64 برس بیت گئے، لا چاریوں اور
محرومیوں کا سیلِ رواں تھمنے کو نہیں۔ تاریکیوں کے تہہ دار پردے حقائق چھپا
چکے ہیں۔ زخموں پر نمک پاشی کا مکروہ عمل بلا توقف جاری ہے، عالمی عدل
گاہیں نظرِ التفات کرنے سے گریزاں ہیں۔ بین الاقوامی اتحاد کے پرچم برادر
ادارے "مخصوص قوتوں" کی چھاؤنی بن چکے ہیں۔ برصغیر (جنوبی ایشیا) کے
انتہائی شمال میں کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع جنت نظیر خطہ اجڑ رہا ہے۔
اس کے سبزہ زار صحراؤں کا روپ دھار رہے ہیں۔ پیہم آتش و خون کی ہولی کھیلی
جا رہی ہے۔ سامراجیت کے ڈسے ہوئے لوگوں کی ملتجی نگاہیں کسی مسیحا کی منتظر
ہیں۔
مسئلہ کشمیر 1948ءسے آج تک لٹک رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے اپنے
مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو تسلیم کیا لیکن "بے مہار استعماری قوتیں"
کشمیریوں کو یہ حق دینے سے گریزاں ہیں۔ چھ ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل
ریاست ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور اس کا مستقبل خدشات کا شکار ہے۔ 5 فروری کو
ہم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اس پر گفتگو سے قبل چند لمحے
پیچھے جاتے ہیں تاکہ ہمارے پون صدی سے قائم موقف پر سے کچھ گرد جھاڑی جا
سکے۔
ماضی کے اوراق پلٹنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ ریاست بٹوارے کے وقت سے ہی
پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع چلی آرہی ہے۔ 84 ہزار 4 سو 71 مربع میل
رقبے پر محیط ریاست کو 27 اکتوبر 1947ءکو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے
ساتھ ایک معاہدے کے تحت نتھی کر دیا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس "جوڑ توڑ"
کو تسلیم کرتے ہوئے اسے عارضی بتایا اور ہری سنگھ کو لکھا کہ "ریاست کا
مستقبل عوام کی مرضی سے طے کیا جائے"۔ پاکستان نے اس "الحاق نما معاہدے" کو
تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جانبین سے فوج کشی ہوئی گو کہ ابتداءبھارت نے
کی تھی، نتیجةً ریاست کا ایک تہائی حصہ (32 ہزار مربع میل) پاکستان نے حاصل
کر لیا۔ یہ حصہ "آزاد کشمیر" کے نام سے موسوم ہے۔ بھارتی سرکار یکم جنوری
1948ءمیں مسئلہ کشمیر کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئی۔ 20
جنوری 1948ءکو سلامتی کونسل نے ایک قرار داد کے ذریعے مسئلہ کشمیر کیلئے
اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوپاک (UNCIP) قائم کیا، جس نے 13 اگست
1948ءاور 5 جنوری 1949ءکو دو قراردادیں منظور کیں، ان قراردادوں کا لب لباب
یہ تھا (۱) جنگ بندی (۲) کشمیر سے تمام فوجوں کا انخلاء (۳) کشمیر کے
مستقبل کیلئے آزادانہ اور غیر جانب
دارانہ رائے شماری۔ اول الذکر پر عملدرآمد تو کرایا گیا، لیکن باقی دو نکات
کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
1950ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کمیشن (UNCIP) کو ختم کر دیا اور
اس کی جگہ آسٹریلیا کے سر اووین ڈکسن (Sir Owen Dixon) اور مسٹر گنروی
جارنگ (Mr, Gunerv Jarring) نمائندے مقرر ہوئے۔ ان نمائندوں نے کشمیر کے
کئی دورے کئے اور مسئلہ کشمیر پر فاضلانہ رپورٹیں تیار کیں، لیکن
بھارت کی ہٹ دھرمی ہر مقام پر آڑے آئی اور یہ کوشش بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔
1954ءمیں پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا تو سوویت یونین نے بھارت کو تھپکی
دینا شروع کر دیا۔ 1957ءمیں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں دوبارہ پیش کیا
جانا تھا لیکن سوویت یونین نے ویٹو کر دینے کی دھمکی دی، لہٰذا فیصلہ موخر
کر دیا گیا۔ پھر 1962ءمیں جب یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو "سوویت
یونین" نے اسے ویٹو کر دیا۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کا بنیادی سبب یہی مسئلہ
تھا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو کاغذی اقدامات "شملہ معاہدہ"( 1972ئ) اور
لاہور "ڈیکلریشن" (1999ئ) سامنے آئے ہیں، لیکن دونوں ہی ممالک سنجیدگی سے
ان معاہدوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات
