مزاح کے کارخانے میں دخل

ان دنوں کتابیں اس کثیر تعداد میں شائع ہورہی ہیں کہ ادھر کچھ عرصے سے دیکھتے ہی دیکھتے بازارمیں کاغذ کا بھاؤ بڑھ گیا ہے۔ قارئین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کیا خریدیں اور کیا چھوڑیں۔ شاعری ، تنقید، تاریخ ،سفرنامہ غرض یہ کہ ایک سیلاب بلا ہے جو کتابوں کی شکل میں گھروں میں داخل ہورہاہے۔ اس ضمن میں معروف ادیبہ سائرہ غلام نبی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتی ہیں:

”ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کتابوں کی اشاعت میں بے پناہ تیزی آئی ہے۔لکھنے والا اعتبار کی سند حاصل کیے بغیر صاحب کتاب باآسانی بن رہا ہے۔یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا یہ محض جدید دور کا کوئی نیا فیشن ہے یا اس سے کوئی ذاتی قسم کا مفاد وابستہ ہے۔نظریاتی تحاریک سے جڑے بغیر ، content کی گہرائی میں اترے بغیر، سنجیدگی سے علم کا انہماک کیے بنا تخلیقی وفور سے سرشار ہوئے بغیر لفظوں کا ڈھیر لگایا جارہا ہے۔ چمکتے دمکتے درآمد شدہ کورے اوراق کو فرسودہ اور بے معنی خیالات سے سیاہ تر کیا جارہا ہے۔ یہ دو نمبر شاعر اور ادیب مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور بہت تیزی سے اصل مال کے دام کو کھوٹاکررہے ہیں ۔ہماری تشویش آج سے زیادہ آئندہ کے لیے ہے کہ آج کے مسترد شدہ ادیب و شاعر کل کے بچھے کھچے قاری کی دسترس میں ہوں ۔انہیں اوچھے ہتھکنڈے آتے ہیں جن میں فلیپ لکھنے والے نقاد ان کے مددگار ہیں۔ ایسے ادب کو ادب بننے سے کیسے روکا جائے ؟ بے پناہ کتابوں کی اشاعت پر پابندی کیسے لگائی جائے ؟ “

سائرہ غلام نبی کی تشویش اپنی جگہ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ ایک صنف ادب ضرور ایسی باقی بچی ہے جس میں طبع آزمائی ہر کس و ناکس کی بات نہیں لیکن اب وہ بھی لکھنے والوں کی زد پر آگئی ہے ، یہاں بات ہورہی ہے مزاح نگاری کی۔ دوسرے لفظوں میں اس کارخانے میں بھی تواتر کے ساتھ دخل اندازی کرنے والوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مزاح کے کارخانے میں دخل کی ترکیب پر مبنی واقعے کے راوی خامہ بگوش ہیں، لکھتے ہیں:
ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنی خودنوشت ’شاخ ہری اور پیلے پھول‘ میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ اکثر جوش صاحب کے گھر جایا کرتی تھیں۔ بیگم جوش کو ان کا آنا پسند نہیں تھا۔ ایک روز بیگم صاحبہ کا پیمانہ صبر چھلک گیااور انہوں نے ڈاکٹر عالیہ امام سے کہا: ” مجھے ایسی عورتیں زہر لگتی ہیں جو دوسروں کے کارخانے میں دخل دیں “

افسوس کہ بیگم جوش کا انتقال ہوچکا ہے ۔ اگرڈاکٹر عالیہ امام کی کتاب ’شاعر انقلاب۔۔۔نظریاتی و تنقیدی مطالعہ‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی ہوتی تو وہ اسے دیکھ کر یہ ضرور کہتیں:
” اچھا تو اب آپ تنقید کے کارخانے میں بھی دخل دینے لگیں۔“ (خامہ بگوش )

