کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہند-پاک
کی تاریخ میں آج تک کوئی وزیر ، وزیر اعلٰی یا وزیر اعظم عمر کی وجہ سے
ریٹائر نہیں ہوتے؟نہیں ‘ قطعی نہیں بلکہ اتنا ضرورہوتا ہے کہ دیگر شعبوں سے
ریٹائر لوگ سیاسی لیڈر یا وزیر بن جاتے ہیں جبکہ لیڈر یا وزیر بنتے ہی وہ
فٹFit ہو جاتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے کوئی شخص کسی دفتر ، ادارے یا
فیکٹری میں کام کرنے کے قابل نہیں رہتا اور ریٹائر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے
برعکس پارلیمنٹ یا وزارت کونسل میں عمر کوئی رکاوٹ نہیں۔ بھلے ہی ملازم ایک
خاص عمر کے بعد دفتر نہیں چلا سکتا ، چپراسی ایک فائل کا بوجھ نہیں اٹھا
سکتا ، انجینئر ایک پل نہیں بنوا سکتا ہو لیکن وزیر یا وزیر اعلٰی بن کرایک
لیڈر حکومت ضرور چلا سکتا ہے۔ پوری ریاست کے عوام کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
ایک نہیں سینکڑوں پل ،فلائی وور اور اسٹیڈیم تعمیر کروا سکتا ہے جبکہ
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی سیاست سے کنارہ لے
لیں گی۔ بھلے ہی اوباما پھر سے پریزیڈینٹ منتخب لئے جائیں لیکن وہ وزیر
نہیں بننا چاہتیں کیونکہ وہ بیس سال سے سیاست کرتے کرتے تھک گئی ہیں۔ اب
ذرا اپنے ملک کی ایک خبر پر نظر ڈالے۔ 86 سال کے سیاسی لیڈر نارائن دت
تیواری نے کہا ہے کہ وہ پھر سے وزیر اعلٰی بننے کیلئے تیار ہیں۔ اگر انہیں
دو سال کے لئے وزارت اعلیٰ کی کرسی دے دی جائے تو وہ اتراکھنڈ کو چمکا کر
رکھ دیں گے۔ ان دو خبروں سے ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے سیاستدانوں کے موقف
میں کتناواضح فرق ہے۔دراصل اپنی کرسیوں پر واپس تو وہ آتا ہے جو کبھی گیا
ہو۔ وہ توذہنی طور پر اقتدار کی چوکھٹ سے چمٹے ہی رہے ہیں۔ اس فقیر کی طرح
جو کسی رئیس کی ڈیوڑھی پر آکر بیٹھ جاتا ہے اور صدا لگاتا ہے کہ اب تو میں
یہاں سے جھولی بھرے بغیر اٹھوں گانہیں۔ دیتے ہو دو ورنہ میں تو یہیں پڑا
ہوں!
ہمارے لیڈر کبھی ریٹائر نہیں ہوتے جبکہ بیرون ممالک میں ریٹائرہوجاتے
ہیںیہی وجہ ہے کہ ملک کے اخبارات میں نہ تو کبھی یہ خبر شائع ہوئی ہے اور
نہ ہی دیگر ذرائع سے کسی نے کبھی سنا ہوگا کہ کوئی وزیر یا وزیر اعلٰی
ریٹائر ہو گیا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لیڈراور وزیر نہ توٹائر Tireیا
تھکتے ہیں اور نہ ہی ریٹائر۔ ہاں کبھی کبھار ریٹائرڈ ہرٹ ضرور ہو جاتے ہیں۔
وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں۔ ریٹائرڈ ہرٹ ہونے کا تعلق عمر سے قطعی نہیں ہے۔
مثلا ششی تھرور یا اے راجہ بھری جوانی میں ریٹائرڈ ہرٹ ہو گئے۔ لیڈر کے
عہدے سے نہیں وزیر کے عہدے سے۔ ریٹائرڈ ہرٹ ہونے کا ایک فائدہ ہے۔ وہ
دوبارہ وزیر کے عہدے پر بیٹنگ کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر کرے گا کہ
اس کی چوٹ کتنی گہری ہے۔ چوٹ کی گہرائی زخم یا مرض کی نزاکت سے طے نہیں
ہوتی۔
ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی چوٹ کی گہرائی عوام کی یادداشت پر منحصر
ہوتی ہے۔ جس دن عوام بھول جائیں گے یا پارٹی کو محسوس ہو گا کہ عوام بھول
گئے ہیں‘ اسی دن ان کی واپسی ہو جائے گی۔ اس کا عمر سے کوئی لینا دینا
نہیں۔ عام ملازمت میں ریٹائرمنٹ کی متعینہ عمرکی حد کو کب کا پار کر لینے
والے یدیورپا کے بارے میں بھی کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ بی جے
پی نے انہیں کرناٹک کے وزیر اعلٰی کے عہدے سے ریٹائر کر دیا ہے۔ وہ بھلے ہی
عمرسیدہ لوگوں شمار کئے جانے لگے ہوں لیکن سیاست کے قوانین و ضوابط کے
مطابق ابھی ریٹائر نہیں ہو سکتے۔ یعنی کسی بھی وقت ان کی دوبارہ تاجپوشی ہو
سکتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دفتر میں کام کر نے والا ایک آدمی ساٹھ کی عمر
تک پہنچتے ہی کیوں بوڑھا ہو جاتا ہے ‘تھک جاتا ہے یا تھکاہوا اور مضمحل
تسلیم کرلیا جاتا ہے لیکن لیڈر کبھی سٹھیاتے ہی نہیں بلکہ 80سے90 کی عمر تک
کی ’خدمت خلق ‘میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمر ملک کی خدمت
کرنے کا’حق‘ صرف انہی کا ہے۔ بھلے ہی انتہائی سنجیدہ اور نازک مسائل پر بحث
کے دوران یہ معمر قائدین پارلیمنٹ میں اونگھتے رہیں ، بھلے ہی ان کی وجہ سے
پارلیمنٹ کے بارہ بج جائیں لیکن آج تک ملک میں کبھی اس بات پر بحث کی ضرورت
تک نہیں محسوس کی گئی کہ انھیں کام سے کب سبکدوشی دے دینی چاہئے۔
سیاسی پارٹیاں نوجوانوں کو لانے کی بات تو کرتی رہتی ہیں لیکن نوجوان تب
اسی صورت میں آگے آسکیں گے جب عمر رسیدہ لوگ ان کیلئے جگہ چھوڑیں گے۔ حیرت
کی بات تو یہ بھی ہے کہ مختلف پارٹیوں کے نوجوان رہنماؤں نے بھی اس طرح
کاکبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ممکن ہے وہ اسے اپنے مستقبل کیلئے مہلک
سمجھتے ہوں۔ انہیں لگتا ہوگا کہ کون خطرے مول لے۔ دراصل اس سلسلے میںتو
کوئی سینئر لیڈر ہی پیش رفت کر سکتا ہے۔بے غیرتی، بے شرمی کی بھی آخر کوئی
حد ہوتی ہے لیکن موقع پرست ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ شرمناک کردار ہے ان کا
جن کے لب خوداپنے آپ کو حق پرست کہتے نہیں سوکھتے لیکن چند مہربان ہیں
جوکوئی لیپا پوتی نہیں کرتے۔ |