گذشتہ روز راولپنڈی جانے کا
اتفاق ہوا ویسے تو اب اپنے ملک کے حالات الاماشااللہ اس نہج پر پہنچ چکے
ہیں کہ گھر سے باہر جاتے ہوئے اور خصوصاً بڑے شہروں کا رخ کرتے ہوئے اچھے
خاصے دل گردے کی ضرورت ہے اور عموماً گھروں سے نکلنے والے گھر والوں کو بھر
پور سا اللہ حافظ کہہ کر ہی نکلتے ہیں یا جیسے عموماً کہا جاتا ہے کہ بچوں
کے سروں پر ہاتھ پھیر کے نکلتے ہیں کہ پتہ نہیں شام کو واپسی ہو گی یا نہیں
یا اگر ہو گی تو پتہ نہیں کس حال میں ہو گی شاید ہی کو ئی شخص اب وطن عزیز
میں ایسا ہو حکمرانوں کے سوا جسے اپنی بخیریت واپسی کا ذرا بھی یقین
ہو،حکمرانوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان کی حفاظت کے نام پہ ہم اٹھارہ کروڑ
لو گ یرغمال بنے ہوئے ہیں ایک طرف دہشت گرد ہیں جو بلا شبہ پاکستان کے نام،
اسکے امن و سکون اور عزت و ناموس کے دشمن ہیں اور بلا شبہ پاکستان کے نام
پہ گالی ہیں تو دوسری طرف ہمیں ہر دم رگڑتے رگیدتے حکمران ہیں یہ کیا
ہیں،جو ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر ہمارا ہی ناطقہ بند کر دیتے ہیں،استحصال
تو وہ ہمارا کرتے ہی ہیں اور چونسٹھ سالوں سے کرتے ہی آ رہے ہیں اب انہوں
نے اپنے گزرنے کے لیے ہمارے راستے بند کرنا شروع کر دیے ہیں ساری دنیا میں
کہیں ایسا نہیں ہوتا جیسا ملک پاکستان میں ہو رہا ہے،وہاں حکمران عوام کے
خادم ہوتے ہیں جبکہ یہاں خادم بلکہ خادموں کے خادم اور مخدوم حکمران بنے
پھرتے ہیں اور ظاہر ہے جب ایسے حکمران بن جائیں گے تو حشر ایسا ہی ہوتا رہے
گا جو ہو رہا ہے ،کمال ہاضمہ ہے اس قوم کا کہ یہ ہر ظلم ہر زیادتی برداشت
کر سکتی ہے اور ظلم کرنے والا اپنا ہو یا پرایا ہم نے سہنا ہے اور اف تک
بھی نہیں کرنی،میں اگر تفصیلات لکھنا شروع کر دوں کہ کون سا ظلم کب اور
کتنا ہوا تو کالم کی بجائے کتاب لکھنا پڑے گی،غیر کرتے رہتے تو شاید ہم بھی
چپ رہتے مگر یہاں تو اپنے اور وہ جنہیں ہم خود عزتوں کے تاج پہنا کر سروں
پر بٹھاتے ہیں وہی ہماری عزت تو درکنار ہمیں انسان بھی نہیں سمجھتے،میںنے
کالم کے شروع میں لکھا تھا کہ گذشتہ روز راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا ،موٹر
وے سے اترنے کے بعد جونہی شہر کے اندر داخل ہو نے لگے تو پیچھے سے پشاور
سائیڈ سے سماعتوں کو بہرہ کر دینے والی سائرن کی آواز سنا ئی دی،میں عموماً
ایسی آواز سنتے ہی ایک سائیڈ پہ ہو جاتا ہوں اور کیسے نہ ہوں اور کس کی
مجال ہے کہ نہ ہوکہ جب شاہی سواریاں آرہی ہوں تو کیڑے مکوڑے خودبچیں تو
بچیں،ان کی نظریں نیچی ہوں گی تو وہ ہمیں دیکھیں گے، اس سے کچھ عرصہ قبل
بھی میں نے اپنے سامنے ایک نام نہاد وزیر قانون کو قانون پاﺅں تلے روندتے