اس خامہ بگوشی کی یاد ہمیں حال ہی میں شائع ہوئی ایک ایسی کتاب کو پڑھنے کے بعد آئی جسے ہم یاداشتوں کا مجموعہ سمجھ کر خرید لائے تھے لیکن کتاب کے ایک ہی نشست میں مطالعے کے ُپرخطر فیصلے کے بعد یہ علم ہوا کہ فاضل مصنف نے مزاح کے کارخانے میں دخل دینے کی کوشش کی ہے۔ ۔ کتاب کا عنوان ہے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘، اس کے مصنف ایک ریٹائرڈبینکار جناب ایس ایچ جعفری ہیں۔ پس ورق، مصنف کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر ہے جو کتاب کے عنوان کی مناسبت سے مختلف ہے۔ آپ نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ، کتاب کے دیباچے میں یہ واضح کردیا کہ ’ یہ سوانح عمری نہیں ہے ، بس ایک عام سے آدمی کے اوپر سے گزرنے والے کچھ واقعات ہیں جو ذہنی گرفت میں آگئے“۔مصنف نے کتاب کے مطالعے کے بعد اس کے قاری کی ذہنی گرفت کی کیفیت میں ہونے والی تبدیلیوں کا حال جاننے کے لیے اپنا ای میل پتہ بھی درج کیا ہے۔ مصنف نے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی نے مزاح کا معیار اس قدر بلند کردیا ہے کہ بڑے بڑے مزاح نگار ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ اعتراف کرنے کے باوجود بھی انہوں نے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کو بمثل عنوان کتاب، ایک جنوں کی کیفیت میں لکھا اور اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ جنوں کی یہ کیفیت ان کے قاری پر بھی طاری ہوجائے خاص کر اپنے پیسوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر۔کتاب عالم جنوں میں لکھی گئی ہے اور قاری بھی دوران مطالعہ یہی کیفیت طاری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف مصنف نے ابتدا ہی میں یہ لکھ کر قاری کے دکھوں میں مزید اضافہ کردیا ہے کہ ’مذکورہ کتاب کی جملہ آمدنی علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کراچی کے لیے وقف ہے۔‘ ۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ علی گڑھ ایسو سی ایشن کے انتظامی و معاشی معاملات پر زیر موضوع کتاب کی فروخت سے حاصل ہوئی آمدنی کی آمیزش کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
 

image

کتاب کے دیباچے میں جعفری صاحب نے یہ راز بھی فاش کردیا ہے کہ آخر ان کو اس کتاب کے لکھنے کا خیال کیونکر آیا۔لکھتے ہیں کہ ” میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میرا ایک مضمون پڑھ کر میرے چند دوستوں نے پہلے تو مشورہ دیا کہ میں مزید لکھوں ، اس کے بعد بھی اصرار کرتے رہے۔یہ عین ممکن ہے کہ ان کے اس عمل سے مقصود میری ٹانگ کھینچنا رہا ہو لیکن میں نے بڑی سنجیدگی سے ان کے مشورے پر عمل کیا ہے۔ “

جعفری صاحب نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے ہم وطنوں کے نام یہ لکھ کر کیا ہے ” جو اگر چاہیں تو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنا کر ترقی یافتہ اقوام عالم کی صف میں اپنی ممتاز حیثیت کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔“

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ریٹائرڈ بینکار کے دوست کس قماش کے ہیں جنہوں نے ان کو یہ کتاب لکھنے کا مشورہ دیا اور اس پر مستزاد مصنف ان کی باتوں میں کیونکر آئے۔ اس صورت حال میں وہ محاورہ بھی مصنف کے پیش نظر ہونا چاہیے تھا کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا۔ رہا سوال ٹانگ کھینچنے کا، تو کتاب میں ایک جگہ انہوں نے اپنا وزن بھی پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے درج
کیا ہے جو 140 پاؤنڈ ہے۔ اتنے وزن کے حامل کسی شخص کی ٹانگ کھینچنا ذرا مشکل بات نظر آتی ہے۔ کتاب کے انتساب میں مصنف اپنے ہم وطنوں کو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنانے کی تلقین کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کی اس کتاب کا قاری اسے خریدنے کے بعد نظم اور پڑھنے کے بعد اپنا ضبط کیونکر برقرار رکھ سکتا ہے ؟

