اور چند ادیبوں کے درمیان گزری جن کے میزبان سید معراج جامی تھے۔ گھر سے چلتے وقت ایک دوست آگئے جو حسن اتفاق سے اس روز بھی آ دھمکے تھے جس روز جامی صاحب ہی کے گھر کا قصد تھا، اس مرتبہ یہ سچ مچ بگڑ گئے:
’یار آپ پچھلی مرتبہ بھی جلدی میں تھے، کوئی ادبی نشست تھی، آج بھی وہیں جارہے ہیں‘
’اس مرتبہ کوی سمیلن ہے، مطلب مشاعرہ ہے ‘ میں نے گڑبڑا کر کہا
’ میں بھی چلوں‘ ؟ انہوں نے اشتیاق سے پوچھا
’ اہل زبان ہونا شرط ہے‘ میں نے کہا ’ ویسے یار! تمہاری زبان کیا ہے ؟
جواب میں دوست نے اپنی پان سے رنگی زبان باہر نکال دی، یہ اشارہ تھا کہ میں جاسکتا ہوں ۔

منزل پر پہنچا تو مہمانوں کی آمد آمد تھی، غلبہ شعرا کرام کا تھا۔
خدا نہ کرے کہ’ معاملہ اپنے خرچ پر آئے اور اپنی ذمہ داری پر کلام سنا کر چلے گئے‘ والا ہو، میں سوچ رہا تھا۔فدوی کو مشاعروں میں شرکت کا تجربہ جو نہیں ہے، دوران نشست ایک موقع پر تو ہوا بھی وہی جس کا ڈر تھا، ایسا کڑا وقت آیا کہ جناب امیر السلام ہاشمی نے ،جو میرے بہت قریب بیٹھے تھے، کڑک کر کہا ” بھئی ! آپ چپ کیوں ہیں، داد دیجیے نا“، اوسان خطا ہوچلے تھے کہ ایک کونے سے کسی خاتون کی ڈھارس بندھاتی آواز آئی ” وہ لکھ رہے ہیں“۔

image

نشست گاہ کتابوں سے بھری الماریوں کی موجودگی کی وجہ سے قدرے چھوٹی لیکن دلوں میں بہت گنجائش تھی۔ ابتدا میں معاملہ خاتون و حضرات کا تھا جو بعد ازاں خواتین و حضرات پر جا ٹھہرا۔ جامعہ کراچی سے ڈاکٹر مہہ جبین زیدی تھیں، ان کے ساتھ خدیجہ زبیر احمد براجماں تھیں جو نصیر الدین ہاشمی کی صاحبزادی ہیں۔ یہ نصیر الدین ہاشمی وہی ہیں جنہوں نے دکن میں اردو ، دکنی کلچر اور یورپ میں دکنی مخطوطات جیسی مشہور کتابیں تحریر کی ہیں۔ان کے ساتھ دلشاد انجم تشریف رکھتی تھیں جنہیں اخبار جہاں کا پہلا کالم خالہ بی کی ڈائری کے عنوان سے لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔شجاع الدین غوری صاحب نثر نگار ہیں، ان کے ہمراہ شاعر، نثر نگار و ادبی تجزئیہ نگار جناب عشرت رومانی تشریف فرما تھے ۔عشرت ر ومانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔2005 میں شائع ہوئی ان کی ضخیم کتاب مقصدی شاعر ی۔ ایک جائزہ‘ ادب میں اہم مقام رکھتی ہے ۔عشرت رومانی کے برابر میں بیٹھے امیر السلام ہاشمی صاحب مزاحیہ شاعری میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، شاعری کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں جبکہ ایک کلیات بھی مرتب کی جارہی ہے۔ان کے برابر میں آتش زیر پا اور خان کی ڈائری کے مصنف اصغر خان چپُ چاپ ایک گوشے میں بیٹھے تھے، یہ ایک گوشہ نشین شخص تھے جنہیں احمد ہمیش نے دریافت کیا اور دنیائے ادب میں متعارف کرایا۔اصغر خان کے ہمراہ عزیز احسن تشریف رکھتے تھے، آپ نعتیہ شاعری کرتے ہیں اور فن نعت گوئی میں تنقید کے موضوع پر نعت رنگ نامی مجلے میں کئی اہم مضامین تحریر کرچکے ہیں۔شاہینہ فلک صدیقی کہ ذرا تاخیر سے آئیں، ایک شاعرہ ہیں جن کا پہلا شعری مجموعہ تتلی کی پہلی بارش حال ہی میں بزم تخلیق ادب نے شائع کیا ہے۔

