PICکیس....پاکستانی ادویات کی صنعت پر خود کش حملہ

دانش کدہ کی ایک حکایت میں تحریر ہے کہ ایک مرتبہ جنگل میں شدید ترین افراتفری مچ گئی اور افراتفری کے عالم میں ایک چوہا ایک شیر کے غار میں جا گھسا۔ شیر سو رہا تھا شور کی وجہ سے اُٹھا اور اپنے غار میں چوہے کو دیکھا تو حیرانگی سے پوچھنے لگا کہ چوہے میاں یہ باہر شور کیوں ہے۔ اور تم اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو۔تمہارے اوسان کیوں خطاءہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایسی کون سی بڑی آفت آگئی ہے کہ تم نے میرے غار میں آتے ہوئے کوئی خوف نہ محسوس کیا۔ چوہے میاں نے کہا عالم پناہ بات یہ ہے کہ بادشاہ نے حکم صادر کیا ہے کہ جس جانور کی دُم تین فُٹ سے لمبی ہے اُس کی دُم کاٹ دی جائے۔ اسی خوف کے مارے میں نے یہ جرات کی آپ کے غار میں آگھسا کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ بادشاہ کے سپاہی مجھے ڈھونڈنے کے لیے آ پ کے غار میں آنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ شیر بے ساختہ ہنس پڑا اور کہنے لگا ننھے چوہے میاں آپ اپنی دُم دیکھئے کیا یہ تین فُٹ کی ہے۔ آپ کو کیا خطرہ ہے۔چوہے میاں نے کہا عالم پناہ مسئلہ یہ ہے کہ بادشاہ کے سپاہی دُم کاٹتے پہلے ہیں اور ناپتے بعد میں ہیں اور مجھے یہی خطرہ ہے کہ میری دُم بھی وہ کاٹیں گے پہلے اور ناپیں گے بعد میں۔

قارئین! آج کے موضوع کا تعلق بھی مندرجہ بالا بیان کردہ حکایت کے ساتھ ہے ترقی یافتہ معاشرہ اور ہمارے ملک میں ایک واضح فرق ہے ۔ برطانیہ ، یورپ ، امریکہ اور دیگر تمام ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی شخص ، گروہ ، پارٹی ، کمپنی پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو جب تک وہ الزام ثابت نہیں ہو جاتا تب تک درج بالا بیان کردہ لوگوں کو مجرم نہیں گردانا اور اُنہیں صفائی کا بھی پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ایک عجیب رسم ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے تو اُس وقت ”مارو ، دوڑو، پکڑو“ کی ایک گردان الاپی جاتی ہے اور پھر جس جس کی گردن ناپ کے مطابق آتی ہے اُس کے گرد طوق باندھ دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک حادثہ پیش آیا اوروہ حادثہ یہ تھا کہ امراضِ قلب میں مبتلا سینکڑوں مریضوں میں جسم سے خون کے اخراج اور اُس کے بعد موت کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔تحقیقات شروع ہوئیں ۔حقائق اکٹھے کئے گئے اور ابتدائی اطلاعات کی بنیاد پر پانچ فارماسیوٹیکل کمپنیز کی ادویات پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ تمام کمپنیاں پاکستانی تھیں اور اِن کی شہرت اور GMPپوری دنیا میں ضرب المثل تھیں۔ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کو اِن کمپنیز کی ادویات بھیجی گئیں کہ وہ ٹیسٹ کر کے بتائیں کہ کیا اِن کی کوالٹی درست ہے اور ایسی کیا وجہ ہے کہ ان کمپنیوں کی ادویات کھانے سے دل کے امراض میں مبتلا مریض صحت یاب ہونے کے بجائے جاں بحق ہو رہے ہیں۔پاکستانی ڈی ٹی ایل کی رپورٹس کے مطابق یہ ادویات سو فیصد درست نکلیں۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے ان ادویات کی مزید ٹیسٹنگ کے لیے برطانیہ اور یورپ کی لیبارٹریز میں ان کے نمونے بھیجے اور پھر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں کہ ”Efroze“ نامی کمپنی کی میڈیسن آئیسوٹیب جس میں مالیکیول Isosorbide-Nitrate ہوتا ہے اُس میں اس دوائی کے ساتھ ساتھ ملیریا کو روکنے والی دوائی کے اجزاءبھی موجود ہیں جو مریض مقدار میں 14سے 20گنا زیادہ استعمال کر رہے تھے اور جس کی وجہ سے اُن کے خون کو منجمد کرنے کا نظام تباہ ہو گیا اور اُن کے جسم سے خون نکلنا شروع ہو گیا جس سے اُن کی اموات واقع ہوئیں۔حکومتی اداروں نے فوری طور پر کارروائی کی اور کراچی میں واقع اس فارماسیوٹیکل کمپنی کی فیکٹری کو سیل کر دیا گیا۔

