کوثر صدیقی،بھوپال
اُردو شعروادب کے بین الاقوامی منظر پر مامون ایمن کسی تعریف یا تعارف کے
محتاج نہیں ہیں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کےساتھ اعلیٰ مدرس بھی رہے ہیں
لاہور سے گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم نیویارک میں حاصل کی اور تین مختلف
شعبوں میں MAکرنے کے بعد وہیں کے کئی مختلف تعلیمی اداروں میں بحیثیت
پروفیسر تدریس کا کام بھی انجام دیا کچھ عرصہ آپ لندن میں انکم ٹیکس آفیسر
رہے اور BBCکے براڈ کاسٹنگ کے شعبہ سے بھی وابستہ رہے ۔آپ کی پیدائش اگرچہ
الٰہ آباد کی ہے لیکن تقسیم کے بعد والدین کے پاکستان ہجرت کی وجہ سے
پاکستانی شہری بن گئے فی الوقت آپ پاکستانی نژاد امریکی شہری کی حیثیت سے
نیویارک میں رونق افروز ہیں اور لہلائے اُردو کے گیسوﺅں کی آرائش میں شانہ
بدست ہیں ۔آپ کئی زبانوں کے واقف کار ہی نہیں بلکہ اُن کے علم وادب پر بھی
گہری نظر رکھتے ہیں۔ کالجوں کی سطح پر امریکہ جیسے ملک میں ادب کی تدریس
بھی ہے ایسا شخص اگر تخلیق ادب سے پشتہ قائم کرتا ہے تو اُس کے معیاری ہونے
میں شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ۔اُردو شاعری میں رباعی ایک وقیع
صنف ہے اس لیے اس کا تخلیق کار بھی وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔رباعی
میں بھی کہتا ہوں اور رباعی گو شعراءپر میری نظر بھی ہے لیکن یہ میری کوتاہ
علمی ہے کہ ابھی تک مامون ایمن صاحب کے شعری پس منظر سے ناواقف رہا ۔مجھے
صرف یہ علم ہے کہ آپ کا پہلا مجموعہ رباعیات ”احتساب“علامہ ناوک حمزہ پوری
نے 2004ءمیں شائع کیا تھا ۔عام طور پر شعراءاپنا شعری سفر غزل سے شروع کرتے
ہیں ،معلوم نہیں مامون ایمن صاحب نے اسی روایت کو قائم رکھا یا اسے توڑ کر
سیدھے رباعی گوئی کی طرف ملتفت ہوئے اگر رباعی گوئی سے شاعری کا آغاز کیا
تو واقعی اُن کیلئے باعث ِامتیاز ہے اور بساطِ شعروادب پر نوواردوں کیلئے
تقلید کا محرک بھی ۔ویسے ناوک صاحب نے زیر نظر مجموعے کی تقریظ میں آپ کی
غزل گوئی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ایمن صاحب کا ایک مکتوب جو اُنہوں نے اپنے مجموعہ رباعیات ”عرض “کےساتھ
ارسال کیا ہے میرے سامنے ہے مجھے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی کہ ایمن صاحب
میرے ہم وطن ہیں اور اُن کی روشن خیال اعلیٰ تعلیم یافتہ افسانہ نگار اہلیہ
محترمہ شائستہ سیّد ایمن (MA صحافت )کا تعلق الٰہ آباد کے قریب میرے آبائی
گاﺅں نظر گنج سے بھی ہے جہاں ہماری چھوٹی سی زمینداری تھی ۔زیر نظر مجموعے
کی خاص خوبی یہ ہے کہ تمام رباعیات 2010ءیعنی گذشتہ سال فریضہ حج کی
ادائیگی کے دوران ایک عام زائر حرمین شریفین کی حیثیت سے عشق الہٰی اور عشق
ِرسول کے جذبے سے سر شار ہو کر مسجد الحرام ،مکہ معظمہ ،مزدلفہ ،منیٰ
،عرفات،مدینہ اور مسجد ِنبوی جیسے متبرک پاکیزہ مقامات کیلئے کہی ہیں چونکہ
یہ سفر صرف تیس چالیس دن پر محیط ہوتا ہے حاجی کو مناسک ِحج سے ہی فرصت
نہیں ملتی ہے ایسے میں حاجی شاعر کو حمد ،نعت اور مقامات متبرک پر شعری
پابندیوں میں اظہار ِخیال کرنے کا خیال آتا ہے نہ فرصت ملتی ،اس لیے مختصر
وقفہ تخلیق میں زیر نظر مجموعے کی رباعیاں نوک ِقلم پر آنا ایمن صاحب کی
رباعی گوئی پر بدرجہ کمال گرفت اور بدیہہ گوئی کا ثبوت ہے چونکہ یہ متعلقہ
مقامات پر عین زیارت کے وقت ہی کہی گئی ہیں اس لیے ان میں تازگی ،جذبات اور
خیالات کی طہارت،صدق وصفا اور روحانیت ،بدرجہ رقم دکھائی دیتی ہے ۔کچھ
