وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے نے
پوری قوم کو نفسیاتی بنادیا ہے۔ ذراہ ان کا غرور تمطراق دیکھئے پھر انکے
وکیل کا یہ ُعذر ہے کہ بھول ہوگئی وہ ان کے قصور کے نظر انداز کئے جانے کی
درخواست کررہا ہے کہاجارہا ہے کہ اداروں میں تناﺅ نہ ہو تو اچھا ہے۔
سمجھ میں آیا ۔ڈاکوہمارے گھر پر ڈاکا مارے گا تو تناﺅ کی صورت میں وہ سب کو
گولی ماردے گا ہم سب جان سے جائیں گے۔ تناﺅ نہ ہونے کی صورت میں جو چاہے گا
لے کر اپنے گھٹیا وقار کے ساتھ چلا جائے گا۔ اور ہماری بے غیرتی کی زندگی
چند دنوں کے لئے اور بڑھ جائے گی۔
دوسرا ارشاد یہ ہے میں اپیل کرنے کو کہوں گا۔ کیوں کہ پاکستان کا عدالتی
نظام اور قانون کا خاکہ سب برطانوی دورِ حکومت سے اخذ کردہ ہے جس میں انصاف
میں اتنی دیر کی جاتی ہے۔ کہ ظلم اپنی حد کو اسانی سے چھولے ۔ پھر مک مکا
کے قانون پر آجاﺅ ۔ کیونکہ غلاموں کو اگر سانس لینے کی اجازت ہے تووہ ارباب
اقتدار کے منہ لگنے کی جرات کرنے لگیں یہ تو بڑی زیادتی ہے۔
45% فیصد بوگس اور چھوٹے ووٹ لینے والے منڈیٹ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور
اپنی ڈہٹائی پر قائم ہیں NRO کا فیصلہ آنے کے بعد کتنے لوگ ہیں آج بھی کرسی
سے چمٹے بیٹھے ہیں۔
یہ سب توہین عدالت نہیں تو کیا ہے۔ یہ تو توہین جمہوریت بھی ہے اور توہین
عوام بھی مگر کسی نے کیا بگاڑ لیا۔
وکیل اعتزاز احسن کا کہنا ہے جنھوں نے گھناﺅنی توہین عدالت کی ان کو تو
کوئی سزا نہ ہوئی۔ انھوں نے تو ججزکو بچوں سمیت گھر میں بند کردیا تھا۔
درحقیقت اس سے بڑی توہین عدالت اور توہین عوام انھوں نے کی جنھوں نے گارڈ
آف آنردے کر ملک سے رخصت کیا۔
کہاں ہے قانون؟ ظلم ہے ۔ ظلمت ہے۔ جس سے عوام کو بیروز گاری اور ذلت کے سوا
کچھ نہیں ملا۔
ہر روز ڈیزل ، گیس، پیٹرول پر قیمتیں بڑھا کر جمہوریت کی کیا خدمت کی جارہی
ہے۔ کہ عوام اسقدر ڈھیٹ اور بے حمیت ہیں کہ اپنا سر پھوڑ تے ہیں خودکشی
کرتے ہیں مگر دشمنی کرنے والے کو کچھ نہیں کہتے۔ اس ملک کی اینٹ سے اینٹ
نہیں بجاتے ۔
ہمارا شاعر مشرق تو کہتا ہے!
جس کھیت سے دہقاں کو میسرنہ ہوروزی۔
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔
عوام کیا کرے گی۔ یہ بے وقعت اور بے بس لوگ ہیں ۔یہ بے چارے خود کبھی نہیں
دوڑے ان کو ڈرائیونگ فورس کی ضرورت ہے ۔ لیڈر اور مسلمانوں میں؟ عبث ہے جس
کو خدا خوفی اور دین کا پاس ہوگا۔ عوام اس سے دور بھا گیں گے۔ یہ سمجھتے
ہیں نہ خود کھائے گا نہ کھانے دے گا لہذا یہ ہمیشہ اس کباڑی کی طرف جائیں
گے جو ان کی ٹوٹی پھوٹی عزت اور غیر ت کے صلے میں دو،چار چمکتے سکے عطا
کردے اور یہی وجہ ہے مسلمانوں اور باِ لخصوص پاکستانی عوام کی تباہ حالی
کی۔
آپ ان اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو غور سے دیکھئے ان میں حرص، لالچ اور بے دینی
کس درجہ موجود ہے۔ اپنے تحفظات کے لئے منافقت ان کا بہترین ہتھیار ہے۔
سچائی اور ایمانداری کو عیب اور بیوقوفی کا نام دیتے ہیں۔ اس معاشرے کا
نظام تعلیم اس طر ح تباہ کیا گیا ہے۔ کہ شاعر مشرق کو سمجھنے کی صلاحیت
باقی نہ رہی۔
کارل مارکس کے نظریہ دولت کو بڑا مان دیاگیا ہے۔ ہر کام اقتصادیات کے گرد
گھوم تا ہے۔ایک خیال یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے الگ ملک بھی اقتصادی
بحران کی وجہ سے بنایا گیا تھا۔ بیشتر لوگ پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ
کے نعرے کو ماننے سے منحرف ہیں ۔
ہندوستان کی تقسیم اس لئے کی گئی کہ گورا برصغیر کو تنہا چھوڑ کر نہیں
جاسکتا تھا اس نے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کے نادر قول پر عمل کرتے ہوئے
برصغیر کو دو اکائیوں میں اس طرح تقسیم کیا کہ ہندوستان کو ایک اکائی بنایا
اور پاکستان کی دواکائیاں اسطرح ڈالی گئیں کہ انکا اندازہ سچ ہوا کہ یہ دو
ایکائیاں بھی جلد جدا ہوجائیں گی۔ اور اسطرح برصغیر تین جیتی جاگتی اکائیوں
میں تبدیل ہوگیا۔ دشمنوں نے گھی کے چراغ جلائے انہیں یہ امید نہیں تھی کہ
مشرق پاکستاں اتنی اسانی سے آن گرے گا۔ایک مشہور صحافی کا کہنا ہے کہ آج کی
صورتحال میں انقلاب نہیں آسکتا کیونکہ یہ وہ مٹیریل ہی نہیں ہے جو انقلاب
لاتا ہے۔ سچ کہا شودر اور کمی ّ انقلاب کی سمجھ نہیں رکھتے طاقت اور دولت
کو ماتھا ٹیکنا انکی فطری اُمنگ ہے ۔
اِدھر پاکستان میں ڈاکٹر قدیر خان نے انقلاب کھڑا کیا تو خود گناہ گار
ٹھہرے اور پرویز مشرف جیسے شخص نے مسلمانوں کو ہر ممکن ذلّت سے آشکار
کیامجھے حیرت ہے وہ کونسا منحوس دن ہوتا ہے جب ایسے لوگ مسلمانو ں کی فوج
میں آجاتے ہیں اور تاریخ میر صادق اور میر جعفر کو سامنے لاتی رہتی ہے ۔
اگر چہ اب تک ہم قدیر خان کے انقلاب کو محفوظ سمجھتے ہے لیکن دشمن نے بہت
سے میرصادق اور میر جعفر جمع کرکے مسلمانانِ پاکستان کو چیلنج کیا ہے کہ ہم
تمیہں دوبارہ بے ملک اور بے وقعت کر دیں گے (نعوذبِاللہ )
ہمارے بچپن میں مقولہ تھا ۔
جان کا صدقہ مال اور ایمان کا صدقہ جان ۔
آج لوگ اپنا ایمان بیج کر مال جمع کر رہے ہیں قانون انصاف کے لیے ہوتا ہے
مگر کیا وکیل انصاف کی حصول میں کوئی مدد کر سکتا ہے سوائے اسکے کہ کنفیوژن
پھیلائے اور حصولِ انصاف میں تاخیر کا حربہ استعمال کرے یہی اسکی چیمپئن شپ
ہے ۔ اسی لیے اسلام کا انصاف اس سے بہت مختلف ہو تا ہے گواہ بھی بہت جانچا
ہوا اور کڑی شرائط پر پُورااُتر تا ہے بازار سے گواہ خریدا نہیں جا سکتا
۔ہمارہاں ایک وکیل تین کروڑ لیکر ڈھٹائی سے عدالت کا مذاق اُڑاتا ہے اور نہ
صرف عدا لت میں بلکہ میڈیا میں بھی۔ دوسرا وکیل اُس سے بڑے پیکیج پر راضی
ہوجا تا ہے ۔
اس موقع پر فتح مکّہ یاد آگئی جب ابو جہل نے مسلمانوں کو طاقتور پایا اور
سمجھ گیا کہ آج پکڑا جاﺅں گا اور ذلّت ہوگی تو میدان سے بھاگنے لگا اسکے
کچھ ہمدر دوں نے کہا کہ تم بھاگ جاﺅگے تو بے عزّتی ہوگی اس نے جواب دیا
میری عزّت اسی مال و اسباب سے ہے اگر یہ ختم ہوگیا تو میری عزّت کون کریگا
ہمارے چیمپئن وکیل نے بھی اسی لیے یو ٹرن لے لیا کہ مال بڑی چیز ہے ورنہ
پرویز مشرف کہ استثنیٰ میں وہ حضرت عمرؓ کی مثال دے رہا تھا اور یہاں اس نے
اپنے کلائینٹ کے لیے اخلاق اور ایمان سب کا معیار ہی تبدیل کر دیا ۔
عوام الناس کے لئے اس حکومت کا رہنا موت اور زندگی کا معاملہ ہے وہ کب تک
اس اقتصادی بحران کو برداشت کر سکتے ہیں جو کہ حقیقی نہیں ہے بلکہ پاکستان
کی تباہی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ لیڈر فوج کو کنفیوژ کرنے کی پوری کوشش
میں ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کے فوج پاکستان کو اور عوام کو بچانے کے لیے نکل
نہ آئے اور بہتی گنگا میں یہ ہاتھ دھونے سے رہ جائیں ۔
اے اللہ ہمیں اُس ظالم سے بچا جو ہم پر رحم نہ کرے اے اللہ ہم نے اپنے
اُوپر بہت ظلم کیا ہے اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو
ہم بہت بڑے خسارے میں ہونگے۔ |