بسم اللہ الرحمن الرحیم
قطب الاقطاب، سیدالسادات، شیخ المشائخ، تاج العارفین، رہبر اکابرِ دین،
عارث کتاب اللہ، نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، پیرانِ
پیر، روشن ضمیر، دستگیر، قطب ربانی، شہباز لامکانی، قندیلِ نورانی، غوث
صمدانی، محبوب سبحانی، محی الدین، ابو محمد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس
سرہ نورانی رضی اللہ عنہ ایک بہت جلیل القدر عالم باعمل ولی اللہ گزرے ہیں
ہر مسلمان اُن سے بڑی عقیدت و ارادت رکھتا ہے اور ان کی ذاتِ بابرکت و
باکرامت کے گوشہ گوشہ سے واقفیت رکھنے کی لگن رکھتا ہے، چنانچہ مختصراً
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالات زندگی کی مبارک ساعتوں
پر روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے تاکہ عاشقانِ غوث اعظم دستگیر
اپنی کچھ تشنگی مٹا سکیں۔
ساتھ ساتھ حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعلیمات کی بھی ایک
جھلک پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے تاکہ تشنگانِ ہدایت ان کی بارک
تعلیمات سے واقف ہو کر اپنے عقائد و اعمال میں مذید نکھار پیدا کرلیں اور
صحیح معنوں میں عاشقانِ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کہلائے جانے کے حقدار
ٹھہرائے جائییں۔
ولادت باسعادت کی پیشن گوئیاں
روحانیت کے حامل بزرگان دین سینکڑوں سال قبل ہی جان گئے تھے کہ قدرت کا ایک
لاجواب روشن چمکتا دمکتا سورج دنیا میں اپنی نورانیت بکھیرنے آنے والا ہے
چنانچہ یہ اہلِ روحانیت اپنے اپنے زمانے میں اس روشن و تابناک سورج کے ظہور
پذید ہونے کی خبر دیتے رہے حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی
دنیا میں جلوہ گری سے دوسو سال قبل کا واقعہ ہے کہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور
و معروف جلیل القدر بزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک دن
اپنی خانقاہ عالیہ کے اندر مراقبہ میں مشغول تھے کہ اچانک مراقبہ سے سر
اٹھا کر فرمانے لگے۔ مجھے عالم غیب سے اطلاع ملی ہے کہ پانچویں صدی میں
“جیلان“ کے اندر سیدالمرسلین، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
اولاد اطہار میں سے “غوث اعظم“ پیدا ہونگے ان کا نام عبدالقادر اور لقب
“محی الدین“ ہوگا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے آئمہ
کرام اور اصحاب کرام کے علاوہ انہیں اولین و آخرین زمانے کے “ہر ولی کی
گردن پر میرا قدم ہے“ کہنے کا حق ہوگا۔ (تفریح الخاطر، صفحہ 26 تا 27)
اپنے دور کے شیخ کامل حضرت عزار بطایحی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 478ھ میں
یہ پیشن گوئی فرمائی کہ ایک نوجوان سید عبدالقادر ظاہر ہوگا اس کی ہیبت سے
مقامات ولایت ظاہر ہونگے اور اس کی جلالت سے کشف و کرامت رونما ہونگے وہ
حال پر چھا جائینگے اور محبتِ خداوندی کی بلندیوں پر پہنچ جائینگے تمام
عالم امکان ان کے حوالے کر دیا جائے گا، تمام اسرارِ عالم ان پر ظاہر ہونگے
رب تعالٰی کے حضور ان کی شان اس قدر بلند ہوگی کہ کسی دسرے ولی اللہ کو
نصیب نہ ہوگی۔ (بہجۃ الاسرار)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہونگے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا
متقی و پاکیزہ فطرت والدین کرام
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والدین کرام انتہائی متقی،
نیک خصلت و پاکیزہ باکرامت بزرگوں میں سے ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضور غوث اعثم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے
والد بزرگوار سید ابو صالح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی نوجوانی کے زمانہ
میں شہر سے باہر تشریف لے جا رہے تھے اچانک آپ کی نگاہ قریب ہی بہتی ہوئی
ایک ندی پر پڑی جس میں ایک سرخ سیب بہتا چلا جا رہا تھا آپ نے اُس سیب کو
اٹھا لیا اور کاٹ کر تناول فرما لیا پھر اچانک آپ کو خیال آیا کہ نجانت یہ
سب کس باغ سے ٹوٹ کر ندی میں بہہ کر آگیا تھا اور نہ معلوم اس کا مالک کون
ہے آپ کے احساس تقوٰی نے آپ کو مالک کی اجازت کے بغیر سیب کھا لینے کی غلطی
پر پریشان و پشیمان کردیا چنانچہ فوراً الٹے قدموں اس ندی کے کنارے کنارے
چلنے لگے یہاں تک کے کئی میل چلنے کے بعد آپ کو ایک باغ نظر آیا باغ میں
پہنچ کر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ درختوں پر لگے سرخ سیبوں کی شاخیں ندی پر
جھکی ہوئی تھیں آپ فوراً سمجھ گئے کہ یقیناً وہ سیب یہیں سے ٹوٹ کر ندی میں
گرا تھا چنانچہ آپ نے باغ کے مالک سے ملاقات کی جو کہ اپنے زمانے کے بہت
بڑے بزرگ تھے جن کا نام مبارک حضرت سیدنا عبداللہ موصعی رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ تھا انہوں نے جب اس نیک و صالح نوجوان کی بات سنی اور ان کی بغیر
اجازت سیب کھا لینے پر پشیمانی و پریشانی دیکھی معافی کا یہ انوکھا انداز
دیکھا اور آپ کا زہد و تقوٰی ملاحظہ کیا تو حضرت صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ کو بے حد مسرت ہوئی اور جب شجرہ نسب دریافت کیا تو یہ جان کر مذید
خوشی و انبساط محسوس کیا کہ آپ تو حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ تعالٰی عنہ
کی اولاد مطہرہ میں سے ہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ صاحبزادے بغیر
اجازت سیب کھا لینے کی معافی اُسی صورت میں ممکن ہے کہ تم میری معذور بیٹی
جو کہ آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، منہ سے گونگی اور پیروں سے لنجی ہے۔
اس سے شادی کرلو یہ سُن کر سید ابو الصالح جو کہ اپنے تقوٰی و پرہیزگاری
میں اپنی مثال آپ تھے اس نکاح پر رضا مند ہوگئے نکاح کے بعد جب اپنے حجلہ
عروسی میں قدم رکھا تو وہاں ایک صحیح سلامت نورانی صورت کو پایا آپ گھبرا
کر الٹے قدموں باہر نکل گئے کہ شاید اندر کوئی نامحرم لڑکی موجود ہے اُسی
وقت آپ نے اپنے خسر محترم سید عبداللہ صومعی کے پاس پہنچ کر ماجرا بیان کیا
تو حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا مبارک
ہو وہ تمہاری ہی زوجہ مطہرہ ہے میں نے اُسے اندھی اس لئے کہا تھا کہ اس نے
کبھی کسی غیر محرم پر نظر نہیں ڈالی اور بہری اس لئے کہ اس نے کوئی گندی
بات آج تک نہ سنی گونگی اس لئے کہ اس نے کبھی بد کلامی نہیں کی اور لنجی اس
لئے کہ اس نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا۔
یہ نیک فطرت پاکیزہ خصلت کی مالک خاتون حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ ام الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
تھیں۔
ولادت با سعادت
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت یکم رمضان
المبارک 471ھ بمطابق 1078ء کو ایران کے قصبہ گیلان (جیلان) میں ہوئی آپ کی
ولادت کی رات آپ کے والد ماجد حضرت ابو صالح کو خواب میں سرکار مدینہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت با سعادت حاصل ہوئی آپ نے دیکھا کہ سرور
کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے ساتھ
تشریف لائے ہیں پورا مکان غیبی انوار سے روشن و منور ہو گیا حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر ارشاد فرمایا، “اے ابو صالح مبارک ہو!