تھیں، اول یہ کہ معاہدوں پر نیک نیتی سے عملدرآمد کی خواہش کا فقدان تھا
اور دوم مذکورہ معاہدوں پر عملدرآمد کیلئے کسی نگران قوت کی عدم موجودگی۔
بین الاقوامی طاقتوں نے سرپرستی کا
کردار ادا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، جس کی وجہ سے بھارت کی طرف سے
سیاچن پر 1984ءمیں قبضہ اور معرکہ کارگل جیسے واقعات پیش آئے۔
یہ تو تھیں ماضی کی باتیں، لیکن حال بھی نوحہ کناں ہے۔ کشمیریوں کا استحصال
جاری ہے، اور مقہور قوم کی جانب سے مزاحمت (جو ان کا فطری حق ہے) بھی جاری
ہے۔ ماضی قریب میں مقبوضہ کشمیر میں جاری جد و جہد مں شدت اس وقت آئی، جن
وادی کا ایک بڑا رقبہ "امرناتھ نرائن" کے حوالے کرنے کا حکومتی فیصلہ سامنے
آیا۔ یہ فیصلہ 2008ءمیں منظر عام پر آیا۔ چنانچہ چنگاریاں سلگنا شروع ہوئیں،
یہاں تک کہ جون 2010ءکو ایک الاؤ کی شکل اختیار کر گئیں۔ خطے کے عوام "کشمیر
چھوڑ دو" کے سلوگن کے تحت صدائے احتجاج بلند کرنے لگے۔ جون 2010ءسے 2011ءتک
111کشمیری نوجوان خاک و خون میں تڑپا دئے گئے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے معاملات
کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پارلیمنٹ کے اراکین، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور
صحافیوں پر مشتمل 11 رکنی وفد کو 6 ستمبر 2010ءکو کشمیر میں 3 روزہ دورے
کیلئے بھیجا۔ اس وفد نے صورتحال کا جائزہ لیا، کشمیری زعماءسے ملاقاتیں کیں
اور بھارتی سرکار سے مطالبہ کیا کہ اگر حالات کو معمول پر لانا ہے تو 111
نوجوانوں کی ہلاکت کی شفاف تحقیقات کروا کر مجرموں کو سزا دی جائے۔ اس طرح
بھارتی حکومت بپھرے ہوئے لوگوں کا اعتماد جیت سکے گی۔ لیکن بھارت نے اس
معاملے کو روایتی طور پر کچھ زیادہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھا اور معاملہ
بدستور کٹھائی میں پڑا رہا۔
بھارت کی جارحیت جو 64 برس سے جاری ہے، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اقوام متحدہ
کے فیصلے اور قراردادیں اس کے سامنے بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔ 1948ءمیں
کشمیریوں کو حق خود ارادیت دئے جانے کے فیصلے سے مسلسل رو گردانی بھارت کی
فطرتِ خبیثہ کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔ کشمیر کے علاقوں میں ہندوؤں کی
آبادکاری جاری ہے۔
جون 2010ءسے شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی اندرونی سیاست
میں بھونچال آچکا تھا۔ اس کے بعد سے تحریک آزادی میں کشمیری نوجوان نمایاں
نظر آرہے ہیں۔ نوجوانوں کے پیہم احتجاج کے نتیجے میں کٹھ پتلی حکمران عمر
عبداللہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ "بھارت کے ساتھ الحاق عبوری اور
انتظامی مقاصد کیلئے تھا"۔ اور ادھر بھارت میں بعض سیاسی پارٹیاں بھی یہ
کہنے لگیں کہ "کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہئے تاکہ وہاں پر خرچ ہونے والے
وسائل کو بھارت کی داخلی ترقی میں استعمال کیا جاسکے"۔ (یاد رہے کہ مقبوضہ
کشمیر میں موجود 7 لاکھ فوج پر بھارت کے یومیہ 25 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہو
رہے ہیں)۔ بہرکیف کشمیر میں تحریک کے حوالے سے ایک شعور بیدار ہوتا دکھائی
دے رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی حکومت کی اس بنیادی مسئلہ کی جانب توجہ
میں شدید کمی آئی ہے۔ گو کہ ماضی میں پارلیمنٹ نے خصوصی کمیٹی برائے امور
کشمیر قائم کی لیکن اس کی کارکردگی گذشتہ کئی سالوں سے انتہائی مایوس کن
ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کمیٹی عملی طور پر بالکل "بے اختیار"ہے۔
اسی وجہ سے یہ چند مخصوص ایام پر صرف بیانات اور ہمدردانہ احساسات کا اظہار
کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔اس بابت اختیارات کے حامل حلقے بھارت سے اعتماد سازی
کی مہم پر ہیں اور اس اعتماد سازی کی کوششوں میں اپنے دیرینہ موقف سے آہستہ
آہستہ دست بردار ہوتے جارہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان
نے بھارت سے مفاہمتی رویہ اس لئے اپنایا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن
تصفیہ کیا جاسکے لیکن بھارت اس مفاہمتی عمل اور اعتمادسازی کو اپنے مقاصد
