مغرب میں شادی کا رجحان تیزی سے
کمزور پڑتا جارہا ہے۔ عمرانیات کے ماہرین اس کی مختلف وجوہ بیان کرکے ہمیں
بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے
کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لیے لوگ گھر بسانے سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی یہ
دور کی کوڑی لائی جاتی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے خواہش مند
افراد بیوی بچوں کا جنجال نہیں پال سکتے۔ ایک برطانوی اخبار نے یہ کہتے
ہوئے شادی سے متعلق عمرانیات کے ماہرین کی تمام آراءکے کپڑے اُتار دیئے ہیں
کہ بیشتر برطانوی مَرد بیویوں کی مار سے بچنے کے لیے ہفتہ وار چھٹی کے دن
زیادہ وقت غسل خانے میں گزارتے ہیں! یعنی ایک خوف پر پردہ ڈالنے کے لیے
قیاس اور تجزیے کے کتنے گھوڑے دوڑائے جاتے رہے ہیں!
برطانیہ نے ایک زمانے تک دُنیا پر حکومت کی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جس قوم کے
لوگ بیویوں سے اِس قدر ڈرتے ہوں وہ دنیا پر کس طرح راج کرتے رہے! مگر صاحب!
یہ دنیا بہت عجیب ہے۔ اس میں طرح طرح کے تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی کب تک
گنتا رہے؟ جو لوگ دوسروں پر تسلط جماتے ہیں وہ گھر میں بیوی کے آگے بھیگی
بلی بنے رہتے ہیں۔ دلیپ کمار نے بالی وُڈ پر راج کیا ہے مگر خود اُن پر
سائرہ بانو کا راج رہا ہے! یوسف خان صاحب یعنی دلیپ کمار نے جب حیدر آباد
دکن کی اسماءسے شادی کی تو سائرہ بانو نے ایسی آنکھیں دکھائیں کہ خان صاحب
کا سارا ”خان پن“ ہوا ہوگیا اور اُن کے سامنے اسماءکو طلاق دینے کے سوا
کوئی راستہ نہ بچا!
برطانیہ کے لوگ رُجعت پسند ہیں، یہ ہم جانتے ہیں۔ مگر وہ اِس قدر رُجعت
نکلیں گے، یہ ہم نے نہیں سوچا تھا۔ ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے۔ ہم بھی
شادہ شدہ اور ”شریف“ ہیں! مگر صاحب! شرافت کو ثابت کرنے کے اور بھی بہت سے
طریقے ہیں۔ ایک معروف طریقہ تو یہی ہے کہ انسان شادی نہ کرے! شرافت ثابت
کرنے کے لیے اپنائے جانے والے عمومی طریقوں سے ہم متفق نہیں۔ بیلن سے بچنے
کے لیے غسل خانے میں جا چُھپنا یا مسہری کے نیچے دُبک جانا مَردانہ شان کے
خلاف ہے۔ بیلن سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ بیلن
سے دوستی کرلیں یعنی کھانا پکانے میں بیوی کا ہاتھ بٹائیں! اِس نوعیت کے
طریقے کئی مشرقی معاشروں میں خاصے کارآمد انداز سے مروج ہیں! بعض مَردوں کو
جب اِس حوالے سے طعنہ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی دانست میں خاصی چالاکی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا کرنے کی ”وجہِ تسمیہ“ یہ بیان فرماتے ہیں کہ دشمن کو
شکست دینے کے لیے اُس سے اشتراکِ عمل کے ذریعے اُس کے طور طریقے سیکھنا بہت
ضروری ہوتا ہے! شادی شدہ زندگی اِنسان کو اِسی نوعیت کی ذہانت سِکھاسکتی
ہے!
