دخترِ پاکستان عافیہ کی کہانی

2مارچ 1972ءکو گلشن اقبال کراچی کے ڈاکٹر محمد صدیقی کی بیوی عصمت کے ہاں پیدا ہونیوالی بچی کے بارے میں کیا خبر تھی کہ 38برس بعد اس کا ٹھکانہ امریکہ کی جیل ہوگا اسے آج دنیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے جانتی ہے کراچی میں ہی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1990ءاپنے بڑے بھائی کے پاس ٹیکساس امریکہ جا پہنچی ‘جہاں اس نے ہوسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا یہاں ایک سال پڑھنے کے بعد عافیہ میوچٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی MITمیں آگئی جہاں اس نے اپنی زندگی کے نہایت بہترین دن گزارے۔ان 10سالوں میں عافیہ نے یہاں سے نیورو لوجیکل سائنسز میں PHOکی ۔مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی لگن میں عافیہ نے اس کیساتھ ہی ایک اور یونیورسٹی Braideis Unvمیں داخلہ لے لیا اور یہاں Genetice nevrosciences میں پڑھنے لگی۔یہیں عافیہ کی ملاقات نیوروسائنسز کے ہی ایک سٹوڈنٹ محمد امجد خاں سے ہوئی جو کہ کراچی کا رہائشی تھا تعلیم اورذہنی یکسانیت کی بدولت 1995ءمیں عافیہ نے امجد خاں سے شادی کر لی۔شادی کے ایک سال بعد 23-11-96 کو ان کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی جس کا انہوں نے ”احمد“ نام رکھا جبکہ دو سال بعد 5اگست 1998ءکو ”مریم“ پیدا ہوئی اسی دوران نائن الیون روپذیر ہوا اور اسکے ساتھ ہی عافیہ کا دکھوں کا سفر ہی شروع ہوگیا نائن الیون کے بعد عافیہ اور امجد کچھ دنوں کیلئے پاکستان آئے لیکن پھر واپس امریکہ چلے گئے مئی 2002ءمیں FBIنے انہیں اس الزام کے تحت پکڑ لیا کہ آپ نے 10ہزار ڈالر میں نائٹ وژن گوگلز‘بلٹ پروف جیکٹس اور 45ملٹری سٹائلز بکس کیوں خریدی ہیں؟جس کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ ہم نے اسے محض شکار اور کیمپنگ کی غرض سے خریدا تھا۔خیر انہیں چھوڑ دیا گیا اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ پاکستان لوٹے تو 3اگست 2002ءکو انکے سب سے چھوٹے بیٹے سلمان کی پیدائش ہوئی۔جس کے دو ہفتوں بعد ہی عافیہ کی دکھوں بھری زندگی کے ایک اور باب کا آغاز ہوا اور اسے طلاق ہوگئی کہ یہ آگ وخون کا دریا اسے اکیلے ہی عبور کرنا تھا ایک رپورٹ کے مطابق جب وہ اپنے تیسرے بیٹے کی آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اسے طلاق ہوگئی تھی۔

25دسمبر 2002ءکو کرسمس کے موقع پر عافیہ اپنے بچوں کو اپنی ماں کے ہی پاس چھوڑ کر اپنی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے پاس ایک بار پھر امریکہ آئی جو کہ بالٹی مور میں Sinai hospitalمیں ملازمت کرتی تھی۔یہاں عافیہ نے اپنے لیے کسی موضوع جاب کی تلاش شروع کی لیکن عافیہ کو یہاں اپنے گرد خطرہ خطرہ سا محسوس ہونے لگا چنانچہ وہ فروری 2003ءکو پاکستان واپس لوٹ آئی۔اور پھر مارچ 2003ءکو امریکہ نے اپنی ٹی وی چینلز پر عافیہ کی تصاویر مشتہر کر دیں اور اس میں انہوں نے اسے القاعدہ کا ایک خطرناک رکن ظاہر کیا اور یہ واضح طور پر 9/11 کے بعد مسلمانوں کو بے جا حراساں رکھنے کی امریکی مہم کا حصہ تھا۔