خاص طور پر افغانستان تک تجارتی رسائی کیلئے استعمال کر رہا ہے اور مسئلہ
کشمیر کو ابھی تک متنازع تسلیم کرنے سے بھی عاری ہے۔ بھارت کے پیش نظر
کشمیر کے خطے کی جغرافیائی اہمیت بھی ہے۔ اس کا چین کے ساتھ متصل ہونا
بھارت کیلئے کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔
گذشتہ دنوں میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی رشتوں کو بہتر
بنانے کیلئے اسے "انتہائی پسندیدہ ملک" قرار دیا۔ ملک میں مسئلہ کشمیر کے
حوالے سے روایتی موقف رکھنے والے تمام دردمند حلقوں نے اس کی بھرپور مخالفت
کی اور کی بھی جانی چاہئے۔ جب ان دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی تنازعہ ہی
"کشمیر" ہے تو بھارت کو "موسٹ فیورٹ اسٹیٹ" کا درجہ دینا کس معنی کی طرف
اشارہ کرتا ہے۔۔۔۔؟ پون صدی سے اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی قربانیاں دینے
والے کشمیری باشندوں کو ہم بھارت سے پینگیں بڑھا کر کیا پیغام دے رہے
ہیں۔۔۔۔؟
تین دن قبل میں نے کشمیر امور کے ایک سینئر تجزیہ کار سے حکومت پاکستان کی
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گذشتہ 5 سالہ کاکردگی کے حوالے سے استفسار کیا تو
ان کے الفاظ یہ تھے 5" سال تو کیا 64 سالوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ کشمیر
آزاد کرانے کے کئی مواقع ضائع کر دئے گئے۔ جبکہ کشمیری لیڈرشپ پاور پولیٹکس
کی وجہ سے اپنا اصل مقصد بھول چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
نوجوان لیڈرشپ کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔"
عمران خان جو پاکستانی عوام کو آجکل "روشن مستقبل" کے سہانے خواب دکھا تے
پھر رہے ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں کشمیر کے حوالے سے گذشتہ 64 سالوں کے
بالکل برعکس موقف کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے تجزیہ کار کا کہنا تھا
"عمران خان سے میری بات ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے انہیں مسئلہ کشمیر کی اے۔بی۔سی
تک کا علم نہیں"۔۔۔ ان حالات میں کس سے توقع کی جا سکتی ہے۔۔۔۔!!!؟
ہر سال 5 فروری کو پورے پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر "روایتی جوش و جذبے"
سے منایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام، کشمیریوں کے ساتھ اپنی محب اور گہری
ہمدردی کا اظہار جلسوں، ریلیوں اور قراردادوں کی شکل میں کرتے ہیں اور ان
کی آزادی کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔ یہ سب اقدامات اپنی جگہ بجا، لیکن سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ محض بعض مخصوص ایام میں جذبات کا "قولی" اظہار اور ریلیاں
کشمیریوں کے گذشتہ 64 برس سے رستے زخموں کیلئے مرہم کا کام دے سکیں گے۔۔۔۔؟
کیا یہ "موسمی صدائیں" ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کافی ہیں
گی۔۔۔۔؟ کیا ریاست کی آزادی کا خواب محض کھوکھلے نعروں اور نمائشی "انسانی
زنجیروں" سے شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔۔۔۔؟
کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے پائیدار اور مستقل حل کیلئے پاکستان اور بھارت
دونوں کو سنجیدہ اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، ورنہ یہ مسئلہ جنوبی
ایشیا کے امن کیلئے ہمیشہ خطرے کی علامت بنا رہے گا۔۔۔۔ خیال رہے کہ کسی
بھی مذاکراتی فورم پر کشمیری قیادت کو نظر انداز کرنا محکوم و مقہور قوم
اور اس کے 80 ہزار سے زائد شہداءکے خون کے ساتھ صریح ناانصافی ہو گی۔ محض
سیاسی نعروں، اخباری بیانات اور "موسمی ابالوں"کے "لولی پوپ" کشمیریوں کو
مطمئن کرنے کیلئے کافی نہیں ہوں گے۔ 5 فروری کو یکجہتی کشمیر ڈے میں صرف
زبانی جمع خرچ سے کام لینے کی بجائے واضح اور قابل عمل حکمت عملی کا اعلان
کیا جائے اور کشمیریوں کے "حق خود ارادیت" کو اجاگر کیا جائے۔ اقوام متحدہ
کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی طرف واضح پیش رفت کی جائے۔
عالمی امن کے ٹھیکیداروں کو چاہئے کہ "انسانی ہمدردی" کی بناءپر اس مسئلے
کے جلد از جلد کشمیری باشندوں کی امنگوں کے مطابق حل کیلئے موثر اقدامات
اٹھائیں۔ |