کیا موت کے سوداگر کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے؟

ہندوستانی سیاست میں موت کے سوداگرکے طور پر شناخت قائم کرچکے نریندر مودی کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ دہشتگردی کی آڑ میں مودی کی حکومت نے کئی مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کے الزام لگتے رہے ہیں جس پر سپریم کورٹ نے گجرات میں 2003 اور 2006 کے درمیان ہونے والے ان20 سے زیادہ واقعات کی دوبارہ سے تفتیش کرانے کا حکم دیا ہے جن میں پولیس پر بے قصور لوگوں کو فرضی مقابلوں میں ہلاک کرنے کا الزام ہے۔سپریم کورٹ کے اس حکم سے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جن کے قریبی معاونین پر پہلے ہی سہراب الدین شیخ اور عشرت جہاں سمیت کئی دیگر افراد کو مختلف فرضی مقابلوں میں قتل کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔

نریندر مودی کے قریبی ساتھی اور ان کی حکومت میں سابق وزیر داخلہ امت شاہ اور ریاست کے کئی سرکردہ پولیس افسران کو ان مقدمات کے سلسلے میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ امت شاہ ضمانت پر رہا ہیں لیکن عدالت نے ان کے گجرات میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ان مبینہ فرضی مقابلوں کی تفتیش سپریم کورٹ کے سابق جج ایم بی شاہ کی سربراہی والی ماہرین کی کمیٹی کرے گی جو گزشتہ برس گجرات کی حکومت نے تشکیل دی تھی۔

یہ کمیٹی ان واقعات کی تفتیش کی نگرانی کر رہی ہے جن کی ذمہ داری خصوصی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی ہے۔جسٹس آفتاب عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بینچ نے کہا کہ جسٹس شاہ اپنی علیحدہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو گجرات کے باہر سے بھی پولیس افسران کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن عدالت نے کہا کہ جسٹس شاہ کی ٹیم ان واقعات کی تفتیش نہیں کرے گی جن کی چھان بین سپریم کورٹ یا گجرات ہائی کورٹ کی ہدایت پر پہلے ہی کی جارہی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس شاہ کی ٹیم تین مہینے کے اندر اپنی پہلی رپورٹ پیش کرے گی۔عدالت نے یہ حکم صحافی بی جی ورگیز اور شاعر جاوید اختر کی درخواست کی سماعت کے دوران سنایا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2002اور 2006 کے دوران گجرات کی پولیس نے فرضی مقابلوں میں بے قصور لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا۔اسی دوران سپریم کورٹ نے امت شاہ کی اس درخواست کی سماعت کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں انہوں نے گجرات واپس لوٹنے کی اجازت مانگی ہے۔مسٹر شاہ سپریم کورٹ کے حکم پر سولہ مہینے سے ریاست سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ امت شاہ کو جولائی دو ہزار دس میں گرفتار کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ 17 دسمبر 1950 کو شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع میںپیدا ہونے والے وزیراعلیٰ گجرات کا سیاسی سفر 1984 میں شروع ہوا‘ جب آر ایس ایس نے اپنے چند اراکین کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھے۔انہوں نے اڈوانی کی سومناتھ - ایودھیا یاترا اور مرلی منوہر جوشی کی کنّیاکماری - کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ 1995 میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی۔ 2001 میں اس وقت کے وزیراعلٰی کیشو بھائی پٹیل کے استعفی دینے کے بعد مودی کو وزیراعلی بنایا گیا۔ مودی کی حکومت کے دوران 2002 میں گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں کم سے کم ایک ہزار لوگ مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ فسادات کے بعد ملک اور دنیا بھر میں مودی ایک کٹر ہندو رہنماءکی حیثیت سے ابھرے۔ میڈیا کے کچھ طبقوں نے انہیں ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کے القاب سے یاد کیا۔

ان فسادات میں ہونے والی ہلاکتوں اور جعلی مقابلوں کی تحقیقات کیلئے پینل کی تشکیل کی ہدایات سامنے آنے پر کانگریس کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعدد مرتبہ انکوائریوں کے نوٹس ملنے پر گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ نریندر مودی اس وقت تک استعفیٰ نہیں دے گا جب تک اس سے طلب نہ کیا جائے۔ ترجمان مزید کہا کہ نریندر مودی کو اقتدار کے لالچ سے نکلتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126046 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More