نشست کا آغاز عزیز احسن کی نعت سے ہوا، چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تڑپ تو رکھتا ہوں زاد سفر نہیں رکھتا
کرم حضور کہ میں بال و پر نہیں رکھتا
میں عرض حال کے قابل کہاں مرے آقا
سوائے عجز بیاں، اور کوئی ہنر نہیں رکھتا
ستم زدہ ہوں، نگاہ کرم کا طالب ہوں
میں بے اماں ہوں، کہیں کوئی گھر نہیں رکھتا

اس کے بعد صاحب صدر جناب معراج جامی نے اپنی تازہ تخلیق پیش کی:
داد میں کچھ کمی نہ ہوجائے
رائیگاں زندگی نہ ہوجائے
حادثہ واقعی نہ ہوجائے
دشمنی دوستی نہ ہوجائے

ذکر محفل میں اس کا ٹھیک نہیں
گفتگو شاعری نہ ہوجائے
آپ برہم ہیں بے سبب مجھ پر
آپ سے برہمی نہ ہوجائے
زندگی جیسی ہے گوارا ہے
اس سے بڑھ کر ُبری نہ ہوجائے
یاد میری نکالیے دل سے
یہ مرض دائمی نہ ہوجائے
میرے اتنے قریب مت بیٹھو
کوئی آفت کھڑی نہ ہوجائے
آگہی اک عذاب ہے جامی
خلق کو آگہی نہ ہوجائے
 

image

جامی صاحب کے بعد شاہینہ فلک صدیقی نے اپنی غزل پیش کی:
تیرا ثبات سلامت دل جنوں پیشہ
نہ کر مجھے تو ملامت دل جنوں پیشہ
سفر میں ہوں میں ترے ساتھ ایک مدت سے
ہے اور کتنی مسافت دل جنوں پیشہ
فضا میں پھیلتا جاتا ہے نفرتوں کا غبار
جہاد مہر و محبت دل جنوں پیشہ
کسی کے سامنے کیوں چپ سادھ لی تو نے
کہاں گئی تری وحشت دل جنوں پیشہ
بہا رنے تو تجھے اپنا کام سونپ دیا
اب آگے تیری طریقت دل جنوں پیشہ

داد و تحسین کے ڈونگرے برستے رہے!
’شمع محفل‘ اصغر خان صاحب کے پاس پہنچی، خان صاحب سے تقریب کے درمیانی وقفے میں گفتگو رہی تھی، ان کا ایک شعر دیکھیے:

تم ہو ابھی حیات، یہ سن کر خوشی ہوئی
ماتم کو میرے ایک اعزادار بچ گیا
خان صاحب گویا ہوئے:
تقدیر سے رشتہ کبھی تحریر سے رشتہ
تخریب سے رشتہ ہو کہ تعمیر سے رشتہ
میں تجھ کو بھلا پاؤں گا یہ بھول تھی میری
قائم ہے برابر تیری تقدیر سے رشتہ
افکار کا قیدی کبھی احساس کا مجرم
کافی ہے پرانا میرا زنجیر سے رشتہ
حاضرین کی فرمائش پر اصغر خان نے ایک اور غزل سنائی:
تہمتوں کا سلسلہ اچھا نہیں
یہ سلوک ناروا اچھا نہیں
سر جھکانے میں بڑا آرام ہے
سرکشی کا راستہ اچھا نہیں
گاہے گاہے رنجشوں کو راہ دو
پیار اتنا بے بہا اچھا نہیں
اجنبی آخر کو پھر ہے اجنبی
اجنبی سے واسطہ اچھا نہیں
تم نہیں واقف ابھی انجام سے
دل لگی کا راستہ اچھا نہیں
کیا کہیں گے لوگ بستی کے
تم رہو ہم سے جدا اچھا نہیں
مان لو اب تو تم کسی کو خدا
یہ تغافل بخدا اچھا نہیں

