ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک شہزادہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد تختِ حکومت پر بیٹھا تو اُس نے حاجت مندوں کی امداد کے لیے اپنے خزانے کے دروازے کھلوا دیئے۔جو بھی شخص سوالی بن کر آتا شہزادہ ضرورت کے مطابق اُس کی امداد کرتا ۔ بادشاہ کا یہ رویہ دیکھا تو ایک روز ایک وزیر نے مناسب موقع دیکھ کر خیر خواہی جتانے کے انداز میں کہا حضورِ والا پہلے بادشاہوں نے یہ خزانے بہت توجہ اور دانشمندی سے جمع کئے ہیں۔ انہیں یوں لُٹا دینا مناسب نہیں۔ بادشاہ کو کسی وقت بھی خطرات سے غافل نہیں ہونا چاہیے کیا کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ کیا واقعات پیش آئیں۔ اگر حضورِ والا اپنا سارا خزانہ تقسیم بھی کر دیں تو رعایا کے حصے میں ایک ایک جو کے برابر آئے گا لیکن حضوررعایا کے لوگوں سے ایک ایک جوکے برابر سونا لیں تو حضور کا خزانہ بھر جائے گا۔ بظاہر یہ بات بڑی خیر خواہی کی تھی لیکن شہزادے کو بالکل پسند نہ آئی۔ اُس نے کہا کہ خدا نے مجھے اپنے فضل سے ایک بڑی سلطنت کا وارث بنایا ہے۔میرا یہ کام نہیں کہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگ جاﺅں۔ بادشاہ کا فرض یہ ہے کہ وہ رعایا کو خوشحال بنائے نا کہ خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ جائے۔ اگر عود ڈبے میں بند رہے تو اُ سکا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہاں اگر اُسے آتشِ سوزاں میں جلایا جائے تو تب ہی اُس کی خوشبو اُڑے گی اور پھیلے گی۔ جود و سخا ہی بزرگی کا راستہ ہے۔ اگر دانے کو بوئیں گے تو ہی کھلیان سجے گا ورنہ ویران رہے گا۔اس حکایت میں شیخ سعدی ؒ نے یہ نقطہ بیان کیا ہے کہ سلطنت اور اقتدار کو دوام خزانوں سے نہیں بلکہ لوگوں کو خوشحال بنانے سے ملتا ہے۔ یہ بالکل سطحی سوچ ہے کہ زیادہ مالدار لوگ زیادہ عزت پاتے ہیں اور مال کی قوت سے اُن کا اقتدار مستحکم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت اور عدل وانصاف کے باعث دلوں میں جو محبت پیدا ہوتی ہے وہ اقتدار اور عزت کو دوام بخشتی ہے۔

قارئین! پہلے وقتوں کے اور آج کے وقت کے منصف مزاج لوگوں اور حکمرانوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے ہوئے اقتدار کوعوام اور اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے ایسا نہ کیا اُن کی بادشاہتیں بھی ختم ہو گئیں اور اُ ن کا نام بھی وقت کی دھول میں کہیں گُم ہو کر رہ گیا۔ آج بھی جو لوگ اُٹھ جا اُٹھ اور بہ جا بہ جا کرواتے ہوئے عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں کر رہے کل وہ بھی خاک ہو جائیں گے اور اُن کا نام وقت کی گزرگاہ پر دفن ہو جائے گا۔جبکہ وہ لوگ جنہوں نے عوام کی بھلائی کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے اُنہیں پوری دنیا کہیں ابوبکر صدیق ؓ کے نام سے یاد کرتی ہے اور کہیں عمر فاروقؓ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مذہب کے فرق کے باوجود اُن کے قاعدے اور قوانین کو ”Umar's Law“ کے نام سے یورپ اور پوری دنیا آج بھی سیلوٹ کرتے ہیں۔

قارئین!ہمارے ملک میں 64سالوںسے ایک عجیب رسم چلی آرہی ہے کہ ہر فرمانروا چاہے وہ ملٹری ڈکٹیٹر ہو یا چاہے جمہوریت کے نام پر وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو۔ وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے بالکل درست ہے باقی سب لوگ اُلو کے پٹھے ہیں اور وہ ہی عصرِ حاضر کا شاہین ہے۔غلام محمد سے لے کر آصف علی زرداری تک الا ماشاءاللہ سب لوگوں کی یہی عادت رہی ہے کہ انہو ں نے اپنے ناقدین کو ملک کا باغی اور وطن دشمن قرار دیا ہے اور حتیٰ کہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا کو بھارت کا ایجنٹ تک قرار دے دیا گیا۔ آج بھی جب میڈیا اور اپوزیشن سلیم الطبعی انداز میں جب موجودہ حکومت کی مختلف پالیسز پر مثبت تنقید کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کا مطالبہ کرتے ہیں تو اُنہیں امریکہ، بھارت اور یہودی لابی کا Paidایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے آج کے کالم کا عنوان اس شعر کی مناسبت سے رکھا ہے کہ
اب یہ راز راز نہیں سب اہلِ گلشن جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا

قارئین! ریلوے سے لے کر پی آئی اے تک اور بینکوں سے لے کر اوجی ڈی سی تک جس محکمے میں ہم دیکھتے ہیں درجہ بدرجہ اور سائز بہ سائز مختلف نوعیت کے اُلو اپنے اپنے گلستاں کو اُجاڑنے کے لیے مختلف نوعیت کی حماقتیں کرتے پھر رہے ہیں اور جب میڈیا اُن کی حماقتوں اور مزید حماقتوں کو منظرِ عام پر لاتا ہے تو کہیں تو میڈیا پر ”طاقت کے ذریعے ایمان کے نام پر بے ایمانی“ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کہیں پر ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق انتہائی ڈھٹائی سے دانت نکالتے ہوئے یہ فرمان صادر کیا جاتا ہے کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ اس ملک اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کر رہے ہیں۔ ایسے ایسے محکمے اور ادارے ان لوگوں نے ڈبوئے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے اور بقول غالب کہنا پڑتا ہے۔
پھر مجھے دیدئہ تر یاد آیا
دل جگر تشنہءفریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذرِ داماندگی اے حسرتِ دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آتا ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

قارئین! آزادکشمیر میں اس وقت عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنے والے اہم ترین شعبے محکمہ صحت میں طوفان برپا ہے۔آج پورے آزادکشمیر کے نوجوان ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں اور اُن کی ہڑتال کا آج آٹھواں دن ہے اُن کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اُن کی تنخواہیں اور مراعات پنجاب کے ڈاکٹرز کے مساوی کی جائیں اور پورے پاکستان میں ڈاکٹرز کو جو مراعات دی جاری رہی ہیں وہی اُن کو دی جائیں۔ اس پر نا تو حکومت حرکت میں آرہی ہے اور نہ ہی بقول خود نوڈیرو کے شہداءکے مجاور وزیر اعظم کے انصاف کی زنجیر نے کسی قسم کی گھنٹی بجائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور لاکھوں کشمیری صحت کی سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
وکیل صاحب گھر داخل ہوئے تو بیگم سے کہنے لگے بیگم آج ذرا رقم اور زیورات وغیرہ سنبھال کر رکھنا ۔ بیوی نے کہا وہ کیوں وکیل صاحب کہنے لگے در اصل میں نے آج ایک عادی چور کو رہائی دلوائی ہے اور وہ آج رات میرا شکریہ ادا کرنے آئے گا۔

قارئین! جب عادی چور محکموں کے سربراہ اور حکمران بن جائیں تو اُس ملک اور اُس ملک کی عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374223 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More