سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، حصہ دوئم

عارفِ کامل سے ملاقات
تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سوچا کہ کہاں جائیں کیونکہ اسی اثناء میں آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہو چکا تھا اس لئے واپس وطن جانا بے سود تھا چنانچہ آپ اپنے بے قرار دل کو سکون مہیا کرنے کیلئے کسی عارفِ کامل کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے تاکہ اُس کے ذریعے عشقِ الٰہی سے عرفانِ الٰہی کی منازل طے کر سکیں تاکہ اپنے دل و دماغ کو انوارِ الٰہی سے منور کر سکیں۔ شہر بغداد میں جو بے ہودگیوں اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا لوگ لہو و لعب میں مبتلا تھے ایسے ماحول میں آپ کو یہاں رہنا بے حد دشوار محسوس ہو رہا تھا چنانچہ بغداد چھوڑ کر کسی صحرا کا رخ کرنا چاہا لیکن کسی غیبی آواز نے آپ کا راستہ روک لیا آواز آئی کہ عبدالقادر یہاں تمہارا رہنا بہت ضروری ہے خلقِ خدا کو تم سے فیض پہنچے گا اور تمہارے دین کو یہاں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ چنانچہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بغداد چھوڑنے کا ارادہ بدل دیا اور مذید شدومد کے ساتھ کسی پیرِ کامل کی تلاش میں لگ گئے تاکہ اُس سے راہنمائی پاسکیں ایک دن آپ کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی ان بزرگ عارفِ کامل کا نام تھا شیخ حماد بن مسلم، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ کو دیکھتے ہی اُن سے لپٹ گئے۔ شیخ نے بھی آپ سے نہایت مشفقانہ رویہ اختیار کیا حضور غوث الاعظم برابر اپنے شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے رہے اور اپنے دل میں عشقِ الٰہی کی آگ کو بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ مشاہدہ حق کے شوق نے آپ کو مجاہدوں پر اصرار کیا اور یوں عشقِ الٰہی میں شرابور پچیس برس تک عراق کے جنگلوں میں پھرتے رہے بالآخر عشقِ الٰہی کی چنگاری آپ کے دل میں شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھی آپ نے کشف و وجدان کی تمام منازل طے کر لیں اور تمام تر وطنی و روحانی قوتوں سے مسلح ہوکر شیطانی قوتوں کے خلاف صف آراء ہوگئے اور علمی میدان میں قدم رکھا تو باطل قوتیں اور ابلیسی طاقتیں آپ کے ایمان و عمل سے ٹکراتی رہیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں اور ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔

شیطان کے مکرو فریب کی شکست
رایتوں میں آتا ہے کہ شیطان آپ کے چاروں طرف مکرو فریب کے جال پھینکتا رہا تاکہ ان جالوں میں آپ کو پھانس کر زیر کر لے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان شیطانی پھندوں کو توڑنے میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل کی رحمت خاص کے سبب کامیاب ہوگئے۔
روایت ہے کہ ایک دن آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ زمین سے آسمان تک آنکھوں کو چندھیا دینے والی تیز روشنی ظاہر ہوئی پھر اسی روشنی میں ایک چہرہ ظاہر ہوا جس نے گرجدار آواز میں آپ کو پکارا، “اے عبدالقادر میں تیرا رب ہوں اور تیری عبادت و ریاضت سے خوش ہو کر تجھ پر تمام فرائض کو معاف کرتا ہوں اور تجھ پر حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں لٰہذا اب جو جی میں آئے کر۔“
حضور غوث رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اتنا اعلٰی مرتبہ حاصل ہونے کے باوجود عمر بھر عبادت میں مشغول رہے اور حلال و حرام پر سختی سے پابند رہے تو کوئی اور کیونکر اس سے آزاد ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے لاحول پڑھا تو وہ تیز روشنی فوراً غائب ہوگئی اور اندھیرا پھیل گیا وہ چہرہ جو ظاہر ہوا تھا دھواں بن کر غائب ہو گیا پھر اس میں سے آواز آئی، “اے عبدالقادر! تیرے علم نے تجھے بچا لیا۔“ یہ شیطان کا آخری وار تھا جس کا آپ نے فوراً جواب دیا کہ “اے مردود علم نے نہیں بلکہ مجھے میرے رب کی رحمت نے بچایا ہے۔“ یہ سن کر ابلیس سر پیٹنے لگا اور کہنے لگا کہ اب تو میں آپ سے بالکل مایوس ہو چکا ہوں اور آئندہ آپ پر وقت ضائع نہ کروں گا۔“ اس پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا “دور ہو جا مردود میں تیری کسی بات کا اعتبار نہیں کرتا اور ہمیشہ تیرے مکر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، قلائد الجواہر صفحہ11، 20، 21، بہجۃ اسرار صفحہ 85، 86 )

بیعت طریقت
سخت مجاہدوں اور عبادت و ریاضت کے بعد آپ نے تزکیہ نفس کی تمام منازل طے کرلیں اور اس سلسلے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بغداد سے باہر ویران برج میں گیارہ سال مسلسل چلہ کشی میں گزارے آخری چلے میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں اُس وقت تک کچھ نہ کھاؤں پیوں گا جب تک کوئی خود آخر اپنے ہاتھ سے نہ کھلائے گا چنانچہ چالیس روز گزر گئے مگر آپ نے کچھ نہ کھایا نہ پیا لیکن اپنے عہد پر سختی سے پابند رہے بالآخر بغداد کے مشہور بزرگ قاضی القضاۃ شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جو اپنے دور کے مشہور صاحب طریقت بزرگ تھے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس تشریف لائے اور اپنے دستِ مبارک سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کھانا کھلایا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ، “شیخ کے ہاتھ سے جو لقمہ میرے منہ میں پہنچتا تھا اُس سے میرے دل میں نورِ معرفت پیدا ہوتا تھا۔“
اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شیخ مخزومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دستِ حق پر بیعت طریقت کرلی اور ان کے دستِ مبارک سے خرقہء ولایت پہنا۔ آپ کے پیر کامل نے آپ سے فرمایا، “اے عبدالقادر یہ خرقہ جناب سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرمایا تھا انہوں نے حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو عطا فرمایا اور اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا ہے۔“
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جوں ہی یہ خرقہ ولایت پہنا تو اُن پر انوار و تجلیات کی بارش ہوگئی اور اُن پر خاص قسم کی کیف و سرور کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کے پیر کامل نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اب اس ویرانے کو چھوڑ کر شہر کا رخ کریں اور خلق خدا میں دین و سنت کی اشاعت میں کوشاں ہو جائیں چنانچہ شیخ نے آپ کو اپنے مدرسے میں صدر المدرسین مقرر کر دیا اور خود گوشہ نشین ہوگئے چنانچہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مدرسہ میں ہی قیام فرمایا تاکہ دن رات اپنے پیر کامل کی صحبت سے فیض بھی حاصل کریں اور اسلام کی ترویج بھی ہوتی رہے چنانچہ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ دین کی تبلیغ کا کام بھی خوب زور و شور سے انجام دیتے رہے۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، جامع کرامت الاولیاء جلد2، صفحہ 202)

درس و تدریس اور فتاوٰی نویسی
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب درس و تدریس کی ذمہ داری سنبھالی تو اس علم کے آفتاب سے روشنی لینے کیلئے ہزاروں طالبانِ علم جمع ہوگئے اور اس سے علمی نور حاصل کرنے مین سرگرداں ہوگئے اور یوں علم کی پیاس بجھا کر طالبان علم کو سیراب کرنے کیلئے عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ چودہ علم کا درس دیا کرتے تھے اور اس طرح پورے بیس برس یعنی 500ھ سے 521ھ تک طالبان علم کو علومِ دینیہ سے مستفیض فرمایا آپ کے بیشمار شاگرد آپ سے فارغ التحصیل ہوکر دنیا کے خطے خطے میں پھیل گئے اور اس طرح اسلامی تعلیمات کا نور پھیلنے لگا۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ 127، قلائد الجواہر، صفحہ38 )
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ علم و حکمت کی ضیاء پھیلانے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام سے آئے ہوئے استفتاء کے جوابات بھی دینے کی ذمہ داری نبھاتے رہے کوئی دن ایسا نہ گزرا کہ آپ کے پاس دینی سوالات نہ آئے ہوں آپ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ فتاوٰی نویسی کو بھی برابر وقت دیتے۔ آئے ہوئے سوالات پر خوب غور و فکر کرتے اور اپنی رائے دیتے۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں علماء کرام و فقہاء کرام اور وہ طلباء بھی حاضر ہوا کرتے تھے جو مختلف علوم میں دسترس تو رکھتے تھے لیکن آپ کی صحبت بابرکت سے اور آپ کے شدت علوم سے فیض حاصل کرنا اپنے لئے خوش بختی تصور کرتے تھے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ انہیں اپنے حلقہء درس میں شریک فرما کر انہیں مستفید فرماتے۔ اپنے طلباء اور حلقہ درس میں شریک معتقدین پر آپ کی خصوصی توجہ اور نظرِ کرم ہی تھی کہ آپ کے شاگردوں نے بھی تصنیف و تالیف میں خوب دھوم مچائی اور شاندار کتب تصنیف کیں اور اس طرح آپ علم و معرفت اور ولایت کا روشن چمکتا سورج بن کر آفاقِ عالم پر جگمگانے لگے آپ کی آواز پوری دنیا میں پھیلنے لگی یہاں تک کہ تمام مخلوق آپ کے علم و کمال کا اعتراف کرنے لگی۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، اخبار الاخیار فارسی، صفحہ17، قلائد الجواہر، صفحہ 18، 38 )

وعظ و نصیحت
درس و تدریس و فتاوٰی نویسی کی مصروفیات ابھی جاری ہی تھیں کہ ایک دن 14 شوال 521ھ کی دوپہر آپ نے خواب میں سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت باسعادت حاصل کی آپ نے دیکھا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ سے ارشاد فرما رہے ہیں! “بیٹا عبدالقادر تم عوام کو وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے۔“
عرض کی، “میرے آقا و مولا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں عجمی ہوں فصحائے عرب کے سامنے کیسے زبان کھولوں ؟“
تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ سلم نے اپنا لعابِ دہن مبارک آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان مبارک پر لگایا اور فرمایا، “اب جاؤ اور عوام کو وعظ و نصیحت کرو۔“
اور اس طرح قدرت نے آپ کو لازوال و شاندار زورِ خطابت سے نوازا۔ (سفینۃ الاولیاء، صفحہ67، اخبار الاخیار فارسی، صفحہ18 )
چنانچہ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو ظہر کا وقت تھا آپ نے نماز ادا فرمائی اور منبر پر تشریف لے گئے اور وعظ و نصیحت شروع کی آپ کا وعظ کرنا تھا آپ کی زبان سے فصاحت و بلاغت کا سمندر جاری ہوگیا حاضرینِ محفل آپ کی اس پُر اثر زبان کے سحر میں گم ہوگئے اور ان کے دل اس کے اثر سے پگھلنے لگے۔ اور ہوتے ہوتے اس مجلس وعظ میں شہر کے کونے کونے سے لوگ آکر جمع ہونے لگے آپ کی زورِ خطابت اور وعظ و نصیحت کی شہرت عراق سے نکل کر عرب و شام و ایران تک جا پہنچی آپ کی مجلس وعظ میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی بالآخر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منبر شریف شہر سے باہر عید گاہ کے وسیع میدان میں رکھوا دیا گیا آپ کی مجلس وعظ میں ایک وقت میں ستر ستر ہزار سامعین آپ کے وعظ سننے کیلئے موجود ہوتے اور آپ کی یہ کرامت ہے کہ دور نزدیک سب کو آپ کی آواز یکساں سنائی دیتی آپ کے وعظ کا یہ اثر تھا کہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے اور بے ہوش ہو جاتے کچھ گریبان پھاڑ کر جنگل میں نکل جاتے اور کچھ وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے آپ کے وعظ کے وقت فضا سے رونے کی آوازیں آتی تھیں اور اکثر اوقات حاضرین مجلس اپنے ہاتھ جب فرش پر رکھتے تو اُن لوگوں پر پڑتے جو بظاہر نظر نہ آتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں ایک ایک وقت میں چار چار سو دواتیں آپ کے مواعظ حسنہ کو لکھنے کیلئے استعمال ہوتی تھیں آپ کی مجلسِ وعظ میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ اپنے وقت کے بیشمار اکابر مشائخ اور علماء و فقہاءٰ بھی شریک ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ امراء وزراء اور خلیفہ بھی آپ کی مجلس وعظ میں بے ادب سر جھکا کر بیٹھتے۔ (تحفۃ القادریہ، صفحہ109، بہجۃ الاسرار، قلائد الجواہر)
حضرت ابو محمد مفرج بن شہاب شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ، “سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہرت و معقولیت دیکھ کر بغداد کے علماء و فضلاء کی ایک جماعت آپ کا امتحان لینے کی نیت سے آئی اس جماعت میں ایک سو فقہیہ تھے جن پر اہل بغداد کو کامل اعتماد تھا ابھی وہ سب آکر حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ معاً میں نے دیکھا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سینہ مبارک سے نور پھوٹنا شروع ہوا جس کو دیکھتے ہی دیکھتے علماء وقت کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں حتٰی کہ ہ سب دیوانے ہو کر چیخنے لگے اور اپنے کپڑے پھاڑنے لگے انہوں نے اپنی پگڑیاں اتار پھینکیں اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قدموں پر اپنے سر رکھ دئیے، مجلس میں ان کی چیخ و پکار سے ایسا شور برپا ہوا کہ میں نے خیال کیا کہ زلزلہ آ گیا ہے آخر غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اُن کی حالت پر رحم آیا سب کو معاف فرمایا، پھر ایک ایک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور بتایا کہ تمہارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے۔ اس واقعہ کی سارے بغداد میں دھوم مچ گئی جب علماء سے میں نے خود حقیقت حال معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم جیسے ہی مجلس میں جاکر بیٹھتے تو ہمارا علم سلب ہوگیا یہاں تک کہ جب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے سینہ مبارک سے لگایا تو ہمارا علم واپس آگیا اور ہمارے سوالات کے جو جوابات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عنایت فرمائے وہ اس قدر مدلل تھے کہ اس سے پیشتر ہمارے ذہن میں نہ تھے۔ (تفریح الخاطر، صفحہ51، طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ128، نزہۃ الخاطر، صفحہ68 )
آپ کے پُر اثر وعظ و نصیحت کا ہی اثر تھا کہ اہل بغداد جو کچھ عرصہ پہلے لعو لعب و فتنہ انگیزیوں میں مبتلا تھے بدکاریوں اور بے ہودگیوں کے غلیظ کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے اس پیکر رشد و ہدایت کا دامن تھام کر باہر نکل آئے اور آپ کے وعظ و نصیحت سے اپنے ظاہر و باطن کو چمکا ڈالا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دستگیری کیا فرمائی کہ یہودی ہو یا نصرانی بد عقیدہ ہو یا بد مذہب گناہگار ہو یا بدکار قاتل ہو یا لٹیرا غرض ہر ایک آپ کے دامنِ رحمت میں آکر تائب ہو جاتا آپ کے اس روحانی فیض سے ایک لاکھ فاسق و فاجر راہ راست پر آئے اور ہزاروں بد مذہبوں نے اسلام قبول کرلیا آپ کے مُریدین عالم اسلام کے چپے چپے میں پھیل گئے اور یوں اسلام کی نورانی شعاعیں عراق، شام، عرب و ایران غرض تمام عالم میں پھیل گئیں۔ مسلسل نصف صدی تک طالبانِ فیض آپ سے روحانی فیض لیتے رہے اور یوں دینِ اسلام جو نحیف و کمزور ہو چکا تھا اور اس کی آب و تاب ماند پڑھنے لگی تھی آپ کے وعظ و نصیحت اور فیض روحانی کے سبب پوری آب و تاب کے ساتھ ایسا منور ہوا کہ تمام عالم اسلام منور ہو گیا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283174 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.