حضرت غوث اعظم سیدنا محی الدین
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود مسعود شاعر مشرق حکیم الامت علامہ
محمد اقبال کے اس شعرکی تصویر مجسم ہے:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضور
سیدنا غوث اعظم کے زمانہ مبارک سے فیضان ولایت اور برکات طریقت حاصل کرنے
میں تمام (اقطاب و نجبائ) ان کے محتاج ہوں گے۔ بغیر ان کے واسطے اور وسیلے
کے، قیامت تک کوئی ولی نہیں ہو سکتا۔ (مکتوب نمبر ۱۲۳)
حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ‘ فرماتے ہیں؛
درصدق ہمہ صدیق و ۔۔۔، در عدل و عدالت چو عمری
اے کانِ حیا عثمان غنی، مانند علی باجود و سخا
حضرت سیدنا شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ شیخ عبدالقادر
بادشاہ طریقت اور تمام وجود میں صاحب تصرف تھے۔ کرامات اور خوارق عادات میں
اللہ تعالی نے آپ کو ید طولی عطا فرمایا تھا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اولیاء عظام میں سے
راہ جذب کی تکمیل کے بعد جس شخص نے کامل و اکمل طور پر نسبت اویسیہ کی طرف
رجوع کر کے، وہاں کامل استقامت سے قدم رکھا ہے وہ حضرت شیخ محی الدین
عبدالقادر جیلانی ہیں۔‘‘ ّ(ہمعات)
شیخ عبدالقادر جیلانی کو عالم میں اثر و نفوذ کا ایک خاص مقام حاصل ہے اور
ان میں وہ وجود منعکس ہو گیا ہے جو تمام عالم میں جاری و ساری ہے۔ (تفہیمات
الہیہ، جلد دوم)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے کہا کہ اللہ تعالی نے سیدنا غوث اعظم کو
قطبیت کبرٰی اور ولایت عظمیٰ کا مرتبہ عطا فرمایا۔
امام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلی حضرت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی
نوراللہ مرقدہ‘ کہتے ہیں؛
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچے کے سروں سے قدم اعلی تیرا
جو ولی قبل ہوئے بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا
’’نظم معطر‘‘ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں؛
نامد ز سلف عدیل عبدالقادر
ناید بخلف بدیل عبدالقادر
مثلش گر از اہل قرب جوئی گوئی
عبدالقادر مثیل عبدالقادر
اور یہ سب اولیاء اللہ رحمہم اللہ یہ سب کچھ کیوں نہ کہتے کہ حضرت غوث
الثقلین نے خود فرمایا؛
اَنَا الْحَسَنِیُّ وَالْمَخْدَع مَقَالِیْ
وَ اَقْدَامِیْ عَلیٰ عُنُقِ الرِّجَالٖ
’’میں حسنی ہوں اور میرا مرتبہ قرب خاص ہے اور میرا پاؤں مردانِ خدا کی
گردن پر ہے‘‘ (قصیدہ غوثیہ)
قصیدہ غوثیہ آپ کے چودہ (۱۴) قصائد میں سے ایک ہے ۔’’ فتوح الغیب‘‘ میں
علم تصوف و معرفت اور اسرارِ حقیقت و معارف قرآنی کے ۷۸ مقالات ہیں ۔
’’فتح ربانی‘‘ میں ۶۳ خطبات ہیں۔
حضرت کے مقام و مرتبہ پر گفتگو بزرگان دین اولیاء کرام ہی کا منصب ہے اور
انہی نے کی ہے۔ ہم عامیوں کے لیے تو یہ بھی کم نہیں کہ حضرت کی والدہ کا
اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ ہے ۔ آپ کے والد کے نام میں حضرت صالح علیہ السلام
