ٍِِِّنظریہ اور ہم

َ” نظریہ “ میری نظر میں ایک سوچ ، یقین ، ایک ماخذیا بنیادی روح ہوا کرتا ہے جس کا کوئی جسم نہیں نہ روح ہے نہ ہی کوئی طبعی وجود مگر کسی بھی قوم، ملک، جماعت یا تنظیم کی بنیاد اور کرداروں کے لیئے روحانی ماخذ ہوا کرتا ہے۔ وہ ضابطہ ہوا کرتا ہے جس کو بنیاد مان کر ہی کوئی شخص، ادارہ، تنظیم ملک و قوم یا جماعت اپنے معاملات کو چلاسکتی ہے کیونکہ یہی اس معاشرتی گروہ کو یکجا کرکے ایک منظم شکل عطا کرتا ہے۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ا نسانی ترقی میں انسانوں کی گروہ در گروہ اجتماعی کوشش کا اہم ترین کردار ہے۔ چاہے وہ فتوحات ہوں، ایجادات ہوں، معاشرت وہ معاملات ہوں یا کوئی بھی دوسرا میدان عمل انسان تنہا کوئی بھی ترقی کی اس معراج کا خالق نہیں بلکہ منظم گروہوں کی اجتماعی کاوشیں ہی اسے ممکن کرسکیں۔

کسی بھی انجمن، گروہ، جماعت، قبیلے، تنظیم، قوم، ملک یا ریاست کی ترقی کی ترقی بلاشبہ اس کے اندر موجود افراد کی صلاحیتوں سے ہی ممکن ہوا کرتی ہے مگر اس سے اہم بھی یہ بات ہوا کرتی ہے کہ اس معاشرتی گروہ کے افراد اپنے بنیادی ماخذ یعنی ”نظریہ“ کے کتنے پابند اور راسم العقائد ہیں۔

یہاں اس بات کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ اگر ایک منتشر قوم کے محض چند افراد ہی ہنرمند ہیں مگر اپنی قوم سے مایوس ہو کر کسی دوسری قوم یا گروہ سے جا ملتے ہیں تو مندرجہ بالا قوم کو ترقی کے لیئے اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک قدرت دوبارہ انہیں ایسے ہی ہنر مند مگر اپنی قوم وگروہ سے محبت کرنے والے قابل عمل افراد عطا نہ کردے۔

دوسری صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ ایک پسماندہ قوم کے چند قدرتی طور پر صلاحیت یافتہ افراد جو اپنی بنیاد سے محبت رکھتے ہیں وہ اپنی قوم کو انتشار اور بے عملی سے نکالنے کے لیئے قدرت کی جانب سے عطا کردہ صلاحیتوں کو استعمال کریں اور منتشر نظریات کو یکجا کرکے قوم کو ان پر اجماع پر مجبور کردیں۔

تاریخ عالم میں ایسی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں کہ کتنی ہی قوموں نے اپنی بنیادی نظریات کو فراموش کرکے خود کو تباہ کیا اور پھر کتنی بار عظیم انسانوں نے نظریہ عطا کرکے معمولی گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کو یکجاءکرکے عظیم قومیں ترتیب دی۔ کیا سکندراعظم محض اپنی طاقت کے بل پر یونانیوں کو ہندوستان تک فاتح کی حیثیت سے لے آیا ؟ جو خود ایک معمولی سے یونانی بادشاہت کا بمشکل مالک بنا تھا ؟ کیا چندرگپت موریہ جو ایک معمولی کسان کا بیٹا تھا اتفاقاً ہی ہندوستان کی سب سے بڑی ہندوسلطنت کا بانی بن گیا ؟ کیا عرب کی بُدو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر آدھی دنیا فتح کر گئے ؟ کیا ترکوں کی جہالت نے انہیں تاریخ عالم کی سب سے تعلیم یافتہ ریاست پر فتح دلوا دی ؟ ان سب سوالوں کا جواب محض ایک لفظ ہے ۔۔۔ ”نظریہ “ جو خون میں شامل ہوکر رگوں میں دوڑتا ہے اور انسان کو عمل کی اس معراج پر لے جاتا ہے جہاں رضائے الٰہی اس کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے تیار رہتی ہے۔