آج اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے تجھے وہ فرزند عطا ہوا ہے جو شیخ اعظم اور
قطب زماں ہوگا وہ اللہ عزوجل کا محبوب اور میرا لختِ جگر ہے۔“ پھر حضور غوث
اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت شریفہ ہوگئی آپ مادر زاد ولی تھے
ولادت کے وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آ
رہی تھی، پیدا ہوتے ہی آپ نے روزہ رکھ لیا اور پورا ماہ یہی معمول رہا
ولادت کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے بالکل
دودھ نہ پیا حتٰی کہ سارا دن گزر گیا آخرکار مغرب کی اذان ہوئی تو افطار کے
وقت آپ نے بھی دودھ پیا چنانچہ ساری بستی میں مشہور ہوگیا کہ سادات کے گھر
میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں سارا دن دودھ نہیں پیتا
یہاں تک کہ پورا مہینہ یہی معمول رہا۔ (طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ 126)
اور پھر اخیر رمضان میں بستی کے مسلمانوں کے اندر عید کے چاند کے متعلق جب
اختلافات پیدا ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابو صالح کے گھر سے معلوم کرو
اگر ان کے شیرخوار بچے نے دودھ نہیں پیا تو روزہ ہے اور اگر دودھ پیا ہے تو
عید ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت شریفہ فضلِ خداوندی کا جیتا جاگتا
ثبوت ہے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا سنِ مبارک ساٹھ برس ہوچکا تھا اور نعمتِ
اولاد ی توقع باقی نہ رہی تھی تو سیدنا حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
نام و نسب
آپ کا نام نامی عبدالقادر کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہوا ایران کے
شہر قصبہ جیلان میں پیدائش کی نسبت کی وجہ سے جیلانی کہلائے گئے اور اپنے
مقام ولایت کی بلندی کے باعث غوث الاعظم قرار دئیے گئے آپ والدہ کی طرف سے
حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
صاحب بہجۃ الاسرار اور مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے نفحات الانس
میں آپ کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے۔
شیخ عبدالقادر بن ابو صالح بن موسٰی بن عبداللہ بن یحیٰی زاہد بن محمد بن
داؤد بن موسٰی الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنٰی بن سیدنا حضرت امام حسن
بن حضرت علی بن ابی طالب۔ اس طرح آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم کی گیارہویں نسل تھے۔
یعنی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
روحانی بیٹے ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی حیثیت سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی آلِ اطہار میں داخل ہونے کا شرف ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ
کا سلسلہ نسب گلستانِ شہادت کے دو پھول حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی
اللہ تعالٰی عنہم سے ملتا ہے جن کے والدِ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ
الکریم اور والدہ سیدۃ النساء حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا اور
جن کے نانا سیدالانبیاء ہیں۔
مظہر ذات کے مظہر ہیں زسرتابہ قدم
نور ہیں نور کی اولاد ہیں غوث الاعظم
بچپن اور لڑکپن کے واقعات
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کا پورا خاندان کیونکہ نور
نبوت سے منور تھا لٰہذا آپ کا بچپن بھی اس فخر و شرف کی منہ بولتی تصویر
