دُعا کر، مَلنگ بابا مر جائے

وفاداری نبھانے میں جو مستقل مزاجی کُتّے میں پائی جاتی ہے، وفاداری بدلنے کے معاملے میں ویسی ہی مستقل مزاجی اور پُھرتی انسان کا خاصہ ہے! کہتے ہیں عِشق کا بُھوت سر پر سوار ہو تو انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ ہم نہیں مانتے۔ دو وقت کا فاقہ ہو تو تیسرے وقت کی آمد سے قبل عِشقیہ بھوت صاحب سَر سے اُتر کر قدموں میں آ بیٹھتے ہیں۔ شیخ سعدی نے منظوم حکایت میں بیان کیا ہے کہ ایک بار دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ عِشق وشق سب بھول گئے! کسی کو یاد نہ رہا کہ ندی کنارے ، چھوٹا سا گھر بناکر زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں بھی کبھی کھائی تھیں۔ فکر تھی تو بس یہ کہ کیا اور کیسے کھاکر پیٹ کی آگ بجھائی جائے!

ہم نے اب تک کی زندگی میں یہی دیکھا ہے کہ جب حالات کے دو چار تھپیڑے پڑتے ہیں تو آوارہ خرامی کے پانیوں میں بھٹکتی مدہوشی بھی ہوش کے ساحل پر آ جاتی ہے! زندگی کے میلے میں ہر تماشے کا کوئی نہ کوئی ٹکٹ ضرور ہوتا ہے۔ عمل کی دنیا میں کچھ بھی مُفت نہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر کام کی کوئی نہ کوئی قیمت اور کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوتا ہے۔

مرزا تنقید کو ہم نے بالعموم غُنودگی کے عالم میں دیکھا ہے۔ ان کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان آنکھیں رکھتا ہے اِس لیے دیکھتا ہے۔ یعنی آنکھیں کھلی ہوں گی تو کچھ نہ کچھ دکھائی دے گا جو سوچنے (اور کڑھنے) پر مجبور بھی کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ اب وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں اور مراقبے کی حالت کو زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں مرزا جیسے لوگوں پر رشک آتا ہے کہ تمام غموں سے چھوٹ گئے ہیں اور اپنی کھال میں مست رہتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ اِتنا آسان سا نُسخہ بھی سمجھ نہیں پائے اور اب تک شدید کرب کے ساتھ پچاس کے پیٹے اور مستقل عذاب کے لپیٹے میں ہیں! عمر کی نصف صدی ہونے کو آئی ہے مگر جو ضروری ہے وہ عقل آدھی کی آدھی بھی وارد نہیں ہوئی!

اللہ ہماری جمہوری حکومت کو سلامت رکھے جس نے ہر انسان کو اُس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ ہوش و خرد سے بیگانگی کو زندگی کا حصہ بنانے پر کمر بستہ ہے! بہتوں کو تو ہم نے حالات کے ہاتھوں خود بخود روحانیت کی طرف مائل ہوتے دیکھا ہے۔ آگہی عذاب لگتی ہے۔ ہوش میں رہنا زندگی کے لیے وبال ہوگیا ہے۔ ایسے میں انسان کیوں اور کیونکر ہوش میں رہے؟

تمام تفکرات سے نجات پاکر خاصے سُکون سے زندگی بسر کرنے کا ایک کارگر نُسخہ نریش کمار شاد نے یوں سُجھایا تھا
اے ہم نشیں! اذِیّتِ فرزانگی نہ پُوچھ
جس میں ذرا بھی عقل تھی، دیوانہ ہوگیا!

یعنی ہوش و حواس لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ زندگی کتنے آرام سے گزرتی ہے۔

حکومتِ وقت کی مہربانی ہے کہ حالات کی چَکّی میں ہمیں ایسا پیسا ہے کہ ہوش و حواس ٹھکانے لگ چکے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے اعصابی و نَفسی امراض کی شدت میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ لوگ جیتے جی موت کا مزا چکھنے لگے ہیں۔ یعنی ٹو اِن ون! اچھا ہے کہ یہ بات حکمرانوں کومعلوم نہیں۔ وہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جیسے تیسے صرف جی رہے ہیں۔ اگر کِسی نے انہیں بتا دیا کہ ہم جیتے جی موت کا مزا بھی چکھ رہے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے پر ٹیکس نہ لگادیا جائے!

زندگی کی ڈور کچھ اِس اہتمام سے اُلجھی ہے (یا اُلجھائی گئی ہے) کہ اب کسی بات کا کوئی سِرا نہیں ملتا۔ ایسے میں غنیمت اور موزوں یہی دکھائی دیتا ہے کہ اِنسان ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جائے!

کہتے ہیں مجنوں یا ملنگ وہ ہوتے ہیں جنہیں کِسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ یہ کیسے ملنگ ہیں جنہیں کھانے اور ”پینے“ کا پورا ہوش رہتا ہے؟ ثابت ہوا کہ ہوش و حواس سے مکمل بیگانگی کی حالت کوئی نہیں ہوتی۔ انسان نشے میں ہوش گنوا بیٹھے تب بھی یہ اعلان کرنے کا ہوش تو باقی رہتا ہی ہے کہ
یارو! مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں!
حسرت ہی رہی کہ ہم کسی مَلنگ بابا کو کچھ دینا چاہیں اور وہ
میں کون ہوں، میں کہاں ہوں، مجھے یہ ہوش نہیں!
کی تصویر بنے گُم سُم بیٹھے رہیں!

