پرنٹ میڈیا کمزور حریف نہیں۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ہر طرف ایک عجیب سی بحث ہو رہی ہے ۔لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ الیکٹرونک میڈیا کے آجانے اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی بدولت پرنٹ میڈیااپنا اصل مقام کھو بیٹھا ہے۔اور شائد آنے والے وقتوں میں اس کا سورج ڈھل جائے گا۔یہ ایک قابل فکر بات ہے کیا حقیقت میں اس بات میں کوئی سچائی ہے کیا نہیں؟آئیے ہم بھی اس بحث میں شریک ہوتے ہیں ۔

الیکٹرانک میڈیاہر خبر کو فوری طور پر نشرکرتا ہے ا ور ہمیں تمام تر حالات سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔یہ سائنس کی جدید دریافت ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیامیں اتنی گنجائش نہیں کہ وہ ہر خبر کے ہر پہلو کو اجاگر کر سکے اورعوام کے سامنے خبر کے سارے رخ دیکھا سکے یا پھر کسی خبر کی کاٹ چھانٹ کرسکے۔ہاں الیکٹرانک میڈیا کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم جو چیز اگلے دن کے اخبار میں دیکھتے ہیں وہ ہمیں فورا سے پہلے مل جاتی ہے۔جبکہ پرنٹ میڈیامیں یہ سہولیات موجود ہوتی ہیں۔آپ اسی کو ہی پرنٹ میڈیا کی خوبصورتی کہہ سکتے ہیں کہ کتنی خوبصورتی سے خبر کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے اور خبر دیر سے ملنے کے باوجود بھی عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔اس سے لوگوں پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ شائد الیکٹرنک میڈیا کی نسبت پرنٹ میڈیا اپنی ساخت کھو رہا ہے۔لیکن ہم لوگوں کو ہی بات بھی یاد ہونی چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ پہلے خبر کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرے اور پھر عوام کے سامنے پیش کرے ۔ان کو جو ملا جیسا ملا بس دیکھا دیااس کا بعض اوقات ان کے امیج پر بھی کافی فرق پڑتا ہے کہ اگر خبر جھوٹی ہو یا پھر اصل حقائق اس کے بر عکس ہوں تو۔

لوح و قلم کا تعلق توصدیوں سے قائم ہے۔انسان کا لکھے ہوئے الفاظ کے ساتھ کبھی ناطہ توڑا نہیں جا سکتا۔اور اسی چیز کو ہم پرنٹ میڈیا کا نام دیتے ہیں۔پرنٹ میڈیا پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک واقعہ کے و قوع پزیر ہونے سے لے کر اس کی پوری تفصیل تک کا کام پرنٹ میڈیا میںباخوبی طور پر سرانجام دیا جاتا ہے۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا ایک کمزرو حریف ہے اور یہ اپنی مقبولیت کھو رہا ہےاور آنے والے وقتوں میں اس کا نام و نشان ختم ہو جائے گا ۔ہمیں یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ پرنٹ میڈیا ایک کمزور روایت نہیں ہے یہ وہ گھنا درخت ہے جس کی جڑیں زمین کے اندرپھیلی ہوئی ہیں اور اس کو اکھیڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ہمارے ہاں بہت سی چیزوں کا تصور اس لیے قائم ہے کہ وہ قدیم ہیں اورقدیم چیزیں ہی عظیم ہوتی ہیں۔اور عظیم چیزیں کبھی فنا نہیں ہو سکتیں۔

پرنٹ میڈیا ہمیشہ لوجک،حقائق،ثبوت کی بنا پر کام کرتا ہے۔پرنٹ میڈیا سے وابسظہ لوگ ادیب،اہل فکراور اہل دانش ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنی بات کو اپنے خاص انداز میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں کی لوگ اس سے با خبر بھی ہو جائیں اوران کوکوئی بات بری بھی نہ لگ جائے۔انسان اور الفاظ کا رشتہ زمانہ قدیم سے قائم ہے اور یہ رشتہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ہمارے پاس جو بھی چیز لکھے ہوئے الفاظ کی صورت میں موجود ہوتی ہے اس کی قدر و قیمت سے کوئی انکا ر نہیں کر سکتا۔اور اس میں غلطیوں کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔پرنٹ میڈیا بھی ایک قدیم روایت ہے جسے کبھی بدلہ نہیں جاسکتا۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں ان لوگوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جو لوگ اس روایت کا حصہ ہیں ہمیں ان کی بھی رکھوالی کرنی چاہیے۔

کہتے ہیں کی سمندر کی گہرائی کا اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک اس میں کواترا نہ جا سکے۔الفاظ بھی کسی سمندر کی مانند ہیں جس کی اصل گہرائی اس کو پڑھنے اور سمجھنے والے ہی لگا سکتے ہیں۔ہم ٹی وی دیکھتے ہیں،خبریں سنتے ہی ںلیکن لکھے ہوئے الفاظ کی عظمت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔دنیا میں الیکٹرانک میڈیا جتنی بھی ترقی کر لے ارتقاءکا عمل ایسے ہی چلتا رہے گااور پرنٹ میڈیا کو کبھی زوال نہیں آ سکتا۔

دیکھا جائے تو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یعنی اخبار اور ٹی وی ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔یہ دونوں مل کر عوام کو اپنے اپنے طریقے سے خبریں پہنچا رہے ہیں۔ان دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔یہ دونوں ایک منزل کے ساتھی ہیں اور ان کا کام اور مقصد بھی ایک ہے ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کی ان کے راستے ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔فرق صرف ان کی رفتار میں ہے لوگوں کو ایک خبر کازیادہ ا نتظار نہیں کرنا پڑتالیکن جوانتظار کے بعد ہم تک جو خبر پہنچتی ہے وہ اتنی ہی قابل یقین بھی ہوتی ہے۔

ہار اور جیت کا فیصلہ وہاں ہوتا ہے جہاں دو دشمن آمنے سامنے ہوں لیکن یہ دونوں تو ایک دوسرے کے دوست ہیں۔جو کہ ایک دوسرے کے کام کو آگے پہنچا رہے ہیں۔حقیت میں توالیکٹرانک میڈیا کی پیدائش پرنٹ میڈیا سے ہی ہوئی ہے۔الیکٹرانک میڈیا کی ترقی پرنٹ میڈیا کی بدولت ہی ہے۔الیکٹرانک میڈیا میں جو کچھ بولا جاتا ہے وہ بھی ایک تحریر ہی ہوتی ہے جسے کوئی بھی اینکر بولتا یا پڑھتا ہے۔الیکٹرانک میڈیاجیسے جیسے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ۔یہ اس کا حق ہے۔لوگ فوری طور پر معلومات کے لیے اس سے رجوع کرتے ہیں لیکن پرنٹ میڈیا اپنا ایک خاص مقام ،اپنی ایک خاص جگہ رکھتا ہے اور لوگوں میں بے حد مقبول ہے اور رہتی دنیا تک اس کی مقبولیت برقرار رہے گی۔

اگر ہم لوگ چاہتے ہیں کہ یہ دنیا ہمیں یاد رکھے تو کوئی ایسا کام کر جائیں یا پھرکچھ ایسا لکھ جائیں کہ رہتی دنیا تک لوگ آپ کو پڑھیں آپ کی مثالیں دیں اور آپ کے گن گائیں۔
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 17776 views I am student of master in mass communication.. View More