یہ ”نظریہ“ ہی تھا جس نے آپس میں برسرپیکار یونانیوں کو یہ سوچ عطا کی کہ تم ”بہترین“ ہو آﺅ اور دنیا کو فتح کرلو۔۔۔ سکندراعظم نے اس نظریے کے تحت آدھی دنیا کو زیر کرلیا۔۔ یہی سوچ چندرگیت نے استعمال کیا ور برہمن راج کی عظیم سلطنت قائم کی۔

اسلام کے ظہور کے بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے اَن پڑھ جاہل اور اپنے وقت کی کمزور ترین لوگوں کو اسلام کی شکل میں وہ نظریہ عطا کردیا جس نے روم وفارس کے محلات فتح کیئے وہ انتہا عطا کی کہ خود قدرت ان کی خواہشات کو پایہ تکمیل پہنچاتی نظر آتی کہ محض چند ہزار افراد کو لے کر طارق اسپین کے ساحل پر اترتے ہیں اور اپنی کشتیاں جلا دیتے ہیں کہ یا تو ہنسپانیہ مسلمانوں کا ہوا یا ہم سب شہید قدرت نے بلاشبہ مسلمانوں کا ساتھ دیا مگر یہی مسلمانوں کی اولادیں اگر آج رسوا ہیں تو یاد کریں کہ طارق، خالدؓ، ابو عبیدہؓ، علیؓ، ٹیپو سلطان، غوری، بابر، غوری ہمارے جَدامجد محض مسلمان ہی نہ تھے بلکہ راسخ ا لعقائد بھی تھے اور ان کے خون میں ان کا نظریہ گردش کرکے انہیں غیرت وشجاعت عطا کرتا تھا۔

وہ بھی مسلم ہی تھے جنہیں قدرت نے جاہل ترکوں کے سامنے رسواکیا۔ وہ بغداد جو علم و حرفت میں عجوبہ عالم تھا چنگیز و ہلاکو خان کے پیروں تلے روندھا گیا کیوں کہ ”نظریہ“ جاہلوں کا پکا تھا۔ عقل مند اور ماہرین کی رائے یہ تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ جناب وہ تو پرانے وقت تھے تلواروں اور تیروں کی لڑائی تھی جب جوش اور جسمانی قوت سے جنگیں فتح کی جاتی تھی۔ تو ان کے لیئے یہ جواب کہ حضرت جنگیں تو آج بھی جذبات اور ہمت وجرتّ سے ہی لڑی جاتی ہیں اور کل بھی منظر یہی تھا افغان طالبان کی مثال زندہ نظیر ہے، مجاہدین فلسطین، کشمیر آپ کے نظریات سے بے بہرہ اور راسخ ا لعقائد ہیں انہیں موجودہ نظام کی وہ اشکال معلوم نہیں جس میں غیر مر ض غلامی کو آزادی قراردیا جاتا ہے (Coexisting Peace)

پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمن قوم غلام بن گئیں اور شدید معاشی بدحالی اور معاشرتی بے چینی کا شکار ہوگئی مگر جلد ہی جناب عالی مقام سراڈولف ہٹلر نے نہ صرف انہیں یکجا کیا بلکہ ایک عظیم فاتح قوم کا روپ دیا اور محض چند سالوں میں ہٹلر نے جرمنی کو آدھے یورپ تک محیط کردیا بلکہ ایشیا وا فریقہ کے ممالک تک وسعت دینے لگا جسے بہ مشکل اتحادیوں نے روکا۔

چین ایک سوئی ہوئی مردہ ونشے کی عادی قوم تھی۔ وسائل کی کمی اور مسائل وآبادی کا انبار تھا جسے ان کے عظیم قائد ماﺅزے تنگ نے یوں سنبھالا کہ محض چند سالوں میں بنا کوئی جنگ لڑے ”چین“ ایک معاشی سپر پاور بن چکا ہے۔

