دفاع پاکستان کونسل نے طاغوتی قوتوں کا چیلنج قبول کرلیا

لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں تاریخ ساز کامیابی کے بعد دفاع پاکستان کونسل 12 فروری کو کراچی میں بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ کانفرنس امریکا اور نیٹو کی دہشت گردی اورڈ رون حملوں کے خلاف منعقد کی گئی۔اس تاریخ ساز کانفرنس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی،جس میں اہلیان کراچی نے بھی دفاع پاکستان کونسل کے ایجنڈے کوتسلیم کرتے ہوئے وطن عزیز کو امریکی غلامی سے آزادی دلانے اورملکی سلامتی اور دفاع کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا۔اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے کونسل میں شریک تمام جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس پر یہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی جماعتیں کراچی میں عوامی طاقت کے مظاہرے کررہی ہیں اور یہ رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جس کے باعث کراچی کی سیاسی سرگرمیوں اور گہما گہمی میں اضافہ ہوگیا ہے جو بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ سے متاثرہ شہریوں کے لیے ایک خوش آیند بات ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے مزار قائد سے متصل باغ جناح میں 25 دسمبر 2011ءکو جلسہ کیا تھا جسے عمران خان نے سونامی قرار دیا ،جب کہ آل پاکستان مسلم لیگ نے بھی 8 جنوری کو اسی مقام پر 5 ہزار افراد کو جمع کرکے جلسہ کروایا، جسے پرویز مشرف نے ”زلزلے“ سے تشبیہ دی۔ برسبیل تذکرہ، سابق ڈکٹیٹر مشرف بھی آج کل منظر نامے سے غائب ہیں اور وہ قوم کے موڈ کو دیکھتے ہوئے وطن واپسی کے اعلان سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ سابق آمر پرویز مشرف کو، جس نے اپنے سیاہ دور میں قوم پر ظلم و جبرکی انتہا کردی آج بھی اسے موجودہ حکمرانوں کی معاونت حاصل ہے۔ پی پی کے بعض رہنما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس آمر نے سپریم کورٹ کے ججوں کو پابند سلاسل کیا وہ تو آزاد پھررہا ہے لیکن جس منتخب وزیراعظم نے ججوں کی رہائی کا آرڈر جاری کیا اس پر فرد جرم عایدکی جارہی ہے۔

ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ڈکٹیٹر مشرف کے نومبر 2007ءکے اقدامات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر اسے غاصب قرار دیا تو کیا پھر موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ وہ اس آمر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں غداری کا مقدمہ چلاتے؟ لیکن انہوں نے گارڈ آف آنر دے کر اسے مکمل پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا اور اب حال ہی میں جب وہ بار بار وطن واپسی کی دہائی دے رہا تھا تو اس کے ہمنوا حکمرانوں نے اسے ڈرا دھماکر واپس آنے سے روک کر ایک تیر سے 2 شکار کیے۔ کیوں کہ اگر سابق ڈکٹیٹر وطن واپس آتے تو پھر موجودہ حکمران بھی آزمائش سے دو چار ہوتے اور اگر اسے گرفتار نہ کرتے تو ان کا بھی بھانڈا پھوٹ جاتا۔

