یہ کیسا جہاد ہے؟

”یہ کیسا جہاد ہے جو ایجنسیوں کے کہنے پر کیا جاتا ہے اور ان ہی کے کہنے پر روک بھی دیا جاتا ہے، یہ کس طرح کی امریکہ مخالف پالیسیاں ہیں کہ جب ایجنسیاں کہیں تو بڑے بڑے مظاہرے شروع کردئے جاتے ہیں، لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لے آیا جاتا ہے اور جب ایجنسیاں روکیں تو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر، ڈرون حملوں پر حتیٰ کہ لال مسجد آپریشن کے وقت سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے، کیا لال مسجد آپریشن جس کے نتیجے میں بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، معصوم طالبات، وہ طالبات جن کا چہرہ شائد کبھی آسمان نے بھی ننگا نہ دیکھا تھا، ان کو فاسفورس بموں کا نشانہ بنا دیا گیا، کیا اس وقت ساری مذہبی قیادت سو رہی تھی، کیا اس وقت ان کی زبانیں ان کے دہنوں میں موجود نہیں تھیں، کیا اس وقت پاک فوج، ایجنسیوں اور خصوصاً مشرف ٹولہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی آڑ لے کر اپنی اپنی تنخواہیں نہیں بڑھوا رہا تھا، کیا امریکہ کو یہ باور نہیں کروایا جارہا تھا کہ پاکستان کے صدرمقام اسلام آباد میں ”مذہبی شدت پسند“ مذہبی لٹھ بردار“ اور طالبان کے حامی گھس آئے ہیں اور اگر امریکہ نے ”بھاڑے“ میں اضافہ نہ کیا تو ان کے خلاف کارروائی نہ ہوسکے گی، کیا وہ سارا ”ڈرامہ“ امریکہ اور مغرب کی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے نہیں رچایا گیا تھا جس میں ان بیگناہوں کا بھی خون کردیا گیا، کیا مشرف کا سارا دور لوگوں کی گمشدگیوں سے بھرا ہوا نہیں ہے اور کیا آج بھی دن دیہاڑے لوگوں کونہیں اٹھا لیا جاتا، سپریم کورٹ کے احکامات اگر حکومت نہیں مانتی تو کیا فوج اور ایجنسیاں مانتی ہیں؟“.... ایک ہی سانس میں جب وہ بولتا چلا گیا تو مجھے عجیب بے چینی نے آگھیرا، میں نے اس کو ٹوکا لیکن وہ کہاں رکنے والا تھا، کہنے لگا، پلیز میری بات پوری ہونے دیں پھر آپ اپنی کہہ لینا، میں بڑے آرام اور صبرسے آپکی بات سنوں گا“ مجھے لگا کہ اس کی بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی، جس میں دفاع پاکستان کونسل کے جلسوں کی بات شروع ہوگئی، مجھے پہچان کر تقریب کے اختتام پر اس نے چند منٹ بات کرنے کے لئے مانگے، اپنے تعارف کے بغیر ہی اس نے ایسے بولنا شروع کردیا جیسے کئی برسوں سے تشنہ ہو اور کسی کو اپنے دل کی بات سنانا چاہتا ہو،اس کے ماتھے پر سجدے کرنے سے ”مہراب“ بھی بنا ہوا تھا، چہرے پر داڑھی بھی تھی اور بات چیت سے بڑا مہذب آدمی لگ رہا تھا، مجھے آمادہ پا کر اس نے دوبارہ سے کہنا شروع کیا ۔

”مجھے معلوم نہیں کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے، آپ کس مذہب اور مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ،میں کسی تفرقہ بازی میں نہیں پڑتا، میں کسی مسلکی تقسیم میں جائے بغیر کوشش کرتا ہوں کہ خالص اللہ اور اس کے رسول کی بات کو مان کر اس پر عمل پیرا ہوسکوں، اب مجھے پتہ نہیں کہ مجھے لازماً کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہئے، کسی کا مقلد ہونا چاہئے، اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی اور کی بھی بات ماننا کس قدر ضروری ہے لیکن ایک بات جس کو میں اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپکو ہرگز ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس پر آپ خود عمل پیرا نہ ہوں یا بوجوہ نہ ہوسکتے ہوں، مجھے ایک بات بتائیں کہ اگر حکومت نیٹو سپلائی کو دوبارہ کھول دیتی ہے تو کیا یہ نئی بات ہوگی، جب سے امریکہ نے افغانستان میں صلیبی جنگ شروع کررکھی ہے پاکستان نے اس کو راہداری نہیں دے رکھی، کیا ڈرون حملے اب شروع ہوئے ہیں، کیا پاکستان نے امریکہ کو اپنے بندے آج بیچنا شروع کئے ہیں؟