’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف نے اس کتاب کا آغاز ہی ایک تنازعے کے ساتھ کیا ہے، یہ ہماری ناقص سمجھ کا قصور بھی ہوسکتا ہے کہ شاید مصنف نے کتاب کی ابتدا ہی مزاح سے کرنے کی کوشش کی ہو، بہرکیف انہوں نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے ’ ’تاریخ پیدائش: متنازعہ“۔ یہ بجائے خود ایک متنازعہ بات ہے ۔وہ تمام عمر بینک میں ایک متنازعہ تاریخ پیدائش کے حامل ریکارڈکے ساتھ کیسے نوکری کرتے رہے؟تاریخ پیدائش کے بعد لکھتے ہیں ’تاریخ وفات: ہنور نامعلوم‘۔ خدا ان کو لمبی عمر دے لیکن ان کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد مصنف کے بجائے اس کے قاری کی تاریخ وفات کا تعین ہونا آسان نظر آرہا ہے۔ فہرست مضامین کا آغاز ہی مزاحیہ انداز میں کیا گیا ہے ، باب نمبر دو کا عنوان ’میں کیوں پیدا ہوا ‘رکھا گیاہے۔ مذکورہ باب میں مصنف اپنی پیدائش کا سبب تلاش کرتے نظر آتے ہیں، بقول ان کے، ’میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں لیکن تاحال مجھے کوئی تسلی بخش جواز نزول نہیں مل سکا ہے۔،دنیا کی بے انتہا ترقی کے باوجود آج بھی قدرت کے کئی راز ہائے سربستہ سے پردہ نہیں ہٹ سکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میرا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے ‘۔

ایس ایچ جعفری صاحب نے یہ بات لکھ کر کم از کم ہمیں تو حیران و پریشان کردیا ہے ، اس سے پہلے ہمارے علم میں قدرت کے دس مصدقہ راز ہائے سربستہ مثلا برمودا ٹرینگل ، جیک دی رپر وغیرہ ، جیسے پیچیدہ و لاینحل معمے ہی تھے، اب یہ علم ہوا کہ جناب مصنف کا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے۔

’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کا آغاز مصنف کے سوانحی حالات سے ہوتا ہے اور اس سے یہ امید بندھ جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آخر تک یونہی چلے گا اور پڑھنے والوں کو ایک بینکار کے حالات زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گالیکن الہ آباد میں گزرے اپنے بچپن کے واقعات کو بیان کرتے کرتے یکایک مصنف لندن میں بینک کی نوکری کا احوال بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ قاری ان کو کسی قسم کا الزام نہیں دے سکتا کہ کتاب کا عنوان اس کے پیش نظر رہتا ہے۔

ایس ایچ جعفری صاحب کی بذلہ سنجی کے کئی یادگار نمونے کتاب میں جا بجا بکھرے ہیں بلکہ کئی جگہ تو قاری کو ان کی جانب سے بے دھیانی برتنے کی صورت میں ٹھوکر لگنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔لندن میں قیام کے دوران مصنف نے اپنے دوست ملک صاحب کولاجواب کردیا تھا۔ ہوا یہ کہ ملک صاحب نے اپنے گھر میں غسل خانہ بنوایا اور ہر ملاقاتی کو جوش و خروش سے دکھانا شروع کیا،مصنف بھی پہنچے اور غسل خانے کا ٹب دیکھ کر ملک صاحب سے کہا:
جناب اسٹیم کہاں سے آئے گی ؟
ملک صاحب نے پوچھا اسٹیم کیسی، یہ تو نارمل باتھ ٹب ہے
مصنف نے جواب دیا :ملک صاحب! اس ٹب میں یا تو آپ آئیں گے یا پانی، دونوں تو بیک وقت نہیں سما سکتے
اس اچھوتی، بے مثال و لاجواب بذلہ سنجی پر مبنی جواب کے بعد مصنف لکھتے ہیں: ملک صاحب نے مجھے دھکا دے کر باہر نکال دیا اور میری بیوی سے کہنے لگے کہ آپ کے شوہر بہت بے ہودہ ہیں۔

ہمیں مصنف کے کہے گئے جملے میں بے ہودگی کی تو کوئی رمق نظر آئی البتہ ملک صاحب کا مصنف کو دھکے دے کر باہر نکال دینا بجائے خود ایک بے ہودگی پر مبنی واقعہ نظر آتا ہے۔