ہوئے دیکھا،کہ جب ائر پورٹ سے قافلہ اسلام آباد کے لیے نکلا تو درجنوں
گاڑیوں کے درمیان ایک قسمت کا مارا مو ٹر سائیکل سوار نہ جانے کہاں سے
درمیان میں آگیا شاہی سواری اتنی تیزی میں تھی کہ اسے ایک سائیڈ پہ ہو نے
کا موقع بھی نہ ملا اور سڑک پہ قلابازیاں کھاتا ہوا دور تک گھسٹتا گیا،میں
نے کتنی پرائیویٹ گاڑیوں سے چیختی چلاتی خواتین کو اترتے دیکھا اس موٹر
سائیکل سوار کے منہ اور سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ خواتین جن کا وہ کچھ
بھی نہیں لگتا تھا اپنے دو پٹوں سے اس کا خون روک رہی تھیں اور جس کو اس نے
ووٹ دے کر اپنی قسمت س کے ہاتھ میں دے کر کرسی پر بٹھایا اس نے ایک سیکنڈ
رکنے کی زحمت بھی نہ کی،اور یہ واقعہ کوئی زیادہ دور کا نہیں اسی جمہوری
حکومت کے لازوال دور کے لازوال وزیر قا نون کا ہے یہی کوئی لگ بھگ چھ سات
ما ہ قبل، پچھلے دور کا کیا زکر کروں کہ وہ تو آمرانہ تھا اور اسکے وزیر لا
قانون وصی طفر کے پاس سب کچھ تھا سوائے دماغ اور عقل کے مگر اب تو دور
جمہوری ہے عوام کے ووٹوں سے بننے والی خالص عوامی حکومت اور گذشتہ روز پنڈی
میں جو کچھ ہوا یہ مدتوں سے اس قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کا تسلسل ہی تو
ہے پشاور سے آنیوالے وی آئی پی قافلے میں جو غالباً ائر فورس کا تھا کے آگے
پاکستان ائر فورس کی دو گاڑیاں ان کے پیچھے پاک آرمی کے کمانڈوز کی دو
گاڑیاں، ان کے پیچھے ایک پرائیویٹ ڈبل کیبن جس کے کھلے کیبن میں بیٹھے افرا
د نے عامیوں پر دھاک بٹھانے کے لیے باقاعدہ چہروں پر سیاہ ماسک چڑھا رکھے
تھے ان کے پیچھے کالے شیشوں والی کالی کار اس کے پیچھے بلیک شیشیوں والی
سفید ہائی ایس جس کے پیچھے ایک سرکاری ڈبل کیبن بمعہ گارڈ اس کے پیچھے ایک
پولیس وین اور اس کے پیچھے ایک ایمبولینس جو ٹریفک تو کجا دنیا کے ہر قانون
کو روندتے ہوئے آندھی اور طوفان کی طرح بڑھے چلے آرہے تھے کہ کوہ نور ملز
سے ذرا ٓ گے جہاں سے ایک رستہ فیض آباد کی طر ف مڑتا ہے وہاں پر اس قافلے
نے وہ لین پکڑ لی جو یوٹرن والی گاڑیوں کے لیے مختص ہے،اسی اثناءمیں ایک
مقدر کا مارا پاکستانی جس کے پاس پرانی سی گاڑی تھی نے اس قافلے سے قبل یو
ٹرن لے لیا جس کی وجہ سے ہوا کے گھوڑے پر سوار وں کو ایک سیکنڈ کے لیے رکنا
نہیں پڑا بس تھو ڑی سی اسپیڈ آہستہ کرنا پڑی اور یہی لمحہ شاہ سے زیادہ شاہ
کے وفاداروں بلکہ پٹھوﺅں پر ناگوار گذرااور انہوں نے قافلے کی پہلی گاڑی اس
مسکین کی گاڑی کے ساتھ لگا کے اسے وہ گالی دی جس نے وہاں موجود ہر شخص پر
سکتہ طاری کر دیا اور اگر عام حالات میں کوئی اس کو وہ گالی دیتا تو وہی
گاڑی اس کے اوپر چڑھانے سے بھی نہ چوکتا مگر یہاں لسے دا کی زور محمد ،نس
