پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی چینل
پرنا ظرین سے ان کی ر ا ئے پو چھی گئی تھی کہ وطن عزیز(پا کستان ) کو سب سے
زیا دہ نقصان کس نے پہنچا یا؟ امریکہ نے یا اپنے حکمرا نو ں نے؟ میں نے بھی
اپنا خیا لی گھوڑا دوڑایا تو یہ با ت سامنے آئی کہ بڑی طا قت کسی بھی ملک
کی آزادی سلب کرنے یا اس پر قبضہ جمانے کے لئے مختلف حکمت عملیا ں بنا تی
ہیں۔ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ا علان جنگ کر کے یا اعلان جنگ کئے بغیر زیر
ہدف ملک پر زمینی یا فضا ئی حملو ں کی یلغا ر کر دی جا ئے اور ملک کی قیادت
کو مار کر یا قید کر کے پو رے ملک پر قبضہ جما لیا جا ئے جیسے عراق اور ا
فغا نستان میں ہو ا۔اگر چہ تا ریخ کا سبق یہ ہے کہ غا صبو ں کے لئے ایسا
قبضہ ہمیشہ ایک مہنگا سودا ثا بت ہو تا ہے۔عراق اور ا فغا نستان میں جو
صورت حال دکھا ئی دے رہی ہے وہ بھی ایسی ہی ہے،جہا ں ہزاروں انسانوں کا جا
نی اور کھر بو ں
ڈالرز کا ما لی نقصان ہو چکا ہے۔اس کے با و جود ہزیمت اور شکست امر یکہ اور
اتحا د یو ں کی آ نکھو ں میں آ نکھیں ڈال کر گھو ر رہی ہے۔
ملک فتح کرنے کا دو سرا طر یقہ یہ ہے کہ زیر ہدف ملک کے اندر بے تحا شہ سر
ما یہ کا ری کی جائے، تجارت پر قبضہ جما یا جا ئے اور اسے ناک تک قر ضو ں
میں اس طر ح ڈ بو یا جا ئے کہ اس کی قیا دت با لکل مفلو ج ہو جائے۔اس کی
مثا ل انگر یزو ں کی ا یسٹ ا نڈ یا کمپنی ہے،جس نے ہند و ستان پر اسی حکمت
عملی کے ذ ر یعے قبضہ کر لیا تھا۔
کسی ملک پر قبضہ جما نے کا تیسرا طر یقہ یہ ہے کہ زیر ہدف ملک کے ایلیٹ اور
با اختیار طبقہ کے ذ ہنوں کو مغلوب کرتے ہو ئے اس ملک کو معا شی طو ر پر
اتنا کمزور کیا جا ئے کہ ان کا اپنا جھنڈا اور قو می ترانہ تو مو جود ہو،ا
یو ا ن با لا اور ایو ان ز یر یں بھی مو جو د رہے جس کے اندر قا ئد حزب
اقتدار اور قا ئد حزب اختلاف بھی متحرک نظر آ ئیں۔صدر، و زیر ا عظم اور
دیگر و ز ر اءاپنے کا روں پر جھنڈے لہر ا تے نظر آ ئیں مگر در حقیقت وہ
آزاد نہیں ہو تے بلکہ ان کا پو را کنٹرول بیرونی طا قتو ں کے ہا تھوں میں
ہو تا ہے۔ایسے ملکو ں میں بھوک و ا فلاس اور ا فرا تفری کو با قا عدہ ایک
منصو بے کے تحت جا ری رکھا جا تا ہے تا کہ مقروض زیر ہدف ملک بیر و نی
امداد کا ہمیشہ محتاج رہے اس لیے اس کی کو شش یہ ہو تی ہے کہ د یگ کے نیچے
اتنی آگ ہمیشہ دھکتی رہے جس سے دیگ کے اندر کا موا د ابلتا رہے۔۔
وطن عزیز (پا کستان) ایسے ہی حملے کی ذد میں ہے۔مگر دکھ کی با ت یہ ہے کہ
ہمارے عوام با لکل بے نیازی اور بے بسی سے اپنے ملک پر بیرونی تسلط کو مضبو
ط ہو تا دیکھ رہی ہیں مگر پھر بھی خا موش تماشا ئی بنے بیٹھے ہیں ۔سوال یہ
پیدا ہو تا ہے کہ کیا کو ئی بیرونی طاقت کسی ملک کے ار با ب ا ختیار و
اقتدار کی اجا زت اور آ شیر با د حا صل کیے بغیر کسی کے اند رونی معا ملات
میں د خل اندازی کر سکتی ہے؟
جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اس لئے ہمیں شکا یت امریکہ سے نہیں بلکہ اپنے ار
با ب اختیار اور حکمرانوں سے ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چا ہیے کہ آج
جو آگ ہما رے گلستا ن میں پھیلا ئی جا رہی ہے کل کو جب یہ بھڑ کنا شروع ہو
جا ئیگی تو با غ میں شعلے ضرور ا ٹھیں گے۔
اور مفاد پر ست جعلی با غبان اڑ کر بیر ون ملک اپنے محفو ظ گھو نسلوں میں
گھس جا ئینگے مگر اٹھارا کرو ڑ عوام تو یہا ں ہی ر ہینگے۔اس لئے یہ دکھی
قوم اسمبلیوں میں بیٹھے ان بہن بھا ئیوں سے(جو پاکستان کا تھو ڑا بہت درد
رکھتے ہیں ) التجا کرتی ہے کہ خدا را ! ان افراد سے نا طہ تو ڑ ڈ الئے جو
بیرونی مداخلت کو دعوت دے کر قو می سلامتی کو داؤ پر لگا چکے ہیں ۔اگر ایک
طرف امریکہ للچا ئی ہو ئی نظروں سے ہمار ی پاک سر زمین پر نظریں گاڑے ہو ئے
ہے تو دو سری طرف ہما رے اپنے بھی اس پاک سر زمین کو نقصان پہنچانے میں
برابر کے ذمہ دار ہیں۔اللہ کرے میرے ان خدشات میں کو ئی صداقت نہ ہومگر۔۔۔۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تبا ہیا ں
کچھ با غبا ں ہیں برق و شرر سے ملے ہو ئے |