گھریلو حالات کے سَتائے ہوئے کسی شخص نے سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے ملنگ بابا کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کیا۔ بابا نے خوب سیر ہوکر کھایا تو، ظاہر ہے، بہت خوش ہوئے اور بولے ”بتا بچہ! کیا ہے تیری اُلجھن؟“ وہ کہنے لگا ”مَلنگ بابا! میری بیوی میری بات سُنتی ہے نہ مانتی ہے۔ اُسے قابو میں کرنے کا کوئی نُسخہ بتائیے۔“ مَلنگ بابا نے اُسے گھور کر دیکھا اور بولے ”ارے بے وقوف! بیوی کو قابو میں کرنا آتا تو ہم کیا ملنگ ہوتے!“

گزشتہ دنوں میں بس میں سفر کے دوران ہم نے عجیب تماشا دیکھا۔ ایک بچی خاصی محنت سے یاد کئے ہوئے اسکرپٹ کی مدد سے بھیک مانگ رہی تھی! اسکرپٹ میں بیمار ماں، بیروزگار باپ، بھوکے بھائی بہن، کرائے کا گھر اور گلی کے دُکاندار کا اُدھار۔۔ سبھی کچھ تھا! چند مسافر متاثر ہوئے اور بچی کے ہاتھ پر پانچ روپے کا سکہ رکھتے گئے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا کاٹھ کباڑ اپنے جسم پر لاد کر گھومنے پھرنے والے ملنگ کسی کو کچھ نہیں دیتے۔ بس میں ایک ملنگ بابا بھی تشریف فرما تھے۔ بچی کی دل سوز کہانی سے متاثر ہوکر اُنہوں نے اپنے جُبّے کی تھیلا نما جیب سے پانچ کا سکہ نکالا اور بچی کے ہاتھ پر رکھ دیا! مسافر حیرت سے ملنگ بابا کو دیکھنے لگے۔ بھیک مانگنے والی بچی بھی ششدر رہ گئی۔ جو خود مانگے پھرتے ہوں وہ کسی کو کب کچھ دیتے ہیں؟ خیر، بچی نے سکہ لیا اور آگے بڑھی۔ ملنگ بابا نے اُسے آواز دیکر بلایا۔ وہ قریب آئی تو بابا نے کہا ”دُعا تو دیتی جا۔“ بچی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس بات کا کیا مطلب ہوسکتا ہے! ملنگ بابا کو دُعا کی کیا حاجت؟ ملنگ بابا نے اُسے حیرت کی دُنیا سے واپس لاتے ہوئے کہا ”دُعا کر، ملنگ بابا مر جائے!“

یہ جملہ سُن کر بس کے تمام مسافر حیران رہ گئے۔ پڑوس میں بیٹھے ہوئے شخص نے پوچھا ”بابا! ایسی کیا بات ہوگئی؟ مرنے کی تمنا کیوں ہے؟“ ملنگ بابا نے ”مسٹر نٹور لعل“ والے امیتابھ بچن کا سا انداز اپناتے ہوئے کہا ”ارے یہ جینا بھی کوئی جینا ہے یار! کھاؤ تو مزا نہیں، پیو تو مزا نہیں۔ کچھ اچھا نہیں لگتا۔ پتہ نہیں یہ کیسا دور ہے، کس کا دور ہے۔ پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔“

ملنگ بابا کو زمانہ شناسی کی انوکھی منزل میں دیکھ کر بس کے مسافر مزید حیران ہوئے۔ ایک بزرگ ہم سفر نے برملا تبصرہ فرمایا ”اللہ ہی خیر کرے، ابھی حکومت نے چار سال مکمل نہیں کئے اور حالت یہ ہے کہ عوام کے دماغوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہوچکے ہیں۔ چودہ کی گنتی چھوڑیے، مہنگائی اور حالات کی خرابی کے ہاتھوں اٹھائیس طبق روشن ہیں! یہ بھی حکومتِ وقت کا منفرد اعزاز ہے کہ جن کے ہوش جاچکے ہیں وہ بھی ہوش میں آچکے ہیں!“

جنہیں زمان و مکاں سے کچھ غرض نہیں وہ بھی اب اِس فکر میں مبتلا ہیں کہ کل کیا ہوگا! لوگ سوچتے ہیں فرزانگی کو تَج کر دیوانگی کو اپنالیں۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے!

جمہوریت کو بچانے کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کے ہاتھوں عوام کا حال تو یہ ہے کہ بے حال ہوچکے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اختیار ہے اُن سے بس اِتنا عرض کرنا ہے
اگر یہ بھی نہیں تو پھر جُنوں کی انتہا کیا ہے؟
کہ دیوانے بھی اب کہنے لگے ہیں مجھ کو دیوانہ!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524741 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More