قارئین ! صل کہانی یہیں سے شرو ع ہوتی ہے۔Efrozeفارماسیوٹیکل کے مالکان گزشتہ دنوں کراچی میں جب عمران خان نے جلسہ کیا تو انہوں نے نا صرف اس جلسے میں شرکت کی بلکہ تحریکِ انصاف کی مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا۔اس کمپنی کے مالکان کے آباﺅ اجداد1903ءسے ادویات کی صنعت کے ساتھ منسلک ہیں۔اس کمپنی کی ادویات دنیا کے بیشتر ممالک میں ایکسپورٹ کی جارہی ہیں اور ذمہ دار ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کمپنی کی ادویات نے بھارتی ادویات سازی کے تمام اداروں کو شکست دیتے ہوئے کوالٹی کی بنیاد پر مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک میں بزنس حاصل کیا جس کی وجہ سے بھارتی حکومت اور بھارتی فارماسیوٹیکل انڈسٹری شدید ترین پریشان تھے۔اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایفروز کمپنی کے ساتھ کوئی سازش نہیں کی گئی اور اس سازش میں کوئی اندرونی یا بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہو سکتا ہے۔ہماری حکومت نے کیا کیا کہ مضمرات کا سوچے بغیر چارج شیٹ بنائی اور پاکستانی ادویات سازی کی صنعت کو بدنامی کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں پکڑا دیا۔پاکستانی ادویات سازی کی صنعت اس وقت لاکھوں افراد کو روزگار مہیا کر رہی ہے۔بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت پاکستان کی مقامی ادویات سازی کی صنعت سے شدید ترین خائف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کم قیمت پر ادویات عوام تک پہنچاتی ہیں اور اِن کی کوالٹی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بیٹھی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پاکستانی ادویات سازی کی صنعت کو غصے کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ایفروز کمپنی کے مالکان کو یہ موقع بھی نہ دیا گیا کہ و ہ اپنی صفائی میں کوئی بات کر سکیں یا حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر اس بات کا سراغ لگا سکیں کہ آخر کس طرح اینٹی ملیریا دوائی آئیسوٹیب میں مکس کی گئی اور یہ سازش کرنے والے دماغ اور اُن کے آلہ کار کون کون تھے۔

قارئین! اس غیردانشمندانہ حرکت کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ آج دس کے قریب ممالک میں پاکستانی ادویات کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہو گی کہ موجودہ حالات میں جب پورے ملک کی صنعت کا پہیہ جام ہو چکا ہے فارماسیوٹیکل انڈسٹری 23فیصد کی ریکارڈGrowthدے رہی ہے۔ہمیں صرف اس بات کا افسوس ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے لیے ایک سائنٹیفک مسئلے اور سازش کی جڑیں پکڑنے کی بجائے جو سامنے آیا اُسے دھر لیا گیا۔ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ببر شیر مارکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ایک نیک نیت اور دیانتدار انسان ہیں لیکن اُنہیں بھی چاہیے کہ اُن کے کان بھرنے والے مشیر کس حد تک اُن کے ساتھ مخلص ہیں۔ اس بات کا پتہ ضرور چلوایا جائے اور پاکستانی وفاقی حکومت سے بھی ہم اپیل کرتے ہیں کہ اُن اقدامات سے گریز کریں کہ جن سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہو اور لاکھوں لوگوں کا روزگار داﺅ پر لگ جائے۔اس میڈیسن کی وجہ سے ایک سو پچاس سے زائد معصوم لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے یہ سازش کی ہے اُنہیں چوراہوں پر پھانسی دینی چاہیے لیکن ملزم کو مجرم بنانے سے پہلے اُسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے اور جرم کی تحقیقات کرتے ہوئے خفیہ ہاتھوں کے ملوث ہونے کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔ورنہ نقصان ہو جائے گا۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374094 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More