سنجیدہ ملکی حالات

آئے دن کا موضوع ہے ہمارے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور نسلی حالات ٹھیک کیوں نہیں ہوتے۔ اس کے اسباب پر بات ہوتی ضرور ہے، مرض کی تشخیص کی کوشش بھی ضرور ہوتی ہے، باتوں کے ڈھیر پر ڈھیر لگا دئے جاتے ہیں۔ مگر جب پھونک مارتے ہیں تو نجانے علم و فضیلت کے اس ڈھیر سے صرف راکھ کیوں اڑتی ہے اور ایسی اڑتی ہے کہ ہماری آنکھوں میں پڑ کر انہیں اور بھی اندھا کر دیتی ہے اور مرض نظروں میں آئے بغیر بڑھتا ہی جا تا ہے۔ عام سی بات ہے تشخیص کے بغیر مرض کا علاج ناممکن ہے۔ تشخیص کرنا ایک بات اور اس کو مان لینا ایک اور بات ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کینسر ہے، مریض کہہ رہا ہے نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بس چھوٹا موٹا السر ہے۔ علاج کیسے ہو گا۔ دوائی کینسر کی بھی ہو گی تو مریض بھاگ بھاگ کر السر کی دوائی ٹھونسے گا۔ علاج کیسے ہو گا؟میرا میل باکس، فیس باکس کا میسج باکس ان سوالات سے بھرا رہتا ہے۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے کب شناخت بنا پائیں گے؟گاڑی کی alignment کب ٹھیک ہو گی۔ کبھی کبھی بڑی حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عام عقل و فہم والا انسان ایسے ایسے سیاسی، تاریخی، معاشرتی، جغرافیائی اور معاشی تجزیے پیش کرتا ہے کہ لگتا ہے پاکستان کی سرزمین سوائے دانشور، معاشی تجزیہ نگار اور تاریخ دان پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کر رہی۔ بڑے جامع، پرمغز اور مکمل تبصرے۔ بڑے بڑے نمبرز کے ساتھ لوگ بات کرتے ہیں۔ inflation ،deflation، سے لے کر ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر پر ایک تفصیلی جائزہ، مارشل لا اور جمہوریت پر سیر حاصل گفتگو، عیاش حکمرانوں کے گھناؤنےکرتوت،ڈکٹیٹرز اور جمہوری لیڈروں کا قوم کے ساتھ کیا گیا گینگ ریپ، شوگر ملز اور سیمنٹ کے سیکنڈلز، ٹیکس چوری اور کرپشن کے اعداد و شمار۔ سب کچھ ایک عام سے عام آدمی انگلیوں کی پوروں پر گن کر بتا دیتا ہے۔ کیا یہ سب مرض ہے؟ نہیں یہ مرض ہوتے تو کوئی نہ کوئی انسان علاج بھی کر دیتا۔ مرض یہ ہیں ہی نہیں۔ یہ تو بیماری کی شاخیں ہیں، جڑ کیا ہے۔ جڑ رویے ہوتے ہیں، عادتیں ہوتی ہیں اور خصلتیں ہوتی ہیں۔ ہم بڑی مضطرب خلقت ہیں۔ ہمارے میں اضطراب کیوں ہے؟ ہمارے بڑوں نے تو حرام سے اجتناب کیا ہو گا۔ ورنہ تو ہم اسے حرام کھانے کے کوٹے میں ڈال دیتے۔وجوہات پر بہت دیر غور کرنے کے بعد لوگوں کے رویے دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ ہمارے دلوں میں نفرتیں بہت ہیں۔ تقسیم ہند نے برصغیر کی اس قوم کے دلوں کو دو ٹکڑوں میں کاٹ کر دنیا میں جینے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ اس حالت میں کوئی جئے بھی تو کیا جئے۔ وہ قوم اس صدمے، اس کرب، اس خود ترسی اور دوسرے سے نفرت کی سائیکی سے باہر نہیں آسکی۔ گورے، ہندو اور سکھ سے نفرت بوئی جاتی ہے۔ اور یہ نفرت منفی قوت بن کر جسم میں پھیل تو رہی ہے، مگر ہندو اور سکھ کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادہ اچھا اور زیادہ کار آمد بنانا سکھانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر ان سب سے نفرت کر کے ایک مثبت زندگی اگتی تو یہ نفرت قابلِ پرورش تھی۔ اب اتنی محنت سے اسے کیوں پالا جا رہا ہے جب کہ یہ منفی قوت بن کر پوری قوم کے جسم کو اپاہج کر رہی ہے۔ اس نفرت کو یا تو ختم ہونے کی ضرورت ہے یا اس پوٹنشیل انرجی کو اپنی شکل کائنٹک انرجی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ نفرت ساکن کر رہی ہے۔ قوم کے جسم کے اندر اس کی تشخیص کر کے اس کے علاج کی ضرورت ہے۔ ہندو سکھ سے نفرت کرتے کرتے ابھی تھکے نہیں تھے کہ پھر فرقوں اور سیاسی جماعتوں میں نفرت کی سیاست بھڑک اٹھی۔ ایک سے محبت کرنے کے لئے دوسرے سے نفرت ضروری جز قرار پائی۔ کہہ دیا گیا مجھ سے محبت کرنی ہے تو جاﺅ پہلے دوسرے فرقے یا دوسری جماعت یا میرے دشمن انسان سے جی بھر کر نفرت کر کے آﺅ۔ قوم کو سب سے محبت کی حالت میں نہیں چھوڑا گیا۔ اس کی محبت لینے کے لئے اس کے نفرت کے جذبے کو پنکھا جھل جھل کر ہوا دی گئی۔ پھر یوں ہوا انسانوں کا انسانوں سے صرف نفرت اور بدگمانی کا رشتہ رہ گیا۔ یہ بدگمانی نفرت سے نکلی ایک اور منفی قوت ہے۔برصغیر میں بسنے والی اس قوم کو بدگمان کر دیا گیا ہے۔ پہلے سکھ کرپان سے چھرا نکال کر وار کرتا دکھایا گیا اور دیکھا گیا، بعد میں فرقوں اور سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے لئے بغل میں چھریاں داب لیں۔ لوگ بدگمانی میں گندھ گئے۔ کوئی کسی کا سگا نہیں لگتا۔ ہر کوئی دوسرے کی جونک بن گیا۔ خون چوسا جانے لگا، ہر کوئی خود تو خون چوسنا چاہتا ہے مگر دوسرے سے اپنی کھال بچانا چاہتا ہے۔ یہاں بدگمانی کے ساتھ نفسا نفسی شامل ہو گئی۔ دوسرے کے جھونپڑے میں جلتی آگ دیکھ کر کوئی آگ بجھانے آگے نہیں بڑھتا، کوئی آگے بڑھتا بھی ہے تو وہاں سے آگ اٹھا کر اپنے گھر کے چولہے میں ڈالنے کو۔لوٹ کھسوٹ کا بازار کبھی اتنا گرم نہ ہوتا اگر بے حسی ہمارے سامنے یوں برہنہ نہ ناچتی پھرتی، احساس بہت ساری ہونے یا نہ ہونے والی چیزوں میں دخل انداز ہو جاتا ہے۔ احساس کی عدم موجودگی صاف بہاؤ کے ساتھ ساتھ گندے نالوں کے آگے بھی بند نہیں باندھ سکتی۔ سڑاند پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اس سے سب سے گندی بیماری پھوٹتی ہے حسد کی۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ جو تحقیق کے مطابق چھ مہینے کے بچے میں پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر یہ اس قوم کے لئے جو آگے ہی بے تحاشا بیماریوں کا شکار ہے۔ انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے کیونکہ حسد صرف ایک جذبہ نہیں رہ جاتا، سب سے بڑی منفی قوت بن کر قوم کو، اس کے افراد کو نگل رہا ہے۔ چاہے پوری قوم پانی میں غرق ہو جائے یا آسمان سے کیڑے برسنے لگیں یا دلوں میں حسد اگ آئے۔ ایک ہی جیسے عذاب ہیں۔ براعظم ایشیاءکے اس ملک میں حسد کی بیماری پھوٹ پڑی ہے اب یہ Leoante's or othello والا رومان بھرا جذبہ نہیں رہا جو محبت کے چھن جانے کے خوف سے اگتا ہے۔اندھی محبت کا اسقاط کر کے اندھا حسد پیدا ہو رہا ہے۔ دلوں میں کینسر کی طرح، جگر میں السر کی طرح، آنکھوں میں یرقان کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ بیماریوں نے خود اعتمادی بھی چھین لی ہے۔ حسد ایک اوسط شخص کا جنئیس آدمی کو خراجِ تحسین ہوتا ہے۔ ایشیاء کے اس ملک کے باسی اپنی اوسط سے نیچے گری ذہنی سطح، نفرت میں ڈھکے جسم، نفسا نفسی کی دھکم پیل، بدگمانیوں کے سانپوں میں پلنے والے، خود اعتمادی سے ہاتھ دھونے والے، اب حسد کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے۔ حسد جو دو افراد، دو جماعتوں، دو شہروں، دو ملکوں اور دو قوموں کے درمیاں کسی بھی قسم کے تقابل کے بعد پیدا ہوتا، یہاں بغیر کسی مقابلے کے ٹھہرے پانی پر کائی کی طرح جم رہا ہے۔ جس طرح ایک ذہین، ہشیار اور خوداعتماد انسان حسد کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے اسی طرح ایک کاہل، جاہل اور نفرت سے بھرا انسان حسد نہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ کیوں اس خطے کے لوگ جہاں بھی چلے جائیں ایک دوسرے سے، دوسروں سے، حسد کرنے سے باز نہیں آتے۔ کائی کی سبز تہ ان پر بری طرح سے جم گئی ہے۔ ان کی ساری کی ساری بیماریاں ایک نقطے پر مرکوز ہو کر ناچ رہی ہیں اور زہر پورے جسم میں پھیل رہا ہے۔ neuratic insecurity میں جکڑے لوگ عام سطح والا حسد کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کا حسد بڑا زہریلا ہے۔ یہ منفی قوت یوں بن گیا ہے کہ ہر انسان اپنی ذات بھول گیا ہے۔ اسے کیا چاہیئے، اسے کیا کرنا ہے اور وہ یہ کیوں کر رہا ہے۔ پوری بصارت، بصیرت اور گویائی اس بات پر خرچ ہوتی ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے، کیوں کر رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے۔اپنی ذات، اپنی خواہش اور اپنے خوابوں کو بھول کر لوگ ایک دوسرے کی ذات میں گھس رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی خواہش اور خواب جینے، انہیں پکڑنے اور انہیں پورا کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنی ذات بھولنا اتنے خطرے کی بات نہ ہوتا مگر یہ قریب المرگ لوگ اپنے خواب بھول گئے ہیں۔ اس سے بڑا خطرہ کسی انسان یا قوم کو کیا ہو گا۔ بھلا کوئی نارمل انسان، نارمل قوم ایک دوسرے کے خواب جیتی ہے؟ یہ سفاک قوم ایک دوسرے کی آنکھوں سے خواب چھین کر اسے اپنا بنا کر جینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے بھی کوئی جی سکتا ہے اور کوئی جئے بھی تو کتنے دن۔ اس اندھے حسد نے ذات، خواب اور خواہش سب چھین لئے۔ منفی قوتوں نے مل کر اس قوم کو ایسے ذاتی، سماجی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران سے دوچار کر دیا ہے کہ مثبت قوتوں کی ذاتی اور قومی، ہر سطح پر بڑی گہری موت واقع ہو چکی ہے۔ غلط سلط تشخیص کر کے غلط سلط علاج کے نتیجے میں، اصل بیماری بہت اندر تک اتر گئی ہے۔ کوئی تو رک کر سوچے۔ سولہ کروڑ لوگ نہ سہی، ایک کروڑ ہی سہی، ایک کروڑ نہ سہی ایک لاکھ ہی سہی، ایک ہزار ہی سہی، ایک سو ہی سہی۔ اور چاہے ایک ہی سہی۔ کوئی تو سوچے۔ منفی قوت کو کوئی تو مثبت میں بدل ڈالے۔(پی ایل آئی)
Sahir Qureshi
About the Author: Sahir Qureshi Read More Articles by Sahir Qureshi: 34 Articles with 40435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.