انہی دنوں میں نیوز ویک نے ایک سٹوری چھاپی‘جس میں اس نے القاعدہ کے دو بڑے ممبران خالد شیخ محمد پاکستانی اور علی المصری قطری کیساتھ عافیہ کو بھ منسلک کر دیا اور اسے القاعدہ کا ایک بڑے رکن کا درجہ دے دیا اسی اثناءمیں خالد شیخ محمد پنڈی سے پکڑا گیا تو عافیہ کے حوالے سے بڑی بڑی خبریں آنا شروع ہوگئیں اور عافیہ کے گرد گھیرا تنگ کر نا شروع کر دیا گیا۔

تب 30مارچ 2003ءکو عافیہ نہایت گھبراہٹ کے عالم میں اپنی ماں کے گھر گلشن اقبال سے نکلی تو اس کیساتھ6سالہ بیٹا احمد‘4سالہ مریم اور چھہ ماہ کا سلمان ہمراہ تھا‘ عافیہ میٹروکیب ٹیکسی میں سوار ہوکر کراچی ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئی جہاں سے اس کا پروگرام پنڈی جانے کا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور ”عشق کے امتحاں ابھی اور بھی تھے“ ۔تب معصوم عافیہ کو اس کے معصوم بچوں کے ہمراہ بھیڑیوں نے رستے میں ہی دھر لیا۔اس سے اگلے روز وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے ایک بڑی پریس کانفرنس میں اسکی گرفتاری کی تصدیق کر دی۔انہی دنوں میں خفیہ ایجنسیوں کے لوگ عافیہ کے گھر جاتے رہے اور گھر والوں کو خاموش رہنے کیلئے ڈراتے دھمکاتے رہے ۔30دسمبر 2003ءکو عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اعجاز الحق کے ہمراہ فیصل صالح حیات سے ملاقات کی تو اس نے یہ کہہ کہ تسلی دی کہ مجھے یقین ہے کہ عافیہ کو چھوڑ دیا گیا ہو گا آپ خاموش رہو اور اس کے فون کا انتظار کرو لیکن عافیہ آئی نہ اس کا فون اس دوران عافیہ کے حوالے سے ایک گہری خاموشی چھائی رہی۔

2004ءکے تقریباً درمیان میں FBIنے چور مچائے شور کے مصداق ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی ویب سائٹ پر عافیہ کی تلاش کااشتہار دیا حالانکہ عافیہ واضح طور پر FBIکے ظلم کی چکی میں ہی تو پس رہی تھی اسی حوالہ سے ایک دفعہ برطانوی مسلم وزیر لارڈ نذیر احمد نے ہاﺅس آف لارڈز انگلینڈ میں ایک احتجاجی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ بگرام افغان جیل میں 650نمبر ایک قیدی خاتون ہے جس کے ساتھ امریکیوں نے نہایت ظلم روا رکھا ہوا ہے وہ اسے وحشیانہ جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ آفیسرز کی طرف سے اس کیساتھ ریپ کرنے کے شواہد بھی ملے ہیں اسے مردوں کیساتھ ہی رکھا گیا ہے حتیٰ کہ اسے علیحدہ ٹوائلٹ کی سہولت نہ دی گئی ہے لیکن ظلم وجور کے اس نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟پھر ہوا یوں کہ ایک بے گناہ پاکستانی قیدی معظم بیگ جو کہ فروری 2002ءمیں اسلام سے گرفتار کیا گیا قندھار بگرام اور آخر کار گوانتا ناموبے سے ہوتا ہوا 2005ءمیں رہا ہوا۔آزادی کے بعد اس نے ایک کتابThe Enemy Combatant لکھی ۔جس میں اس نے مندرجہ بالا قیدی نمبر650کا بھی تذکرہ کیا۔