بات دوسری طرف نکل رہی ہے۔ 27 جنوری 2012ءکو جے یو آئی (ف) نے بھی مزار قائد پر اسلام زندہ باد کانفرنس منعقد کی جسے توقعات سے بھی بڑھ کر پذیرائی ملی۔اب دفاع پاکستان کونسل بھی اسی جگہ تاریخ ساز کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب رہی۔ کراچی کے باسیوں نے ہمیشہ اسلام اور ملکی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر آواز پر لبیک کہا ہے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے بھی کراچی کے باسیوں میں جوش وخروش دیکھنے میں آیا، انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کر کے ذریعے کھل کر اپنے جذبات کا اظہارکیا۔ دفاع پاکستان کونسل میں مختلف الخیال اور مختلف مسالک کی جماعتیں پاکستان کے دفاع کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے بقول ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم غور کریں تو آج کے اس دور میں جب تمام کفریہ طاقتیں متحد ہوکر اسلام کے خلاف برسر پیکار ہیں، وہاں امت مسلمہ کو بھی آج متحد ہوکر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے، ورنہ ایک کے بعد دوسرے کا نمبر آئے گا۔ جیسا کہ افغانستان کے بعد امریکا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا، اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا، اس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا، اسلام پسندوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا اور ان نام نہاد حکمرانوں کے ذریعے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرکے اسے عدم استحکام کا شکار کرنے جیسی سازشیں بام عروج پر پہنچتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہمارے قبائلی جو پاکستان کی مغربی سرحد کے محافظ تھے، انہیں ڈرون طیاروں کی مسلسل بمباری کے ذریعے جنگ کی طرف دھکیل کر اپنے ہی ملک کا دشمن بنادیا گیا۔ ان حالات میں بھی ہمارے حکمران خاموشی تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو روزانہ 3 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ جب کہ وزیر مواصلات نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ نیٹو سپلائی کی وجہ سے قومی شاہراہوں کو 122 ارب روپے سے زاید کا نقصان ہوا ہے۔ ہر سال کے حساب سے 12 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور اس کا صرف 19 فی صد نیٹو کے ذمہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران نیٹو سپلائی کھولنے کے لیے پس پردہ کوششیں کررہے ہیں اور شنید ہے کہ امریکی حکمرانوں سے اس ضمن میں ڈیل ہوگئی ہے۔ سب سے بڑھ کر افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملے اور اس میں فوجی جوانوں کے مارے جانے پر حکمرانوں نے یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ نیٹو سپلائی بند کردی گئی ہے لیکن امریکی سفیر نے ان کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے واضح کردیا کہ ”اگرچہ زمینی راستے سے نیٹو رسد بند کردی گئی ہے لیکن فضائی راستے سے اب بھی جاری ہے۔“ امریکی سفیر کے بعد امریکی وزیر دفاع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ حکمرانوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھ کر امریکی غلامی کی بدترین مثال قائم کردی؟

دوسری جانب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ 2008ءسے 2011ءتک (تین سالوں) کے دوران واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے 52 ہزار سے زاید امریکیوں کو ویزے جاری کیے۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گرد بھی تو سفارتی ویزے پر آئے تھے۔ ان میں سی آئی اے کے ایجنٹ بھی شامل ہیں۔ آخر کس بنیاد پر امریکیوں کو یہ رعایت دی جارہی ہے جب کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمارے وزراءاور ارکان پارلیمنٹ کی بھی امریکی ائیر پورٹوں پر تلاشی کے نام پر بے عزتی کی جاتی ہے۔

ان حالات کا تقاضا ہے کہ دشمن اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف متحد ہوکر ان کا مقابلہ کیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے دفاع پاکستان کونسل کا پلیٹ فارم معرض وجود میں لایا گیا۔ آج امت مسلمہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے۔ یہود و نصاریٰ اور ہنود و کمیونسٹ اپنے تمام تر اختلافات بھلاکر امت مسلمہ کی تباہی کے نکتے پر مجتمع ہوچکے ہیں۔ ہمیں بھی ان طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آنا ہوگا۔ اہل ایمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ دفاع پاکستان کونسل نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے نیٹو سپلائی لائن بحال ہونے کی صورت میں بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے قائدین نے نیٹوسپلائی لائن کی بحالی کے خلاف 20فروری کو پارلیمنٹ ہاﺅس کے گھیراﺅ کا اعلان کیاہے۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی میں طاقت ہے تو روک کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دفاع پاکستان کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہوں کیوں کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اگر یہ ملک ہے تو سیاسی جماعتیں ہیں۔ اگر یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 88331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.