اصغر خان صاحب کے بعد عشرت رومانی اور خدیجہ زبیر احمد نے اپنی نظمیں سنائیں۔
 

image

شاعر ی کے دور کے آخری شاعر جناب امیر السلام ہاشمی تھے۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:

آئیں ہنس بول کے غم اپنے کم تو کریں
مسکراہٹ غم دوراں کو فراہم تو کریں
خیر مقدم کریں ہر غم کا خوشی سے بڑھ کر
زیست کرنے کے لیے کاوش پیہم توکریں
٪
گر یہ معیار ظرافت ہے تو کچھ دن میں امیر
مسخرہ مسند فن پر کوئی بیٹھا ہوگا
اور ہم سا کسی چوپال میں برگد کے تلے
اپنی تخلیق پہ سر پیٹ کے روتا ہوگا
٪
حال کیا میں سناؤںبیوی کا
درد جوڑوں میں اس کے رہتا ہے
درد میرا ہے اس کہانی میں
وہ جو بے درد تھی جوانی میں
٪
مولوی مفتی فقیہہ شہر قاضی اور پیر
لوگ پھنس کے رہ گئے ہیں کتنی دستاروں کے بیچ
٪
حاضرین زار و قطار ہنستے رہے!
وہ خم گرد ن ،وہ دست ناز وہ ان کا سلام
کیا ادائے دلبری ہے تین تلواروں کے بیچ
حسن میں کیا رہ گیا ہے آج میک اپ کے بغیر
کچھ بھیانک سرخیاں جیسے ہوں اخباروں کے بیچ
٪

شاعری کے دور کے بعد نثر کا دور شروع ہوا چاہتا ہی تھاکہ راقم نے صاحب صدر سے اجازت طلب کی، جامی صاحب باہر تک چھوڑنے آئے اور گلہ کرتے رہے کہ تم خاصہ تناول کیے بغیر ہی جا رہے ہو، معلوم ہوا کہ شرکا ءکی ضیافت کے واسطے ’پائے‘ پکوائے گئے ہیں، موسم سرد تھا اور پیشکش تھی کہ دل لبھارہی تھی ، اس محرومی پر دل سے ایک آہ نکل کر آسمان تک اثر لانے کو گئی،کچھ سنبھالا لیا، متزلزل ہوتے ارادے کو مستحکم کیا اور جامی صاحب سے اجازت طلب کی۔ نثری نشست کااحوال جامی صاحب کی زبانی سنیے:

” معاف کرنا راشد، تہمارے بغیر پائے کھا کر جانے کی وجہ سے بعد از مشاعرہ میرے سر میں شدید درد ہوگیا ، اس وجہ سے مشاعرے کے بعد کی کاروائی تم کو ارسال نہیں کرسکا ۔ اب سنو کہ صدر محفل امیر السلام ہاشمی کے جانے کے بعد نثر نگاروں میں سب سے پہلے شجاع الدین غوری صاحب نے اپنا مزاحیہ مضمون کلیات اقبال پڑھا۔اس کے بعد دلشاد انجم نے یوم اقبال پر اپنا طنزیہ کالم پڑھ کر سنایا۔پھر انور احمد علوی نے اقبال ساغر صدیقی پر اپنا خاکہ پڑھا اور آخر میں خدیجہ زبیر احمد نے اپنا افسانہ چھوٹی سی بے وفائی حاضرین کی خدمت میں پیش کیا۔ تقریبا نو بجے اس محفل کا اختتام ہوا۔ پائے کے ساتھ حیدرآبادی مرچوں کا سالن بھی تھا اور مٹر پلاؤ بھی۔ میٹھے میں لوکی کا حلوہ تھا۔کھانے کی باتیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ تمہیں بغیر کھائے جانے کا افسوس بھی ہو اور تمہارے منہ میں پانی بھی بھر آئے۔اور ہاں! سب لوگوں کے جانے کے بعد صرف میرے سر میں ہی درد نہیں ہوا بلکہ آسمان بھی بہت رویا کہ ایسی اچھی تقریب اتنی جلدی ختم ہوگئی۔“
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.