ترکی کے ایک عبقری محقق ڈاکٹر
فواد سزگین کے بارے میں معلومات دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی ، لیکن مضمون
دیکھنے سے ایسا محسوس ہوا کہ مقالہ نگار کی معلومات براہ راست نہیں ہیں ۔
1979ء میں ہمیں ڈاکٹر موصوف سے دبی میں ملاقات کاشرف حاصل ہوا تھا ، جہاں
آپ کا ایک لکچر بھی سننے کا موقعہ ملا، کوئی چھ سات سال قبل ایک عشرہ تک
ہمیں عالم اسلام کی ایک عظیم لائبریری اور قلمی کتابوں کے نایاب ذخیرے مرکز
جمعۃ الماجد للثقافۃ و التراث کے شعبہ مخطوطات میں کیٹلوگر کی حیثیت سے کام
کرنے کا موقعہ ملا جہاں فواد سزگین کی کتاب اور بروکلمان کی کتاب کے اصل
جرمنی زبان کے نسخے ہمارے زیر استعمال رہے ۔یہاں پر موجود عالمی کتب خانوں
کی فہرستیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کتب خانہ رضا رامپور اور خدابخش پٹنہ کی
فہرستوں میں بروکلمان کی کتاب مرکزی مرجع کی حیثیت سے استعمال ہوئی ہے لیکن
فواد سزکین کی کتاب کے استعمال کا سراغ کہیں نہیں ملا ۔ جو اس بات کا بین
ثبوت ہے کہ برصغیر کے کتب خانے اور محققین ابھی تک ان کتابوں کی قدر و قیمت
سے ناواقف ہیں ۔ جو ایک بڑا علمی و تحقیقی المیہ ہے ۔
ڈاکٹر فواد سزگین سے بات چیت پر معلوم ہوا کہ ان کی اپنے اہل و عیال سے
روزانہ صرف دس منٹ کے لئے کھانے پر ملاقات ہوتی ہے ۔ وہ روزانہ اٹھارہ
گھنٹے علمی کاموں میں مصروف رہتے ہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کا یہی عمل
ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اظہار خیال کے لئے جرمنی زبان کو
کیوں اختیار کیا تو ان کا جواب تھا کہ انہوں نے ایک ایسی زبان کو اختیار
کیا ہے جس کے اہل علم کتابوں کو پڑھ کر سنجیدہ اظہار خیال کرتے ہیں ، عربوں
نے ایوارڈ تو دے دیا ، لیکن ان کے علمی کاموں سے وہ اب بھی ناواقف ہیں ، ان
کی کتاب کی دو ایک جلدیں ہی ترجمہ کرکے شائع کرنے کی انہیں اب تک (1979)
توفیق نہیں ہوئی ۔
بروکلمان پر جس طرح تبصرہ کیا گیا ہے وہ مستشرقین کے سنہرے دور کے آخری
شہسوار کے ساتھ بڑا ظلم ہے ، برکلمان کی کتاب کے اسلوب سے دراصل اردو اور
عربی دان عموما ناواقف ہیں ، ہمارے علم کی حد تک اپنی بعض کمزوریوں کے
باوجود ابھی تک ایسی جامع کتاب منظر عام پر نہیں آئی ، حالات بتاتے ہیں کہ
ایسا پتہ ماری کا کام اب کوئی اردو یا عربی کا محقق نہیں کرسکتا ، بروکلمان
نے دراصل برلین کی شاہی لائبریری میں بیٹھ کر اپنی کتاب مرتب کی ہے، یہ
کتاب عہد جاہلیت سے لیکر گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی تک کی جملہ عربی زبان کی
کتابوں اور مصنف کے بارے میں دستیاب معلومات فراہم کرتی ہے ، اس کتاب میں
مصنفین کے مختصر حالات ، انکے بارے میں ریفرنس کتابیں اور مجلات ، کتاب
چھپی ہے تو کتنی بار اور کہاں کہاں چھپی ہے، اس کے قلمی مخطوطات دنیا کے کن
کن کتب خانوں میں موجود ہیں۔ کتابوں کی شرحوں ، خلاصوں کے بارے میں اسی طرح
کی جملہ دستیاب معلومات حوالہ جات کے ساتھ درج ہیں۔
کمال تو صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے ، فواد سزگین نے جب محسوس کیا کہ اس
کتاب میں ترکی کے کتب خانوں کے بارے میں معلومات ناقص ہیں تو انہوں نے
بروکلمان کی کتاب کا نقص دور کرکے اس کا استدراک کرنے کی کوشش کی، لیکن
بروکلمان کی کتاب کا کینواس اتنا وسیع تھا کہ سزکین کی ہمت ٹوٹ گئی ، اس
خوف سے کہ زندگی ساتھ نہ دے انہوں نے ۴۳۰سنہ ہجری کی حد مقرر کرکے بروکلمان
کی کتاب کی تکمیل کا ارادہ کیا ، لہذا سزگین کی کتاب پانچویں صدی تک کے
عرصہ کے لحاظ سے بروکلمان سے زیادہ جامع مرجع بن گئی ، لیکن فواد سزگین کا
کام بھی اتنا بڑا تھا کہ ان کی لغزشوں کے استدراک کے لئے حکمت بشیر یسین کی
اتنی ہی بڑی کتاب منظر عام پر آئی ، لیکن 430 سے ابتک کی کتابیاتی معلومات
کے لئے بروکلمان کے علاوہ کوئی اور ایسی کتاب دستیاب نہیں ہے ، زرکلی کی
الاعلام اور کحالہ کی معجم المولفین کا خصوصا آخر الذکر کا دارومدار
بروکلمان ہی پر ہے ۔
فواد سزگین کی اصل کتاب تاریخ التراث العربی جرمنی زبان میں مکمل ہوئے ایک
دہائی کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ آج کے دور میں جب کہ انٹرنٹ اور کپیوٹر نے
تلاش کی سہولت فراہم کی ہے ، بروکلمان اور سزکین کی کتابوں کے جرمن ایڈیشن
کی فہرستوں نے اب بھی علمی دنیا بے نیاز نہیں ہے ، ایسی جامع کتابوں کی
فہرستیں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں ۔
بروکلمان اور سزکین کی کتابوں کے اردو تو کجا عربی ترجمے بھی کتابوں کی
اشاعت پر چالیس سال گذرنے کے باوجود ابتک مکمل منظر عام پر نہیں آئے ہیں ،
جو ایڈیشن بازار میں کبھی کبھار نظر آتے ہیں وہ عموما نصف یا دو تہائی
ترجمہ شدہ ہیں۔ ڈاکٹر نذیر حسین کی اردو میں ترجمہ کردہ سزگین کی کتاب کے
دو ایک اجزاء غالبا چھپے ہیں۔ |