سوال یہ ہے کہ بیوی کے بیلن سے کوئی کب تک اور کہاں کہاں بچ سکتا ہے؟ شکل
خواہ کچھ ہو، بیلن تو آپ تک آکر رہے گا! پلنگ کے نیچے جانے یا مچان پر
چڑھنے سے رک پَٹّھے کھنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔ غسل خانہ دفتر میں بھی ہوتا ہے
اور دفتر میں بھی خواتین ہوتی ہیں۔ برطانوی مَردو! عورت کی دَست بُرد سے کب
تک بچو گے؟ ذرا سی ہمت کی بات ہے۔ تھوڑی سی ”بہادری“ تو دکھاؤ۔ دل میں بھلے
ہی خوف کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو، دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی
اداکاری تو کرو! مجرم صرف وہ ہوتا ہے جو پکڑا جائے۔ وہی بندہ خوفزدہ کہلاتا
ہے جس کی آنکھوں سے خوف جھلک جائے۔ کامیاب شادی شدہ مَرد وہ ہے جو مرتے دم
تک اپنے خوف کو ظاہر نہ ہونے دے! جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا!
برطانیہ کی پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ لڑاؤ اور حکومت کرو۔ شادی شدہ
برطانوی مردوں نے بیویوں کے شر سے بچنے کا طریقہ وضع کرکے بھی شر پیدا کرنے
کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ طریقہ ہمارے ملک میں اپنانے کی کوشش کی گئی تو سوچ
لیجیے کہ کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ہر گھر
عموماً ایک غسل خانے کا حامل ہوتا ہے اور بعض مکانات میں غسل خانہ اور بیت
الخلاءمشترکہ ہوتا ہے۔ اب اگر ہر شادی شدہ فرد بیوی سے بچنے کے لیے غسل
خانے میں پناہ لینے لگے تو گھر کے دیگر افراد ”فطرت کی پکار“ پر کیا
جھاڑیوں کا رُخ کریں گے؟ اِس سے بڑا سوال یہ ہے کہ بلند و بالا عمارات کے
جنگل میں جھاڑیاں کہاں سے لائیں؟ پیچش میں مبتلا افراد تو بے چارے تاریک
راہوں میں مارے جائیں گے!
غریب کے گھر کا غسل خانہ کسی زمانے میں خاصا فن پرور کردار ادا کیا کرتا
تھا۔ جو لوگ کہیں گا نہیں پاتے تھے وہ غُسل خانے میں شوق فرمالیا کرتے تھے!
غُسل خانے کی دیواروں کو مستقل مزاجی اور پامردی سے مستفید کرنے والے
باضابطہ گلوکار بن کر ہی چپ ہوتے تھے یعنی اپنے سانس کا مظاہرہ ختم کرکے
دوسروں کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا کرتے تھے!
نارمل غُسل خانے عوامی انداز کے گلوکار پیدا کیا کرتے تھے اور جن غُسل
خانوں میں کنڈی نہیں ہوتی تھی ان میں جانے والوں کچھ زیادہ ہی اور خاصا
پَکّا گانا پڑتا تھا تاکہ لوگ خوفزہ ہوکر غُسل خانے سے دور رہیں! بغیر کنڈی
کے غُسل خانوں سے فن کی دنیا کو خاصے مُستند کلاسیکی گلوکار ملے ہیں!
زمانے کی پستی دیکھیے کہ اب غُسل خانوں کا مصرف اور معیار یہ رہ گیا ہے کہ
بیویوں سے بچنے کے لیے اِن میں پناہ لی جائے! کسی زمانے میں فن کی دنیا کو
پروان چڑھانے والے غُسل خانے اب ڈرپوک شوہروں کا تورا بورا ہوکر رہ گئے
ہیں! گھریلو جنگ کی یہ اولین ڈینفس لائن برطانوی مَردوں ہی کو مبارک ہو۔
ہاں، اگر وہ کوشش کریں تو کچھ گاکر فن کی خدمت کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں
اب لوگ گانے کے معاملے میں غُسل خانوں کے محتاج نہیں رہے! جو گانے کی دنیا
میں قدم رکھتا ہے وہ براہِ راست اسٹیج سے شروع ہوتا ہے اور ایک ہی ہَلّے
میں اُستاد بن کر دم لیتا ہے! اور جب انسان کو ایک بار ”اُستاد“ کے درجے تک
پہنچا دیا جائے تو پھر کون سوچتا یا پوچھتا ہے کہ اُسے کچھ آتا جاتا ہے یا
نہیں! |