جعفری صاحب ایک کیفے میں چمچوں کا معائنہ کررہے تھے ،یہی ملک صاحب وہاں موجود تھے ، انہوں نے جعفری صاحب سے کہا ’کسی خاص چمچے کی تلاش ہے ؟جعفری صاحب نے جواب دیا ’ معاف کیجیے! میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا‘۔ جعفری صاحب لکھتے ہیں کہ ملک صاحب اس وقت تو کچھ نہ بولے، بعد میں خفگی کا اظہار کیا۔ جعفری صاحب نے اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد اگلے ہی صفحے پر اپنی ہی بات کی تردید یہ کہہ کر کردی کہ ” ملک صاحب میں اور خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ نہ صرف دوسروں کی بات کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے اوپر چپکائے ہوئے مذاق بھی مزے لے لے کردوسروں کو سناتے۔“

یہ عین ممکن ہے کہ کیفے میں مصنف کے بے مثال جملے کے جواب میں ملک صاحب کی خفگی کو بھی مصنف نے ان کی ایک خوبی سمجھا ہو ۔

جن لوگوں کو اسٹیج پر مزاحیہ ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان ڈراموں کا آغاز اچھے انداز سے ہوتا ہے، لیکن مزاح کا معیار ی تسلسل برقرار رکھنا خالہ جی کا گھر نہیں، درمیان میں ’بھرتی کی کامیڈی‘ کی مدد سے اسے طول دیا جاتا ہے،جہاں ناظرین کی اکتاہٹ کو محسوس کیا، وہاں ایک صحت مند قسم کی رقاصہ کو میدان میں اتارا جاتا ہے کہ ناظرین جمے بیٹھے رہیں۔لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ میں بھی یہی انداز اپنایا گیا ہے۔ مصنف اپنے قارئین کی خوشی کی خاطر ایسے واقعات کو بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جہاں ’ عاشقی میں عزت سادات ‘کے جانے کا خدشہ لاحق ہوتانظر آتا ہے۔ وہ جملے بازی کے شوق میں اپنے دوست کی بیگمات کو بھی نہیں بخشتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے یہ جملے پڑھ کر شاید اس کتاب کے کاتب کو بھی ہنسی نہ آئی ہو، قاری تو دور کی بات ہے۔ ہاں ، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کتاب کی کتابت بھی مصنف نے خود ہی کی ہو، اس صورت میں ہمیں اپنے الفاظ واپس لینے پڑیں گے۔ مصنف اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھے، گپ شپ کا سلسلہ چل رہا تھا، فون کی گھنٹی بجی اور خاتون فون سننے گئیں، واپسی پر مصنف اور وہاں بیٹھے ایک دوسرے دوست کے سامنے گلہ کرنے لگیں کہ ان کی خریدی ہوئی نئی استری خراب ہوگئی، وہ کل اسے واپس کرنے جائیں گی، پیسے تو دکاندار دے گا نہیں البتہ جو ملے گا لے آئیں گی۔

” بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی“ خاتون نے اپنی بات کے آخر میں کہا

اس بات پر ہمارے ممدوح رواں ہوگئے: ” کسی کی بھی لنگوٹی کو ہتھیانے کی کوشش ، خواہ وہ بھوت ہی کیوں نہ ہو، انتہائی غیر شریفانہ حرکت ہے، خصوصا ایک خاتون کے لیے، شریف بہو بیٹیوں کو اس قسم کے محاورے استعمال کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے “

ساتھ بیٹھے دوست نے مصنف کو ٹوکا: ” بولے چلے جا رہے ہو، یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں کچا کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہیں“

مصنف نے جواب دیا ’ یہ دوسری غلط حرکت ہوگی، کیونکہ نامحرم کو اس طرح دیکھنا بہت ہی نامناسب بات ہے‘

” میں حرام چیزیں نہیں کھاتی“ خاتون نے تنک کر کہا

” میں خود کو حلال کروانے پر راضی ہوں“ ۔ مصنف نے جواب دیا

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شریف بہو بیٹیوں ‘کے گھر پر بیٹھ کر اس قسم کی باتیں کرنا کہاں تک درست ہے ؟ نیز یہ کہ اس دوران خاتون کے شوہر کہاں تھے؟ ہمارے معاشرے میں عموما دوست کی بیوی کو بھابی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ رشتہ ایک قابل اعتماد اور پرخلوص رشتہ سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کی خود کو اپنے ہی دوست کی بیوی پر حلال کروانے کی برملا خواہش کا کیا نتیجہ نکلا، کتاب میں اس کا کوئی بیان نہیں ملتا۔