جانا یا رونا کی عملی تصویر نظر آئی گالی دینے والے اسیکنڈز میں اور سننے
والے تو منٹوں میں غائب ہو گئے مگر میرا دل جیسے کسی نے ابھی تک مٹھی میں
لے رکھا ہو میں شاید کچھ زیادہ ہی حساس واقعہ ہوا ہوں جن کی اب اس ملک میں
شاید کوئی جگہ نہیں کہ یہاں کیسے کیسے المناک واقعات ہماری آنکھون کے سامنے
وقوع پذیر ہو کے وقت کی دھول میں پنہاں ہو گئے مگر یہاں انتہاؤں کو چھوتی
بے حسی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، چند ماہ قبل سانحہ خروٹ آبا
میں جب گو لیوں کی بارش ہو رہی تھی تو گھر سے ایران عراق زیارات کے لیے
نکلنے والی ایک غریب الوطن مظلوم خاتون کا اٹھا رحم کی بھیک مانگتا ہاتھ
شاید مجھے مرتے دم تک نہیں بھولے گا اس کے بعد سیالکوٹ کے دو بھائیوں کا
واقعہ تو اب یاد کرنے کا بھی حوصلہ نہیں اور کراچی کا سرفراز شاہ، گھیرے
میں آئے سہمے خرگوش کی طرح رینجرز کے فرعونوں کے سامنے اس کے بندھے ہاتھ
کوئی فرعون ہی بھول سکتا ہے پھر راولپنڈی اسلام آباد ایکسپریس وے پر آدھا
گلہ کٹے مرغ کی طرح تڑپتا مظلوم شخص اور اب یہ پنڈی کا واقعہ، مجھے ابھی تک
لگ رہا ہے کہ گاڑی سے آدھے باہر لٹکتے ہمارے محافظ نے گالی اس ڈرائیور کو
نہیں دی مجھے دی ،وہاں پر مو جود ہ ہر شخص کو دی بلکہ نہیں اس نے یہ گالی
اٹھارہ کروڑ عوام کو دی پورے پاکستان کو دی،یقین کریں ہمارا ملک اور اس میں
رہنے بسنے والے سارے کے سارے بے حس ہیں احساس مر چکے ہیں حساس اعضاءدفن ہو
چکے ہیں ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں حساس شخص اور نرم دل کی اب یہاں کوئی
گنجائش نہیں،یہ ملک بناتو مسلمانوں کے لیے تھا ان کے لیے جن کے لیے اللہ کے
نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے
مسلمان محفوظ رہیں ،یہ کون ہیں جن کے نہ ہاتھ سے کوئی محفوظ ہے نہ زبان سے
نہ ، کوئی اپنا نہ کوئی پرایا، کون ہیںیہ جو ہمارے سروں پر سوار ہیں گردنین
بھی ہماری دبوچ رکھی ہیں انہون نے اور ہمی سے ان کو خطرہ بھی،ریڈ زون کیا
کم ہیں اس ملک میں کہ ہمارے رستے ،ہماری گزر گاہیں ہماری سڑکیں ہمارے لیے
بند کر دیتے ہیں جو ہمارے پیسوں سے لی گئی بندوقیں ہم پر تان لیتے ہیں
جنھیں عام حالات میں کوئی پوچھتا تک نہیں صدر اور وزیراعظم بن کر وی وی آئی
پیز بن کے اس قوم کے عام اورغریب افراد کو نجس ترین مخلوق سمجھنا شروع کر
دیتے ہیں کوئی ہے جو ایسا انقلاب لائے جو ہمیں ان گالیوں سے اور ان گالیاں
دینے والی مکروہ اور بدروحوں سے نجات دلائے بے شک اور کچھ نہ دے صرف ہماری
عزت نفس واپس کر دے جی ہاں صرف عزت نفس خدا کی قسم ہم تن من دھن لٹا دیں
اور بدلے میں کو ئی صلہ نہیں مانگیں گے سوائے اپنی لٹی ہوئی متاع کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |