(وہ جلیل القدر صحابہ اکرام
جنھیں حضور ﷺنے مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی
)
جو مسلمان بحالت ایمان حضور ﷺ کی ملاقات سے سرفراز ہوئے اور ایمان ہی پر
انکا خاتمہ ہوا ، ان خوش نصیب مسلمانوں کو ”صحابی“ کہتے ہیں ۔ حجة الوداع
کے موقعہ پر صحابہ اکرام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ اللہ رب العزت
نے اپنے محبوب ﷺ کی شمع نبوت کے ان پروانوں کو وہ بلند بالا مقام عطا
فرمایا جس عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یوں تو رحمت اللعالمین حضرت محمد
ﷺ نے بہت سے صحابہ کو جنت کی بشارت دی لیکن صحابہ اکرام میں دس ایسے جلیل
القدر صحابہ اکرام ہیںجنھیں آپ ﷺنے مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکرانھیں ان
کا نام لیکر جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی ، انھیں عشرہ مبشرہ کہا جا تا ہے۔
ان خوش نصیبوں کے نام مبارک یہ ہیں۔
(۱) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ(۲) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ(۳) حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ (۴) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ (۵) حضرت طلحہ بن
عبید اللہ رضی اللہ عنہ، (۶) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ (۷) حضرت
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (۸)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ(۹)
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ (10) حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ
عنہ۔
(۱) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خلیفہ اوّل جانشین رسول ﷺامیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا
نام عبداللہ، ابوبکر آپ کی کنیت اور صدیق آپکا لقب ہے۔ آپ قریشی ہیں اور
ساتویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب رسول اللہ ﷺ کے خاندانی شجرہ سے مل جاتا ہے۔
آپ واقعہ فیل کے ڈھائی سال بعد مکہ مکرمہ پیدا ہوئے۔ مَردوں میں سب سے پہلے
آپؓ نے اسلام قبول کیا ۔ سفر، تمام اسلامی جہادوں اور صلح و جنگ میں آپ ؓ
،رسول اللہ ﷺ کے وزیر و مشیر بن کر مراحل نبوت کے ہر موڑ پر آپ ﷺ کے رفیق
اور جانثار رہے۔ دو برس تین ماہ گیارہ دن مسند خلافت پر رونق افروز ہوکر ۲۲
جمادی الاخریٰ 13 ھجری منگل کی رات وفات پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ انور میں حضوررحمت عالم کے پہلوئے مقدس میں دفن
ہوئے۔
(۲) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خلیفہ دوم جانشین رسول ﷺامیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کنیت
ابو حفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ آپ ؓ اشراف قریش میں اپنی ذاتی و خاندانی
وجاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہیں۔ آٹھویں پشت میں آپ کا خاندانی شجرہ
رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے ملتا ہے۔ آپؓ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد مکہ
مکرمہ پیدا ہوئے اور اعلان نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں مشرف بہ
اسلام ہوئے ۔ آپ کے مسلمان ہوجانے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اور ان
کو ایک بہت بڑا سہارا مل گیا۔ یہاں تک کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے مسلمانوں کی
جماعت کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ نماز ادا فرمائی۔آپ تمام اسلامی جنگوں
میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور رسول اللہ ﷺ کی تمام اسلامی
تحریکات اور صلح و جنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں آپ ﷺ کے وزیر و
مشیر کی حیثیت سے وفا دار و رفیق رہے۔ امیر المومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ نے اپنے بعد آپ کو خلیفہ منتخب فرمایا ۔ آپ ؓ نے دس سال ، چھ ماہ ، چار
دن تخت خلافت پر رونق افروز ہوکر جانشینِ رسول ﷺکی تمام ذمہ داریوں کو احسن
طریقہ سے انجام دیا ۔ 26 ذی الحجہ 23 ھجری چہار شنبہ کے دن نماز فجر میں
ابو لُو لُو فیروز مجوسی کافر نے آپؓ کے شکم مبارک میں خنجر مارا ، یہ زخم
اتنا کاری تھا کہ تیسرے دن شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ بوقت وفات آپ کی عمر
تریسٹھ سال تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ آپ
روضہ رسول ﷺ کے اندر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر میں دفن
ہوئے۔
(۳) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ
ہیں ۔ آپکی کنیت ابو عمرو اور لقب ”ذوالنورین“ ہے ۔ آپؓ قریشی ہیں ۔ عثمان
بن عفان بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ۔ آپ کا خاندانی شجرہ عبد
مناف پرحضور ﷺ کے نسب نامہ سے مل جاتا ہے۔ آپ نے آغاز اسلام ہی میں اسلام
قبول کرلیا تھا ، آپ کے چچا اور دوسرے کافروں نے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے
آپ کو بے حد ستایا۔ آپ نے پہلے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ منورہ کی طرف
ہجرت فرمائی اس لئے آپ ”صاحب الہجرتین“ (دو ہجرتوں والے ) کہلاتے ہیں اور
چونکہ حضور ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں اس لئے
آپ کا لقب ”ذوالنورین“ (دو نور والا) ہے۔جنگ بدر کے علاوہ آپ ؓ دوسرے تمام
اسلامی جہادوں میں کفار سے جہاد میں شریک ہوئے۔ امیر المومنین حضرت عمر
فاروق ؓ کی شہادت کے بعد آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے اور بارہ برس تک تخت خلافت
سنبھالا۔ آپ ؓ کے دور خلافت میں اسلامی حکومت کے حدود میں بہت زیادہ توسیع
ہوئی اور افریقہ اور بہت سے ممالک فتح ہوکر اسلامی مملک میں شامل ہوگئے۔
باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور 12 ذالحجہ 35 ہجری جمعہ کے دن
ان باغیوں میں سے ایک بدنصیب نے آپؓ کو رات کے وقت اس حال میں شہید کردیا
کہ آپؓ قرآن پاک کی تلاوت فرمارہے تھے۔ آپ ؓ کے خون کے چند قطرات قرآن شریف
کی آیت فسیکفیکھم اللہ پر پڑے۔ آپؓ کی نماز ِ جنازہ حضور اکرم ﷺ کے پھوپھی
زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام ؓ نے پڑھائی ، آپ ؓ مدینہ منورہ کے قبرستان
جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
(۴) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپؓ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اور رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ آپؓ
واقعہ فیل کے تیس سال بعد 13 رجب کو جمعہ کے دن خانہ کعبہ کے اندرپیدا
ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد ہے۔
آپؓ نے بچپن ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپ نے حضور اکرم ﷺ کے زیر تربیت
پرورش پائی۔ جنگ بدر، جنگ اُحد ، جنگ خندق وغیرہ اور تمام اسلامی جنگی
معرکوں میں کفار کے خلاف اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ جہاد میں شامل رہے اور
کفار عرب کے بڑے بڑے نامور بہادر اور سورما آپ کی تلوار ”ذوالفقار“ سے مارے
گئے۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انصار
و مہاجرین نے آپؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے آپ ؓ کو امیر المونین منتحب
کیا۔ آپؓ نے چار سال آٹھ ماہ اور نو دن مسند خلافت سنبھالا۔ 17 رمضان
المبارک 40 ہجری کو عبد الرحمن بن مُلجم خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے
ہوئے آپ ؓ کی پیشانی اور چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپؓ شدید زخمی
ہوگئے اور دو دن زندہ رہ کر جام شہادت نوش فرمایا۔ بعض روائتوں میں ہے 19
رمضان جمعہ کی رات میں آ پ زخمی ہوئے اور 21 رمضان کی شب آپ کی شہادت ہوئی۔
آپ کے بڑے فرزند حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔
(۵) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ ؓ مکہ مکرمہ میں قریش خاندان میں پیدا ہوئے ، ماں باپ نے آپ کا نام طلحہ
رکھا ۔ آپ ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ تجارت کے سلسلے میں
بصرہ گئے تو وہاں کے ایک عیسائی پادری نے ان سے پوچھا کہ کیا مکہ میں احمد
نبی ﷺ پیدا ہوچکے ہیں ؟ انھوں نے حیران ہوکر پوچھا کون احمد نبی ﷺ ؟ پادری
نے کہا ”احمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ۔ وہ نبی آخرالزمان ہیں اور ان کی
نبوت کے ظہور کا یہی زمانہ ہے اور ان کی پہچان کا نشان یہ ہے کہ وہ مکہ
مکرمہ میں پیدا ہونگے اور کھجوروں والے شہر (مدینہ منورہ) کے طرف ہجرت کریں
گے۔ چونکہ اس وقت تک حضور اکرم ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان نہیں فرمایاتھا ۔
اس لئے حضرت طلحہ ؓ خاتم النبین ﷺ کے بارے میں کوئی جواب نہ دے سکے۔ لیکن
بصرہ سے مکہ معظمہ آنے کے بعد جب انکو معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی
نبوت کا اعلان فرمادیا ہے تو یہ حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں
حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ کفار مکہ نے انھیں بے حد ستایا اور ظلم و
ستم کئے۔ وہ انھیں رسی سے باندھ کر مارتے ،لیکن یہ پہاڑ کی طرح دین اسلام
پر ثابت قدم رہے ۔ پھر ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔ آپ ؓجنگ بدر کے
علاوہ تمام اسلامی جنگوں میں کفار سے لڑے۔ جنگ اُحد میں آپ نے بڑی سرفروشی
کا مظاہرہ کیا ، حضور اکرم ﷺ کو کفار کے حملوں سے بچانے میں ، آپ تلوار اور
نیزوں کی بوچھاڑ کو اپنے ہاتھوں پر روکتے جس سے آپؓ کی ایک انگلی کٹ گئی
اور ہاتھ بالکل شل ہوگیا۔ اس جنگ میں آپ ؓ کے بدن پر تیر ، تلوار اور نیزوں
کے پچھتر زخم لکے۔ جنگ اُحد کے دن جب جنگ رک جانے کے بعد حضور اکرم ﷺ ایک
چٹان پر چڑھنے لگے ، تو لوہے کی زرہ کے وزن کی وجہ سے چٹان پر چڑھنا دشوار
ہوگیا ، اس وقت حضرت طلحہ ؓ بیٹھ گئے اور ان کے بدن کے اوپر سے گزر کر حضور
ﷺ اس چٹان پر چڑھے اور خوش ہو کر فرمایا ”طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کرلی ۔
20 جمادی الاخریٰ 26 ہجری میں جنگ جمل کے دوران آپ کو ایک تیر لگا اور
چونسٹھ سال کی عمر میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
(۶) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپؓ حضوراکرم ﷺکی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ کے فرزند ہیں اس لئے رشتہ میں حضور
اکرم ﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے اور حضرت ابوبکر ؓ
کے داماد ہیں۔ آپ بہت ہی بلند قامت ، گورے اور چھریرے بدن کے آدمی تھے اور
اپنی والدہ ماجدہ کی بہترین تربیت کی بدولت بجپن ہی سے نڈر ، جفاکش، بلند
حوصلہ اور بہادر تھے۔ آپ نے سولہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ تمام
اسلامی لڑائیوں کفار کے سورماﺅں کے مقابلے میں جس مجاہدانہ بہادری کا
مظاہرہ کیا تواریخ جنگ میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ آپ جس طرف بھی تلوار
لے کر بڑھتے کفار کے لشکر کی صفیں کاٹ کر رکھ دیتے۔ آپؓ کو حضور اکرم ﷺ نے
”حواری“(مخلص و جانثار دوست ) کا خطاب عطا فرمایا۔ آپ جنگ جمل سے بیزار
ہوکر واپس جارہے تھے کہ عمرو بن جُر موز نے آپ کو دھوکہ سے شہید کردیا۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر چونسٹھ سال تھی ۔ آپ کو بصرہ شہر میں سپرد خاک کیا
گیا۔
(۷) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
آپؓ حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ سے دس سال بعد خاندان قریش میں پیدا ہوئے۔ آپ ؓ
کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی اسی طرح ہوئی جس طرح سرداران ِ قریش کے بچوں
کی ہوا کرتی تھی۔ آپ کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ یمن میں ایک بوڑے
عیسائی راہب نے ان کو نبی آخر الزمان ﷺ کی ظہور کی خبر دی اور یہ بتایا کہ
وہ مکہ میں پیدا ہونگے اور مدینہ منورہ ہجرت کریں گے۔ جب یہ یمن سے لوٹ کر
مکہ مکرمہ آئے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ
ایک دن انہوں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔آپ سے پہلے
چند ہی افراد نے اسلام قبول کیا تھا لہٰذا مسلمان ہوتے ہی آپ ؓ کے گھر
والوں نے آپ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنا شروع کردیا ، اس لئے آپ ؓ ہجرت
کرکے حبشہ چلے گئے ، پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنا سارا مال و
اسباب چھوڑ کر بالکل خالی ہاتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔ مدینہ منورہ
میں آپ نے تجارت شروع کی اور چند ہی دنوں میں اس قدر خیر وبرکت ہوئی کہ آپؓ
کا شمار دولت مندوں میں ہونے لگا۔
تمام اسلامی لڑائیوں میں آپ نے جان و مال کے ساتھ شرکت کی، جنگ اُحد میں
ایسی جان بازی اور سرفروشی کیساتھ کفار سے لڑے کہ ان کے بدن پر اکیس زخم
لگے تھے۔ ان کے پاﺅں میں بھی ایک گہرا زخم لگ گیا تھا جس کی وجہ سے یہ
لنگڑا کر چلتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو صدقہ کی ترغیب دی
تو آپ ؓ نے چار ہزار درہم پیش کیئے۔ دوسری مرتبہ چالیس ہزار درہم اور تیسری
مرتبہ پانچ سو گھوڑے، پانچ سو اونٹ پیش کر دیئے۔ بوقت وفات ایک ہزار گھوڑے
اور پچاس ہزار دینارکی وصیت فرمائی۔ جنگ بدر میں شریک صحابہ اکرام کے لئے
چار چار سو دینار کی وصیت فرمائی اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور دوسری
ازواج مطہرات کے لئے ایک باغ کی وصیت کی جو چالیس ہزار درہم کی مالیت کا
تھا۔ ۲۳ہجری میں کچھ دن بیمار رہ کر بہتر سال کی عمر میں وصال فرمایا اور
مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
(۸)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ ؓ بھی ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کو حضوراکرم ﷺ نے جنت کی بشارت
دی ۔ آپ بھی ابتدائے اسلام میں 17سال کی عمر میں دامن ِاسلام میں آگئے اور
حضور ﷺ کے ساتھ تمام معرکوں میں حاضر رہے۔ یہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں
وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار پر تیر چلایا اور ہم
لوگوں نے حضور ﷺ کے ساتھ اس حال میں رہ کر جہاد کیا جب ہم لوگوں کے پاس