ایک دوسرے واقعے میں، جس کو مصنف نے ایک علاحدہ صفحے پر پانچ جملوں میں چھیڑ چھاڑ کے عنوان کے ساتھ اہتمام سے لکھا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ”شادی کی تقریب میں ایک پرانے دوست کی بیگم نظر
آئیں، ان کے پاس جاکر میں نے مذاقا کچھ کہا، وہ بولیں چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں گئی ، کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کریں۔میں بولا عمر ہی کا تو لحاظ ہے ورنہ ادھر (قریب بیٹھی لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) نہ
جاتا۔ وہ بہت محظوظ ہوئیں۔“

مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ بارش کے بعد بیر بہوٹیاں اور بہو بیٹیاں، دونوںباہر نکل آتی ہیں۔ گمان ہے کہ جعفری صاحب کے بیان کردہ ان واقعات میں موجود فرضی (بظاہر) خواتین اسی قبیل کی رہی ہوں گی۔ استاد لاغر مراد آبادی نے یہ واقعہ سن کر فہمائشی انداز میں ارشاد فرمایا ، میاں ، جیسی روح ویسے فرشتے، تم کیوں ہلکان ہوتے ہو!

ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن ترنگ میں آکر ایک ہمجولی کو بیٹی کہہ دیا۔ وہ اٹھلا کر بولیں اب میں اتنی کم عمر نہیں ہوں۔“۔

مصنف کی طبیعت میں رنگین مزاجی کا عنصر اوائل عمری ہی سے رہا۔ عشق کے باب میں ایک جگہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں ’ میں نے بے شمار عشق کیے، میرے عشق عمر، مذہب، قومیت کی پابندیوں سے آزاد رہے۔ میرے عشق کی مدت چند منٹ، چند گھنٹوں، دنوں ہفتوں اور مہینوں تک محدود رہی۔‘ ۔نصف سے زیادہ کتاب میں اسی قسم کے روح پرور واقعات لکھ لینے کے بعد مصنف کو خیال آیا کہ موت کو بھی یاد کرلیا جائے لیکن اس بیان میں بھی انہوں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔چشم تصور میں اپنے انتقال اور اس کے بعد اہل خانہ پر اس کے اثرات کو دیکھا اور اس میں قاری کو بھی زبردستی شریک کرلیا۔ مصنف کو یونہی خیال آیا کہ ان کے مرنے کا دعوت نامہ اگر ہوتا تو کچھ اس قسم کا ہوتا:
میرا انتقال
بتاریخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، بروز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہونا قرار پایا ہے۔پروگرام حسب ذیل ہے
روانگی جلوس: ایک بجے دوپہر
نماز: ڈیڑھ بجے دوپہربمقام سلطان مسجد
تدفین: ڈھائی بجے
طعام: تین بجے

درج بالا پروگرام کی آخری پیشکش سب سے زیادہ پر کشش ہے اور گمان غالب ہے کہ شرکاءاسی میں سب سے زیادہ دلچسپی لیں گے ماسوائے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے قارئین کو چھوڑ کر کے وہ تو کتاب کے مطالعے کے بعد حلق تک ُپر ہو چکے ہوں گے۔

ذہنی پراگندی کی اس تشویشناک حالت کو مصنف نے ایک جگہ خود ان الفاظ میں بیان کردیا ہے ، ہماری نظر میں تو یہ ان کا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے:
” راتوں کو سوتے سوتے نہ جانے کیوں آنکھ کھلتی ہے تو فیض کے قطعے ’رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی‘ کا وردہورہا ہوتا ہے ۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ ’تری’ کون ہیں جن کی کھوئی ہوئی یاد نہیں آپارہی،آخر یہ چکر کیا ہے ؟ کہیں سٹھیانے کے اثرات تو نہیں ؟