بات واضح ہے کہ نظریات ہی معاشرتی معاشی، اقتسادی، فوجی یا مجموعی ترقی کا باعث ہوتے ہیں اس سے رد گردانی قوموں کو تقسیم در تقسیم کیا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کا نظریہ اسلام ہے جسے ہمارے آباﺅ اجداد نے انتہائی قلیل مدت میں محض مذہبی بنیاد پر حاصل کیا۔ جب تک اس ملک کو اس کے بنیادی اساس پر کسی حد تک قائم رکھا گیا قوم یکجا رہی اور نصرت خداوندی بھی حاصل رہی۔ 1948ءمیں جنگ کا سامنا بغیر مناسب فوج و ہتھیار کے کیا اور اللہ کی مدد سے نہ صرف کامیابی نصیب ہوئی بلکہ گلگت بلتستان، کشمیر کا علاقہ وچترال وغیرہ بھی آزاد کروائے گئے اور پاکستان سے الحاق بھی کیا گیا۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گودوں سے قطار اندر قطار اب بھی

یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی اپنے نظریہ پر ہمت اور غیرت کے ساتھ ڈٹے رہے، شجاعت کا مظاہرہ کیا تو اللہ کی غیبی مدد حاصل ہوئی۔ جب قومیں اپنے وجود سے غافل ہوجاتی ہیں تو باہمی تنازعات یا شخصی جدوجہد کا آغاز ہوا کرتا ہے اور اس میں بسنے والے ایک قوم نہیں کئی گروہ بن جایا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوا۔ اسلام کے نام پر پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے برصغیر میں محض ”مسلمان“ قوم کا نعرہ بلند ہوا۔ اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی ریاست کا مطالبہ تھا، مگر یہی ریاست بنی اور باہمی لوٹ کھسوٹ کا آغاز ہوا تو مسلمان قوم بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچ، پختون بن گئی اور 1971 میں بنگال ایک قومی ریاست بنگلہ دیش بن گیا کیوں کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کمزور کردی گئی تھی۔

آج بھی وہ ہی حالات مملکت کی سلامتی کے لیئے خطرہ بنے ہوئے ہیں کیوں کہ حکومت اور انتظامیہ خارجہ امور ہوں یا داخلہ امور انھیں چلانے کے لیئے وقتی وسائل اور بیرونی احکامات کیئے جارہے ہیں، اور ہم فراموش کرچکے ہیں کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ہمارے ایوانوں میں براجمان ہر شخص راہِ حیات سے فرار حاصل کرنا چاہتا اور واشنگٹن سے تعلقات کا خواہاں ہے۔ جسے یہ تسلیم کرلیا ہو کہ ”آقاﺅں“ کے بغیر اسلام آباد آمد ممکن ہی نہیں !

ان کی جنگ میں اپنے 35,000 (حکومتی ذرائع کے مطابق) افراد کی شہادت کے باوجود اربوں ڈالروں کا نقصان کرلینے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہمارے ”نامزد کردہ“ حکمران کہ ٹیپو سلطانؒ نے موت کو غلامی پر فوقیت دی تھی، کیونکہ وہ غیرت مندتھا، صلاح الدینؒ اکیلا تنہا محض چند ہزار جانثاروں کے ساتھ القدس فتح کرنے اور پورے یورپ کا مقابلہ کرنے چل پڑا اور فتح یاب ہوا کیونکہ اسے ”ساتویں“ بحری بیڑے کا انتظار نہ تھا نہ ہی وہ کہیں سے اجازت کا طالب تھا محض غیرت ایمانی اور اللہ کی جانب سے عطا کردہ ”نظریہ جہاد“ اس کے ساتھ تھا۔ اسے بھی معلوم تھا کہ عیسائیوں کا پورا لشکر اگر اسے شکست دینے میں کامیاب ہوگیا تو پایہ خلافت محفوظ نہ رہ سکے گا مگر وہ یہ ایمان رکھنے تھے کہ ماسوائے ”اللہ“ کے کوئی مسلمانوں کو ”پتھروں کے دور“ میں نہیں دکھیل سکتا تھا۔

عزیز ہم وطنو آج وہ دور آن پڑا ہے کہ ہمیں اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور اپنے اسی رشتے کو ماپنا ہوگا جو ہم نے خود قائم کیا اس ملک کی صورت، اس ملک کی شہداءکی امانت ہماری گردنوں کا طوق نہ بن جائے۔

غور کیجئے اور اللہ سے نصرت طلب کیجئے نہ کہ سات سمندر پار سے۔۔۔۔
تجھے تو آباءوہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو ؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فروا ہو ؟
Ahsan Awan
About the Author: Ahsan Awan Read More Articles by Ahsan Awan: 11 Articles with 6819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.