سوائے ببول کے پتوں اور ببول کی پھلیوں کے سوا کوئی کھانے کی چیز نہ تھی۔
خلافت راشدہ کے زمانے میں آپ ؓ فارس اور روم کے جہادوں میں سپہ سالار رہے۔
امیر المومنین عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ان کو کوفہ کا گورنر
مقرر فرمایا۔ پھر اس عہدے سے معزول کردیا اور یہ برابر جہادوں میں کفار سے
کبھی سپاہی بن کر اور کبھی سپہ سالار بن کر لڑتے رہے۔ جب حضرت عثمان غنی ؓ
امیر المونین ہوئے تو انھوں نے انھیں دوبارہ کوفہ کا گورنر بنادیا۔آپ نے
پچھترسال کی عمر میں ۵۵ ہجری میں وصال فرمایا۔ آپ کی نماز جنازہ حاکم مدینہ
مروان بن الحکم نے پڑھائی ، آپ جنت البقیع میں دفن ہیں۔ عشرہ مبشرہ یعنی
جنت کی خوشخبر ی پانے والے دس صحابیوں میں سے یہی سب سے آخیر میں دنیا سے
تشریف لے گئے اور انکے بعد دنیا عشرہ مبشرہ کے ظاہری وجود سے خالی ہوگئی۔
(۹) حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
آپؓ خاندان قریش میں سے ہیں اور زمانہ جاہلیت کے مشہور موحّد زید بن عمرہ
بن نفیل کے فرزند اور امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے بہنوئی ہیں ۔ یہ جب
مسلمان ہوئے تو ان کو حضرت عمر فاروقؓ نے ان کے گھر میں جاکر ان کو اور
اپنی بہن فاطمہ بنت الخطاب ؓ کو بہت مارا ۔ مگر یہ دونوں استقامات کا پہاڑ
بن کر اسلام پر ثابت قدم رہے۔ جنگ بدر میں حضرت طلحہ ؓ اور ان کو حضورﷺ نے
ابو سفیان کے قافلہ کا پتہ لگانے کے لئے بھیج دیا تھا اس لئے جنگ بدر کے
معرکے میں حصہ نہ لے سکے مگر اس کے بعد کی تمام جنگوں میں شمشیر بہ کف ہوکر
کفار سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے۔ آپ دراز قد اوربہادر جوان تھے۔ آپ نے 50 ہجر ی
میں ستر سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ آپ جنت البقیع میں دفن ہیں۔
(10) حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ۔
یہ خاندان ِ قریش کے بہت ہی نامور اور معزز شخص ہیں۔ آپ کا خاندانی شجرہ
نسب فہر بن مالک پر رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔یہ بھی عشرہ مبشرہ
میں سے ہیں۔ ان کا اصل نام عامر ہے ابوعبیدہ ان کی کنیت ہے۔ ان کو بارگاہِ
رسالت سے ”امین الامتہ “ کا لقب ملا ہے۔ تمام اسلامی جنگو ں میں انتہائی
جان بازی کے ساتھ کفار کے ساتھ معرکہ آرائی کرتے رہے۔ جنگ اُحد میں لوہے
ٹوپی کی دو کڑیاں حضور اکرم ﷺ کے رخسار مبارک میں چبھ گئیں تھیں آپؓ نے
اپنے دانتوں سے پکڑ کر ان کڑیوں کو کھینچ کر باہر نکالا ۔ جس سے آپ ؓ کے
اگلے دو دانت ٹوٹ گئے تھے ۔ آپؓ بہت ہی شیر دل ، بہادر ، بلند قامت اور با
رعب چہرے والے تھے۔ ۸۱ہجر ی میں اُردن میں وفات پائی۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ
نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور مقام بیسان میں دفن ہوئے۔ وفات کے وقت آپ
کی عمر اٹھاون سال تھی۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ سے ڈرو،
اللہ سے ڈرو، میرے بعد صحابہ کو تنقید کا نشانہ مت بنانا۔ جس نے ان سے محبت
رکھی ، اس نے مجھ سے محبت رکھنے کی وجہ سے ان سے محبت رکھی ۔ جس نے ان سے
بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ جس نے ان کو
ایذا دی ، اُس نے مجھے ایذا دی۔جس نے مجھ کو ایذا دی ، اس نے اللہ کو ایذا
دی۔ اور جس نے اللہ کو ایذا پہنچائی تو عنقریب ہے کہ اللہ اس کو (عذاب میں)
پکڑ لے۔ (ترمذی ۔ جلد دوم ۔صفحہ 249) ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو صحابہ اکرام ؓ
کا احترام اور ان کی محبت عطا فرمائے۔آمین |