تھا۔ آپ جب کبھی بچپن میں کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ فرماتے تو غیب سے آواز
آتی۔ “الی یا مبارک۔“ (یعنی اے برکت والے میری طرف آ)۔ (قلائد الجواہر
صفحہ9)
جب آپ مدرسہ میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی “اللہ عزوجل کے ولی کو جگہ دے
دو۔“
یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ دیگر لڑکوں کے ساتھ کبھی کسی فضول
کھیل میں شامل نہ ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بسم اللہ پڑھنے کی
رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس پہنچے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہء فاتحہ
اور الم سے لیکر 18 پارے پڑھ کر سنا دئیے اس بزرگ نے کہا بیٹے اور پڑھئیے
تو فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا
جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد
کر لیا تھا۔ (کتب کثیرہ)
ایک روز آپ گھر سے باہر نکلے تو گلی میں بچوں نے آپ کو اپنے ساتھ کھیلنے
کیلئے مجبور کیا جس پر آپ رضامند ہوگئے اور فرمایا اچھا میں کہوں گا لاالہ
اور تم سب کہو گے الااللہ چنانچہ آپ کے اس انوکھے اور نرالے کھیل سے گلی
کوچے کلمہ طیبہ کے ورد سے گونج اٹھے۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب مکتب پڑھنے کیلئے تشریف لے جاتے تو آپ کے ہمراہ
فرشتے چلتے اور کہتے اس ولی اللہ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ (بہجۃ الاسرار،
صفحہ21۔ قلائد الجواہر صفحہ9)
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کم سن ہی تھے کہ آپ کے والد ماجد
کا 481ھ میں انتقال ہوگیا اور یوں آپ نے اپنے ناناجان صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی یتیمی کی سنت کو بھی ادا کر لیا۔ اس سانحہ پر آپ رضی اللہ تعالٰی
عنہ کی والدہ ماجدہ نے صبر و استقامت کا بھرہور مظاہرہ کیا اور اپنی نگرانی
میں حضور غوث اعظم کا مستقبل سنوارنے میں مشغول رہیں اور اس طرح حضور غوث
اعظم نے تقریباً سترہ سال تک اپنے وطن جیلان میں ہی تعلیمی مراحل طے کئے
لیکن اس کے آگے مذید تعلیم کیلئے “جیلان“ میں کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ آپ
رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ سے بغداد جانے کی خواہش کا اظہار
فرمایا گو کہ آپ کی والدہ ماجدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں عمر شریف بھی اٹھتر (
78 ) سال کے قریب ہو چکی تھی اور یہ بھی اندیشہء یقینی تھا کہ اب جیتے جی
اپنے اس لخت جگر کو دیکھنا نصیب نہ ہوگا مگر اس کے باوجود اس نیک فطرت کی
حامل خاتون نے اپنے ہونہار فرزند کی خدا داد ذہانت اور علم کی لگن اور
جستجو کو دیکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لئے جانے کی اجازت دے دی اور فرمایا
اب قیامت کے روز ملاقات ہوگی اور بوقت رخصت نصیحت فرمائی، “اے عبدالقادر
کبھی جھوٹ نہ بولنا اور یہ فرما کر اپنے لختِ جگر کو خدا کے سپرد فرما
دیا۔“ (بہجۃ الاسرار صفحہ8 نزہۃ الخاطر صفحہ33، قلائد الجواہر صفحہ9، نفحات
الانس صفحہ 351)
چنانچہ اپنی والدہ ماجدہ کی اس نصیحت کو پلو سے باندھ کر حضور غوث اعظم رضی
اللہ تعالٰی عنہ بغداد روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قافلہ جب
“ہمدان“ کے قریب پہنچا تو ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا یہ ڈاکو قوی ہیکل
تھے جو سروں پر مضبوط پشم کی پوستین اوڑھے بڑے ہیبت ناک نظر آرہے تھے اور