معظم بیگ نے لکھا کہ بگرام جیل میں ایک قیدی خاتون جسکا نمبر650 ہے موجود ہے جب امریکی اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو اسکی دلدوز چیخوں سے پوری بگرام جیل لرز اٹھتی تھی جس پر مشہور زمانہ نو مسلم برطانوی BBCصحافی خاتون یو نے ریڈلی نے تحقیق کا آغاز کیا۔تب 7جولائی 2008ءکو اسلام آباد میں عمران خان کے ہمراہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں یونے ریڈلی نے انکشاف کیا کہ 650نمبر قیدی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہے ریڈلی کے اس دھماکہ خیز انکشاف کے نتیجے میں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ لگے اپنی بغلیں جھاڑنے‘تب انہوں نے ایک بہت بڑا ڈرامہ رچایا اور اگر اسے دنیا کاسب سے بڑا جھوٹ قرار دیا جائے تو بصید نہ ہوگا۔

3اگست 2008ءکو عافیہ کے ہوسٹن (ٹیکساس)میں مقیم بڑے بھائی کے پاس FBIکا ایجنٹ آیا اور انہیں مطلع کیا کہ عافیہ افغانستان سے پکڑی گئی ہے جبکہ اس سے اگلے روز امریکی فیڈرل پراسیکیوٹر نے میڈیا کے سامنے کنفرم کیا کہ عافیہ وسط جولائی میں افغانستان سے پکڑی گئی ہے حالانکہ سب کچھ جھوٹ کے ایک بڑے پلندے کے سوااورکچھ نہ تھا اس کیلئے انہوں نے یہ کہانی گھڑی کہ عافیہ 17جولائی کو گورنر غزنی کے محل کے صحن میں مشکوک حالت میں چلتے ہوئے پائی گئی اورANPافغان نیشنل پولیس نے اس کے بیگ سے بارود بنانے کے نوٹس‘اہم امریکی عمارات کی تصاویر اور دھماکہ خیز دھاتیں برآمد کی ہیں اسی پر بس نہیں پھر یہ کہا گیا کہ اگلے دن ایک VSپرسنلز پارٹی عافیہ سے پوچھ گچھ کیلئے گورنر غزنی کے محل میں گئی جس میں FBIکے دو سپیشل ایجنٹ‘ایک VSآرمی وارنٹ آفیسر‘ایک VSآرمی کیپٹن جبکہ ایک VSملٹری ٹھیکیدار تھا جو کہ مبینہ طور پر بلیک واٹر کا اہلکار تھا شامل تھے وہ محل کے سیکنڈ فلور پر موجود میٹنگ ہال میں پہنچے تو عافیہ جو کہ پہرے داروں کی غفلت کی وجہ سے اسی کمرے کی کھڑکی کے پردوں کے پیچھے چھپی کھڑی تھی اس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے امریکی وارنٹ آفیسر کی گن M4کاربین اٹھا کر ان پر فائر کرنا چاہا۔تب امریکی بلیک واٹر اہلکار نے عافیہ کو فوراً دھکا دیکر نیچے گرا دیا اور پھر وارنٹ آفیسر نے اپنے 9MMسروس پسٹل سے عافیہ پر 2فائر داغ دئے اور یوں یہ بوگس کہانی مکمل ہوئی۔عافیہ کو پہلے پہل تو ٹیکساس جیل میں رکھا گیا جبکہ اب وہ نیو یارک کی بروکلین جیل میں ہے گزشتہ ہفتے 3فروری کو جب عافیہ امریکن ڈسٹرکٹ کورٹس آف نیو یارک میں اپنا فیصلہ سنے آئی تو وہ وھیل چیئر پر سوار تھی گوانتا ناموبے سٹائل اور نج رنگ یونیفارم میں ملبوس عافیہ نے اپنا سر سفید حجاب سے ڈھانپ رکھا تھا امریکی شہری پر حملہ کرنے 2001ءمیں القاعدہ کیلئے لائبریا افریقہ میں ہیرون کی تجارت کرنے اور القاعدہ کو دوسرے اور طریقوں سے سہولت دینے جیسے 7بوگس الزامات کو سچ ثابت کرتے ہوئے بدبخت امریکن جج مائیکل جے گارکیا نے جب عافیہ کے خلاف فیصلہ سنایا تو پاکستان کی اس آہنی بیٹی نے اپنا فیصلہ نہایت صبر وتحمل اور استقامت سے سنا۔