لفظ یوں تو شاید لوگوں کی نظر میں وقعت نہ
رکھتے ہوںتبھی منہ سے کہہ دیا جاتا ہے اور ان کی حقیقت کی طرف دھیان نہیں
دیا جاتا لیکن لفظ کی معنوی گہرائی ، کمزوری اور مضبوطی کا زندگیوں پر بڑا
اثر ہوتا ہے اس سے زندگیاں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں یہی چار الفاظ
کا مجموعہ دو رشتوں کو قریب لاتا ہے ،اور انہیں چار الفاظ سے خوشگوار
زندگیوں کا بندھن ٹوٹتا ہے، خیر الفاظ الفاظ ہی ہوتے ہیں ،انہیں الفاظ میں
انسانیت سمٹی ہوتی ہے ،الفاظ سے ہی رشتوں کی پہچان ہوتی ہے ،انسان وحیوان
کی تمیز ہوتی ہے ،آج اگر دنیا چاند پر پہنچنے کے بعدزمین سے مستقل چاند پر
بسیرے کر لے تب بھی اگر انسانیت کے رشتوں کی قدر کھو دیتی ہے وہ انسانیت
نہیں حیوانیت سے بدتر کہلائے گی ۔
انسانوں سے یہ درد ل کی صفت اعلیٰ ختم کو کردیا جائے تو ”انسان“نہیں
”درندہ“ بولا جائے گا ،انہیں الفاظ پر مبنی آج کل بڑے بڑے سائن بورڈ ہر دو
سرے شخص کو خود کی طرف متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر تمام سیاسی اور
مذہبی جماعتوں کی فہرست بنائی جائے تو ہر دوسری جماعت ان الفاظ کا استعمال
کچھ عرصہ سے کثرت سے کرتی دکھائی دیتی ہے ،”دفاع پاکستان “ اس عنوان کی
معنویت پس وپیش منظر میں جانے کے بجائے دفاع پاکستان پر آج قلم اٹھانے کے
بجائے ”قوم کی بیٹی“ کا لقب پانے والی ”عافیہ صدیقی“ کی بات کرتے ہیں ۔
عافیہ صدیقی کو 85سال کی قید سنائی گئی ہم خاموش رہے بولے تو بھی وقتی اور
اخباری بیانات کی حد تک ،بنا جرم کے 85سال کی سزا کا پیغام ہم نے سن کر بھی
دیدہ ودرہن قاتل ریمنڈ ڈیوس ہم نے بحفاظت ان کے حوالے کیا ۔انسانیت کے نام
پر بدنما داغ قوم کی اس عافیہ کو سپرد کرتا ہے ،9سال تک ہر ادارے سے ٹکراتے
ہوئے سلامی کے ساتھ رخصت ہوتا ہے ،مگر بد قسمتی سے اس کے بعد بھی اس کی
پالیسی پر عمل پیرا ”سب پہ بھاری“اپنی بیوی کے قاتل تو بتا نہ سکا ”قوم“ کی
بیٹی کو کیسے لاتا؟
ایسے حالات میں کہیں سے ہلکی ہلکی آوازیں اٹھیں کہیں سے پرزور احتجاج ہوئے
،مگر وقتی غبارے کی ہوا ،کنویں کے مینڈک کے کردار کے سواءاور کر بھی کیا
سکتے ہیں،نوجوانوں نے خصوصاً جمعیت طلبہ اسلام نے عافیہ کی بات جس انداز
میں کی اس کا کریڈٹ بہرحال ان کو جاتا ہے ،مگر ”نہ ڈر منزل کی دوری سے قدم
آگے بڑھائے چلا چل ،“ ابھی منزل کا تعین کر کے چلنے کی ضرورت تھی کہ وہ
قافلے بھی رک گئے ۔
پاکستان کا دفاع بھی ضروری ہے مگر یہ ذہن میں رہے پاکستان قوم کا نام ہے
،اور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی ہے ،اور دفاع کی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ
دفاع غیرت مند کا شیوہ ہے ،بزدل کا دفاع سے کوئی یارہ نہیں ،سیاسی اور
مذہبی جماعتوں کی نمائندہ ”دفاع پاکستان کونسل “بھی اس وقت دفاع کے خوبصورت
اور جذباتیت سے معمور سلوگن سے ملک کے طول وعرض میں میڈیا کی نہیں عوام کی
طاقت کے مظاہرے یقینا کر چکی ہے ،اور کچھ ہی دنوں بعد 12فروری کو ”سونامی
“اور ”زلزلے“ اور مولانا فضل الرحمن کی اب تک سب سے بڑی زندہ آباد کانفرنس
کے بعد اسی مقام پر دفاع پاکستان کے کارواں بھی آنے کو ہیں ،اور اس موقع کو
غنیمت جانتے ہوئے ،تمام جماعتوں کے قائدین کیا ہی خوب ہوتا کہ اپنے اپنے
بینرز، سائن بورڈ اور اشتہارات میں عافیہ صدیقی کی عافیت کا بھی ذکر کرتے ۔
اقبالیات کے طالب علم جانتے ہیں ،اقبال ایشیاءکے امن کو افغانستان کے
کوہساروں کے امن سے تشبیہ دیتے تھے،قوم کی بیٹی پر 85سال کی سزا کا اعلان
کرنے والا اسی افغانستان میں داخل ہونے کو تو بہت سے راستوں سے داخل ہوا
تھا ،مگر نکلنے کا راستہ کوئی بھی نہیں مل رہا ۔مجبوراً ملا کے قدموں میں
ڈھیر ہوناپڑرہا ہے ،یہ وقت ہے کہ مذہبی اور سیاسی قائدین ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کی رہائی کے لیے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے
ٹھوس حکمت عملی طے کریں۔حکومت کو اس امر پر مجبور کریں ،وزیر اعظم کا دورہ
قطر بہت سارے نشانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پچھلے دنوں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی امریکی مظالم کی وجہ
سے کینسر کی مریضہ بن چکی ہے ،ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق اگر اس کا علاج صحیح
طریقے سے نہ ہوا تو عافیہ چھ ماہ تک ہی زندہ رہ پائے گی ،اس رپورٹ میں
کینسر کی حد تک تو بات درست ہے مگر اس کے حاملہ ہونے کی خبر محض جھوٹ پر
مبنی ہے۔خدارا دفاع کے نام کی لاج رکھیے ،مذہب کے پیشواﺅں! عافیہ کو قوم کی
نہیں اپنی بیٹی کی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنا فرض ادا کیجئے ،عافیہ ابھی زندہ
ہے ورنہ ارفع کے چلے جانے پر ملتان کا شاہ بھی نو دن بعد تعزیت کرتے ہوئے
ڈاک ٹکٹ کا اعلان کرتا ہے،کیوں کہ آپ اپنی اپنی جماعتوں کے لیڈر ہیں اور
دفاع پاکستان کے مضبوط نام کے ساتھ ساتھ لیڈر کی یہ صفت بھی ذہن میں آتی ہے
کہ لیڈر کی نظر چیتے کی اور دل شیر کا ہوتا ہے ۔عافیہ بزبان حال آپ سے سوال
کررہی ہے ۔
میرا جرم کیا ہے میرا مدفن بتا دو
پابندِ سلاسل ہوں دفاع کا مطلب تو بتادو |