اپنے چمکدار نیزے فضا میں لہرا لہرا کر سہمے ہوئے مسافروں کو لوٹ رہے تھے
چنانچہ ایک ڈاکو آپ کے پاس بھی آیا اور گرجدار آواز میں بولا، “لڑکے کیا
تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟“ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی
نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بلا خوف و خطر سچ سچ بتا دیا کہ “ہاں میرے پاس
چالیس دینار ہیں!“ ڈاکو کو یقین نہیں آیا کہ اس چھوٹے سے لڑکے کے پاس اتنی
بڑی رقم بھی ہو سکتی ہے چنانچہ وہ آپ کو اپنے سردار “احمد بدوی“ کے پاس لے
گیا سردار نے جب ماجرا سنا تو آپ سے دریافت فرمایا تو آپ نے سچ سچ بتا دیا
کہ میری صدری کے استر کے نیچے چالیس دینار سلے ہوئے ہیں۔
چنانچہ ڈاکوؤں نے جب آپ کی صدری کو ادھیڑا تو واقعی چالیس دینار برآمد ہوئے
سردار نے آپ سے پوچھا، “لڑکے کیا تمہیں لٹ جانے کا خوف نہ آیا جو مجھے اپنی
رقم کا سچ سچ بتا دیا۔“ اس وقت حضور غوث اعظم نے فرمایا، “جب میں علم دین
حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر سے رخصت ہونے لگا تو مجھے میری ضعیف والدہ نے
نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ سچ بولنا۔ بھلا والدہ ماجدہ کی نصیحت کے آگے چالیس
دینار کیا اہمیت رکھتے ہیں ؟ آپ کے منہ سے یہ کلماتِ حق سُن کر سردار رونے
لگا اور کہنے لگا، “اے لڑکے شاباش! کہ تونے اپنی ماں کا وعدہ یاد رکھا اور
لعنت ہے مجھ پر کہ میں اپنے رب کا وعدہ بھول گیا۔“ یہ کہہ کر سردار نے ڈاکہ
زنی سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرلی اور تمام لوٹا ہوا مال قافلہ والوں کو واپس
کر دیا یہ دیکھ کر باقی ڈاکوؤں نے کہا، “اے سردار! رہزنی میں ہمیشہ ہم تیرے
ساتھ رہے اور اب توبہ میں بھی ہم تیرے ساتھ ہیں۔“
اور اس طرح آپ کی حق گوئی نے ڈاکوؤں کے دل کی کایا پلٹ دی اور آپ کی اس حق
گوئی کی برکت سے تمام ڈاکو تائب ہوگئے۔ (سفینۃ الاولیاء صفحہ63، نزہۃ
الخاطر صفحہ32، قلائد الجواہر صفحہ9، نفحات الانس صفحہ 352)
حصولِ علم
یہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی علمی لگن اور جستجو ہی تھی کہ علم
کی پیاس بجھانے کیلئے آپ نے جیلان سے چارسو میل کا طویل و کٹھن سفر طے کیا
اور یوں 488ھ بمطابق 1095ء میں بغداد پہنچے اور اس زمانے کی سب سے بڑی
اسلامی یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے اور وہاں
کے بڑے بڑے قابل ترین اساتذہ سے حدیث و تفسیر اور جملہ علوم دینیہ کے حصول
میں مشغول ہوگئے۔ چند مہینوں کے بعد آپ کے پاس موجود چالیس دینار ختم ہوگئے
اور نوبت فاقہ کشی تک آپہنچی آپ فاقوں پر فاقے کرتے رہے لیکن صبر کا دامن
تھامے علم کے حصول میں لگے رہے خیرات نہ مانگنے کی عادت نے آپ کو ہمیشہ
سوال کرنے سے روکے رکھا اور آپ دوسروں کو بھی سوال کرنے سے منع فرماتے رہے
الغرض آپ آٹھ سالہ تعلیمی دور میں تنگدستی و فاقہ کشی کی سخت سے سخت
صعوبتوں کو ہمت و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتے رہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ
خود بیان فرماتے ہیں کہ “طالب علمی کے دور میں ایسی ہولناک سختیاں میں نے
جھیلیں کہ اگر وہ پہاڑ پر پڑتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا جب ہر طرف سے مجھ پر
مصیبتیں ٹوٹنے لگتیں تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور پڑھنے لگتا “فان مع العسر
یسرا ان مع العسر یسرا۔“
“بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔“ (طبقات الکبرٰی
جلد1 صفحہ 126)
یوں فاقہ زدگی کی ان مشکلات کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ علم دین حاصل
کرتے رہے اسی دوران ایک اور مُصیبت یہ ہوگئی کہ ملک میں قحط پڑگیا اور قحط
اس قدر شدید تھا کہ لوگ درختوں کے پتے تک کھا گئے آپ سبزے کی تلاش میں
دریائے دجلہ کے کنارے کنارے جاتے مگر وہاں پہلے ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا
چنانچہ آپ صبر کرکے واپس آ جاتے کیونکہ لوگوں سے چھیننا آپ کو پسند نہ تھا
اس خوفنباک قحط کی اطلاع جب آپ کی والدہ نے سنی تو آپ بے چین ہو گئیں اور
اپنے لخت جگر کی مدد کرنے کیلئے بے قرار ہو گئیں۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فاقوں پر فاقے کرتے رہے یہاں تک کہ آپ
کا چہرہ زرد اور جسم لاغر ہوگیا ایک دفعہ آپ نڈھال ہوکر مسجد میں پڑے ہوئے
تھے اتنے میں ایک نوجوان کہیں سے بھنا گوشت اور روٹی لیکر مسجد میں داخل
ہوا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگا آپ کی حالت زار دیکھ کر آپ کو کھانے میں
شریک ہونے کے لئے بضد ہوگیا چنانچہ اس کی ضد پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ
کھانے میں شریک ہوگئے کھانے کے بعد باتوں کے دوران جب اُس شخص کو معلوم ہوا
کہ آپ جیلان کے رہنے والے ہیں تو وہ شخص بولا، “میں بھی جیلان کا رہنے والا
ہوں اور طالب علم عبدالقادر کی تلاش میں ہوں۔“ اور جب اُسے معلوم ہوا کہ آپ
ہی عبدالقادر جیلانی ہیں تو بے قرار ہو کر رونے لگا اور گڑگڑا کر کہنے لگا
کہ “مجھے معاف کر دیجئے کہ میں نے آپ کی امانت میں خیانت کی ہے دراصل آپ کی
والدہ نے میرے ہاتھ آپ کو آٹھ دینار بھیجے تھے میں نے آپ کو بہت تلاش کیا
مگر آپ مجھے نہیں ملے اس دوران میری جمع پونجی بھی ختم ہوگئی آخر فاقے سے
مجبور ہو کر میں نے آپ کی امانت سے یہ کھانا خریدا جو آپ نے اور میں نے
کھایا اس طرح آپ نے تو اپنا ہی کھایا مگر میں آپ کا مہمان بنا آپ میرا یہ
قصور معاف فرما دیجئے۔ (طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ129، قلائد الجواہر
صفحہ1009)
غرض یہ کہ حصولِ علم کے دوران فاقہ کشی کی صعوبتوں کو خوش اسلوبی سے برداشت
کرتے رہے اور اس طرح آپ کا آٹھ سالہ تعلیمی دور جو اپنے دامن میں بیشمار
تکالیف اور مصائب لئے ہوئے تھا اختتام پذیر ہوا اور پھر وہ مبارک ساعت آہی
گئی جب آپ کے سر اقدس پر دستارِ فضیلت سجائی گئی اور آپ علوم دینیہ میں
کامل ہوگئے۔
اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اساتذہ کرام کی تعداد بیشمار ہے جن
سے آپ نے فقہ حدیث تفسیر کلام اور دیگر علوم دینیہ حاصل کئے یہاں چند کا
ذکر حصول برکت کیلئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔
(1) ابو زکریا یحیٰی بن علی الخطیب تبریزی (2) ابو الوفا علی بن عقیل
البغدادی (3) ابو بکر احمد بن المظفر (4) ابو غالب محمد بن حسن الباقلانی
(5) شیخ حماد الاباس (6) القاضی ابو سعید مبارک بن علی المخزومی الحنبلی
(7) شیخ ابو الخطاب الکوزانی ( 8 ) ابو البرکات طلحہ العاقولی (9) ابو
القاسم محمد بن علی بن میمون (10) ابو عثمان اسماعیل بن محمد اصبہانی (11)
ابو طاہر عبدالرحمٰن بن احمد (12) ابو منصور عبدالرحمٰن القرار (13) ابو
بکر بن مظفر (14) ابو القائم بن بنان (15) ابو محمد جعفر السراج (16) ابو
طالب بن یوسف (17) ابو سعید بن جیش وغیرہ۔ (سوانح حیات پیران پیر صفحہ38 )
|