، سب کا جواب ہے بہت بڑا نفی، تو یہ کیا بات ہے کہ ہماری ساری مذہبی جماعتوں بشمول حمید گل، اعجاز الحق اور شیخ رشید کو آج دفاع پاکستان کا خیال آیا، دفاع پاکستان کونسل میں تقریباً ساری ہی مذہبی جماعتیں شامل ہیں اور وہ جماعتیں بھی جو کبھی جہاد افغانستان اور کبھی جہاد کشمیر کے نام پر لوگوں کے بیٹوں کو ”شہید“ کروانے بھیج دیتے ہیں لیکن مجھے کوئی یہ بتلائے کہ ان جماعتوں کے لیڈران کے اپنے کتنے بچے شہید ہوئے اور لیڈران میں سے خود کتنے لوگ جذبہءشہادت سے معمور ہوکر جہاد کے میدان میں اترے؟ بھائی صاحب! ہم تو اس نبی ﷺکے ماننے والے ہیں جس نے میدان جنگ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے، ہم تو اس اللہ کے آخری ﷺنبی کے نام لیوا ہیں جنہوں نے غزوات میں خود حصہ لیا اور کفار کے خلاف معرکوں کی قیادت کی، میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن ہمارے مذہبی آقاﺅں میں سے کتنے لوگ شہادت کی آرزو لئے پھرتے ہیں، ان لشکروں کے مجاہدین کتنے کفار کے خلاف لڑے ہیں اور اگلی صفوں میں پہنچے، ان کو یقینا علم ہے کہ شہید ہوکر بندہ فوت ہوجاتا ہے اور پھر اللہ کے پاس بھی پہنچ جاتا ہے، ایسی صورت میں نہ تو دنیاوی پروٹوکول ملتا ہے نہ بکتر بند گاڑیاں اور سکیورٹی، ایسی صورت میں دنیاوی مال و متاع سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے،وہ قلعے جنہیں ایجنسیوں نے تعمیر کرواکر دیاہوا ہے اور جن کے پاس سے گزرتے ہوئے عام انسان ویسے ہی وحشت زدہ ہوجاتا ہے ان مضبوط قلعوں سے کچی پکی قبروں میں بھی منتقل ہونا پڑتا ہے، یہ سارے لوگ جو اس وقت دفاع پاکستان کے نام سے بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کررہے ہیں، یہ اس وقت کہاں تھے جب امریکہ نے پاکستانی علاقوں میں دراندازی اور ڈرون حملے شروع کئے تھے، آپکو شائد یاد ہو کہ ایک مدرسے پر حملے میں اسی سے زائد نوعمر بچے شہید کردئے گئے تھے لیکن پورے پاکستان میں شائد ہی کوئی ایسا مذہبی لیڈر تھا جس نے اس طرح کے جلسے یا مذمتی جلوس نکالے ہوں، کتنے ہی پاکستانی ہماری ایجنسیوں نے امریکہ کو بیچ دئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، اس لئے کہ اس وقت ایجنسیوں نے ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا، کیا اس وقت کشمیر میں ہندوستان ظلم نہیں کررہا، کیا اس وقت پوری دنیا میں مسلمان چین کی زندگیاں گزار رہے ہیں، کیا انہیں کوئی دکھ، کوئی تکلیف نہیں دی جارہی، کیا ان پر مظالم نہیں ڈھائے جارہے، لیکن اب جہاد ” ساقط“ کردیا گیا ہے، اب بھی میری بات یاد رکھنا کہ جس دن ”اوپر“ سے تنخواہ بڑھا دی گئی اور تھوڑے ”کم اوپر والوں“ نے منع کردیا، یہ جلسے، یہ تقریریں اور یہ لیڈران آہستہ آہستہ غائب ہونا شروع ہوجائیں گے، یہ سب صرف اپنی تنخواہیں بڑھانے کے چکر میں ہیں، پاکستان کے غریب لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، میں جہاد کے خلاف نہیں، کوئی بھی مسلمان نہیں ہوسکتا لیکن جہاد ایجنسیوں کے کہنے پر نہیں بلکہ فی سبیل اللہ ہونا چاہئے، اپنی تنخواہیں بڑھوانے کے لئے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا بول بالا کرنے کے لئے ہونا چاہئے“۔ اپنی بات ختم کرکے اس نے مجھ سے کہا، اب آپ کیا کہتے ہیں، یقین مانئے تو میں کچھ کہنا ہی نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی میں نے ایسی کوئی جسارت کی، وہ اٹھا، مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207389 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.