عافیہ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اس سے پہلے کہ آسما ن گر پڑتا‘عافیہ کی وکلاءالزبتھ فینک اور ایلن وائٹ فیلڈ نے اس عزم کااظہار کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کیخلاف بھرپور دفاع کرینگی اور انہیں جس حد تک بھی جانا پڑا جائینگی۔عافیہ پر لگائے لگائے تمام الزامات بوگس ہیں لیکن ایک ایسا الزام کہ جس سے وہ انکاری نہیں اور وہ یہ کہ عافیہ ایک بنیاد پرست‘باعمل اور داعی خاتون تھی اور یہی اس کا جرم ٹھرا۔امریکہ میں قیام کے دوران اس نے اسلام کی دعوت کا کام جنون کی حد تک کیا اسی وجہ سے امریکی اس سے خائف تھے ۔MITمیں دورانِ تعلیم وہ اپنے کلاس فیلوز میں قرآن اور اسلامی کتب تقسیم کرتی۔اس نے وہاں قرآن کے سٹڈی سرکلز ترتیب دئے۔ عافیہ کے متعلق اس کی ایک امریکی ہمسائی نے اپنے بیان میں کہا کہ She just cameout have to teach us about allaha,and english wad not her first languageعافیہ نے امریکی جیلوں میں بھی دعوت کا بھرپور کام کیا جہاں وہ قرآن مجید اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کرتی رہی۔جہادِ بوسنیا نے عافیہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔عافیہ نے بوسنین عورتوں اور خصوصاً حاملہ بوسنین کے قتل عام پر ایک گرافکس پریزینٹیشن بھی بنائی۔جسے وہ اپنے لیپ ٹاپ کمپیوٹر پر لوگوں کو دکھاتی عافیہ نے اہل بوسنیا کیلئے بھرپور فنڈریزنگ کی اور اس کیلئے وہ باقاعدہ مقامی مسجد میں بھی گئی اور وہاں لیکچر دیا۔دوران خطاب اس نے نمازیوں سے پوچھا کہ کس کے پاس ایک سے زائد بوٹ ہیں تو آدھے نمازیوں نے ہاتھ کھڑے کر دئے جس پر عافیہ نے ترغیب دلائی کہ کیوں نہ یہ اضافی جوڑا آپ بوسنیا والوں کو دے دو تو اس پر نمازیوں اور حتیٰ کہ امام مسجد نے بھی اپنا ایک ایک جوتوں کاجوڑا دے دیا۔2004ءمیں بوسٹن میگزین میں عافیہ پر ایک مضمون چھپا‘جس میں لکھا گیا کہ عافیہ نے ایکس ٹڈی سرکل میں کچھ اس طرح کے اپنے خیالات کااظہار کیا۔May Allaha gives this strength and sincvity to us, So that our huwble effont continur and expands uutil Anrica becomes a muslim landعافیہ نے مقامی مسلم بچوں کے درجنوں گروپ ترتیب دئے ہوئے تھے۔جنہیں وہ باری باری ہر ہفتے ویک اینڈپر قرآنی قاعدہ پڑھانے جاتی۔بچوں کو قاعدہ پڑھانا ہی عافیہ کا جرم ٹھرا اور امریکیوں نے اس قاعدے سے القاعدہ بنا دیا۔عافیہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ”یہی چراغ جلے گے تو روشنی ہوگی“۔عافیہ کی کہانی میں اگرچہ درجنوں سوالات جنم لیتے ہیں مگر وہ تمام سوالات ہم نے اہل شعور کیلئے رکھ چھوڑے ہیں عافیہ کی کہانی یہیں پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔عافیہ کی کہانی سوائے ایک کردار کے مکمل ہے بش اور اوباما کی صورت میں راجہ داہر جبکہ راجہ داہر کے چیلوں کی صورت میں مشرف تو موجود ہے بس ایک محمد بن قاسم ؒ کی کمی ہے۔عافیہ کی پکار کون بنے گا ابن قاسمؒ؟
Hafiz Muhammad Amin Nafees
About the Author: Hafiz Muhammad Amin Nafees Read More Articles by Hafiz Muhammad Amin Nafees: 13 Articles with 14567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.