آئیے اب کتاب میں موجود مصنف کے زرخیر قلم سے نکلے یک سطری جواہر پاروںپر بھی ایک نظر ڈال لیں جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی :

َ۔ خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا لیکن میں نے لاتعداد گنجوں کے ناخن دیکھے ہیں بلکہ اپنا سر کھجاتے ہوئے پایا۔
جب ہر طرح کی آزادی ہے تو سوال یہ ہے کہ ڈکیتی کی آزادی کیوں نہ ہو ۔
میں نے آج تک کسی کتے، بلی، گدھے، گھوڑے کو گنجا نہیں پایا۔
لیکن یہ آپ کے پلے(اس لفظ کے پ پر زبر دے کر پڑھیں، زبر نیجے گر کر زیر ہوگیا تو مفہوم بدل جائے گا) نہیں پڑے گا۔
میں تشدد کے ہمیشہ خلاف تھا، فٹ بال نسبتا امن پسند کھیل لگا سو اسے اپنا لیا۔
میں اپنی شادی کا کارڈ دینے گیا تو ہونے والی سالی کے سامنے ایک (اجنبی) بچہ آیا اور ابو کہہ کر مجھ سے لپٹ گیا۔
۔میں پیدائشی بزرگ واقع ہوا ہوں، یعنی میں جب اس سیارے پر جسے لوگ دنیا بھی کہتے ہیں،وارد ہوا تو یہاں پر پہلے ہی سے بہت سے لوگ موجود تھے جن کا میں رشتہ میں ماموں یا چچا تھا۔
بڑھاپا بھی ایک حقیقت ہے جس سے ہر شخص کسی نہ کسی مرحلے پر دوچار ہونا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ اس مرحلے پر پہنچنے سے پہلے گزر نہ گیاہو۔
مجھے دوسروں کی تمام بیویاں پسند نہیں آتیں، صرف وہ بیویاں پسندآتی ہیں جو واقعی پسندیدہ ہوں۔

اسٹیفن لیکاک نے مزاح کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے: ” یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔“

ہمیں تو ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف جناب ایس ایچ جعفری کے صنف نازک میں حد درجے بڑھے ہوئے لگاؤ اور اس کے جا بجا اور جا بیجا اظہار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیفن لیکاک کی درج بالا مزاح کی تعریف کو کچھ اس طرح بیان کرنا مناسب لگ رہا ہے:
یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ’مردانہ ‘شعور کا نام ہے جس کا معاندانہ (قاری کے لیے) اظہار ہوجائے۔

ہمارے قارئین یقیننا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو جناب ایس ایچ جعفری کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں تو ایسے تمام احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے وہ زیر موضوع کتاب اپنی حق حلال کی کمائی سے خریدیں اور اس کے مطالعے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں۔یہ مضمون ہم جناب مصنف کو بھی ارسال کریں گے، ظاہر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ان کی رائے ہمارے حق میں بہتر تو نہ ہوگی البتہ اگر وہ ہماری کچھ اشک شوئی چاہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ پہلے وہ اردو بازار کراچی کے کتب فروشوں کے پاس موجود اس کتاب کے تمام نسخوں کو واپس منگوائیں ، اب تک کے فروخت شدہ نسخوں کی آمدنی علی گڑھ ایسوسی ایشن کے بجائے کسی خیراتی ادارے کے حوالے کریں، نئے سرے سے اپنی خودنوشت آپ بیتی لکھیں اور اس کا نام زیر موضوع کتاب کے عنوان میں رد و بدل کے ساتھ استعمال کیے گئے غالب کے اصل شعر کے دوسرے مصرعے پر رکھیں۔

زیر نظر مضمون کا اختتام بھی خامہ بگوش ہی کے ایک اقتباس سے کرنا مناسب نظر آرہا ہے:
”ہمارے ننانوے فیصد ادیب اپنے حسن عمل کا نتیجہ اسی دنیا میں دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کی کتابیں کوئی نہیں پڑھتا۔ جب کوئی پڑھتا نہیں تو کتابوں کے فروخت ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ بس شرمندگی کی دولت ہاتھ لگتی ہے اور یہی دولت بیدار کتاب لکھنے والے کا خالص منافع ہوتی ہے۔“
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280303 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.