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اسمائے مبارکہ کا اجتماع ہے، آپ کی پھوپھی
ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہم نام ہیں اور آپ کے نانا جان
حضور حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثناء ہیں۔
اعلی حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ خُرد مولانا حسن رضا بریلوی
علیہ الرحمۃ نے بھی حضرت غوث اعظم کی بہت سی منقبتیں کہی ہیں۔ دو (۲) تو
وسائل بخشش ہی میں شامل ہیں۔ ایک منقبت کے یہ شعر دیکھیں؛
پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
مدد پر ہو تری امداد یا غوث
اُڑے تری طرف بعدِ فنا خاک
نہ ہو مٹی مری برباد یا غوث
مرے دل میں بسیں جلوے تمہارے
یہ ویرانہ بنے بغداد یا غوث
مُرِیْدِی لَا تَخَفْ فرماتے آؤ
بَلاؤں میں ہے یہ ناشاد یا غوث
کھلا دو غنچہء خاطر کہ تم ہو
بہار گلشن ایجاد یا غوث
کرو گے کب تک اچھا مجھ بُرے کو
مرے حق میں ہے کیا ارشاد یا غوث
حسنؔ منگتا ہے، دے دو بھیک داتا
رہے یہ راج پاٹ آباد یا غوث
مولانا حسن رضا بریلوی اپنے برادر اکبر اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کے فیض یافتہ
اور داغ دہلوی کے تلمیذ خاص تھے۔ مولانا حسرت موہانی (رئیس المتغزلین) نے
اپنی گراں قدر تصنیف’’نکات سخن‘‘ میں آپ کے اشعار بطور سند پیش کیے ہیں۔
اعلی حضرت کا فرمان ہے:
’’مولانا کافی (کفایت علی شہید) اور حسن میاں کا کلام اول سے آخر تک شریعت
کے دائرے میں ہے۔‘‘
نام ور اہل علم و تحقیق اور نقادان فن قراردے چکے ہیں کہ مولانا حسن رضا
خان بریلوی کا کلام نُدرتِ خیال، سلاستِ زبان، لطافتِ مضمون، رعنائی فکر کے
باعث فصاحت و بلاغت کا خزینہ بن گیا ہے۔بندش کی چُستی، زبان کی صفائی،
صنعتِ تلمیح کے علاوہ دیگر صنائع و بدائع کا بے ساختہ استعمال، محاورات کا
کثیر استعمال اور قریباََ ہر شعر میں رعایتِ لفظی کا حسن، پڑھنے والوں کو
مسحور کر دیتا ہے۔کلام حشوو زواید سے پاک ہے اور تنافرِ جلی و خفی کا شائبہ
تک نہیں۔
ایسے استاد شاعرنے، اپنے انہی تخصصات کے ساتھ جب مثنوی کی ہیئت میں حضور
غوث پاک کی کرامات کو نظم کیا ہے تو اس نے ’’وسائل بخشش‘‘کی صورت اختیار کر
لی ہے۔
’وسائل بخشش‘‘ میں حمد اور نعت کے بعد ’’طلب مئے از ساقیء خجستہ پے‘‘ ہے۔
ذکر مولود کے بعد جن عنوانات کے تحت کرامات کو نظم کی جملہ خوبیوں سے مزیّن
کیا گیا ، یہ ہیں؛ ایّام شِیرگی میں روزہ رکھنا۔ ایّام طفلی میں کھیل کی
طرف رغبت کرنا اور ہاتف کی ندا۔ اپنی ولایت کا علم ہونا۔ دایہ کاسوال۔ سفر
بغداد اور ڈاکوؤں کا تائب ہونا۔ غوث پاک کا مرید کون؟۔ مانگ من مانتی منہ
مانگی مرادیں لے گا۔ ابن منصور حلّاج کی امداد۔مجلس وعظ میں حضور کی نگاہ
سے بادلوں کا چھٹنا۔ دیدار کی برکت سے عذاب قبر جاتا رہا۔
مثنوی کی صنف میں کرامات غوث اعظم کے اس بیان کے ساتھ ایک نظم ’’نغمہء
روح‘‘ ہے اور دو مناقب ہیں۔ اور آخر میں سیدی اعلی حضرت فاضل بریلوی کی
نظم معطر ہے۔
’’وسائل بخشش‘‘ کی ساری شاعری محاسنِ شعری کے جلو میں سادگی و پُرکاری کا
اعلی نمونہ ہے۔ |