شعراءنے زیارت ومناسک ِحج منظوم کیے ہیں لیکن مامون ایمن کی طرح کسی اور
حاجی نے رباعی کی شکل میں حمد ،نعت اور مقامات ِ مطہرہ کا بیان منظوم کیا
ہو میرے علم میں نہیں ہے ان میں ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ فی البدیہہ اور
موقع ومقام پر کہی گئی ہونے کے باوجود یہ رباعیاں فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں
۔زیر نظر مجموعے کے دیباچے میں علامہ ناوک حمزہ پوری جسے دور ِحاضر کے
رباعی گویوں کے امام اور احیا کار رباعی کا مندرجہ ذیل اقتباس قابل ذکر ہے
۔
”کسی بھی شخص کیلئے اس سے زیادہ عزت افزائی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ
اُسے شمالی امریکہ میں بانی اُردو سمجھا جاتا ہو نیز جہاں تک رباعی کا تعلق
ہے اُنہیں وہاں ”بابائے رباعی “تسلیم کیا گیا ہے ۔“
مامون ایمن کی شہرت اور مقبولیت سات سمندر پار امریکہ میں اُردو کی نئی
بستیاں بسانے اور اُنہیں آباد کرنے سے بھی ہے نیویارک کے اپنے قریب نصف صدی
کے قیام کے دوران آپ نے اُردو انجمنوں کے قیام میں اور اُنہیں متحرک اور
فعال رکھنے میں اور اُردو دان طبقے کو تحریر وتخلیق کی طرف مائل کرنے کیلئے
بہت محنت کی ہے ۔رباعی کے 24ارکان ہیں اکثر شعراءمختلف رباعیوں میں بھی اور
ایک رباعی کے مختلف مصرعوں میں بھی مختلف اوزان استعمال کرتے ہیں جس سے اُس
کی روانی اور غنائیت مجروح ہوتی ہے ایمن صاحب سے اپنی مختلف رباعیوں میں
مختلف اوزان استعمال کرنے سے پرہیز کیا ہے اور رواں دواں کا استعمال کیا ہے
تاکہ اُن کی روانی ایک سُبک رو آبجو کی طرح قائم رہے اس کا اعتراف علم عروض
کے ماہر علامہ آفتاب حسن خاں صاحب نے اس طرح کیا ہے کہ ”عرض“میں شامل بیشتر
رباعیاں ،مفعول ،مفاعیل،مفاعلن فع/مفعول ،مفاعیل ،مفاعیل،فعل“میں ہیں نیز
اس میں کسی بھی رباعی میں مرکب اضافی ،مرکب عطفی وجزوی قوانی ،تقابل ردیفین
،کا استعمال نہیں کیا ۔مامون ایمن صاحب کا یہ اسلوب اُن کی دیگر رباعیوں
میں بھی نظر آتا ہے یہ اسلوب مجرد ہے کہ اُردو ادب کی تاریخ میں یہ اہتمام
کسی اور شاعر یا شاعرہ کے کلام میں نظر نہیں آتا“
منقولہ بالا اقتباس کے بعد ایمن صاحب کی رباعیوں کے فنی محاسن پر کسی قسم
کی مزید رائے یا تبصرہ کرنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لیے میں چند
رباعیاں بلاکسی انتخاب اور تبصرے کے پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ۔
مکہ مکرمہ
انوار نے ظلمات پہ نصرت پائی
انسان کی تقدیر نے حُرمت پائی
ہر خواب نے تقدیر کا چہرہ دیکھا
مکہ نے زمانوں میں وہ عزت پائی
مسجد ِنبوی
صحرا کی امانت ہے مہکتا گلشن
جذبات کا محزن ہے وفا کا آنگن
آرام کی جا ہے یہ مرے احمد کی
سائے میں ہے مسجد کے نبی کا مدفن
مدینة النبی
جذبوں سے رواں دل کا سفینہ جگ میں
انوار سے معمور خزینہ جگ میں
اس شہر میں تاباں ہے نبی کی ہستی
یہ شہر ،حسیں شہر ،مدینہ جگ میں
کعبة اللہ
وہ بھیڑ کہ تنہائی بھی ہنسنا چاہے
تنہائی بھی وہ ،بھیڑ میں دھنسنا چاہے
یہ جال ہی دیتا ہے رہائی دل کو
احساس اسی جال میں پھنسنا چاہے
زیر نظر مجموعے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ شمالی امریکہ سے شائع ہونے والا
رباعی کا یہ اولین مجموعہ ہے اس طرح اُردو رباعی نے برصغیر ہندوپاک سے نکل
کر بین الاقوامی مقام حاصل کرلیا ہے اس مجموعے کی دوسری خاص بات یہ بھی ہے
کہ یہ ایک پاکستانی نژاد امریکی شاعر کا ہونے کے باوجود باستشائے”تعارف
“جسے گل بخشالوی کھاریاں ضلع گجرات نے لکھا ہے تمام نقاریظ ہندوستان کی
معروف شخصیات علامہ ناوک حمزہ پوری ،علامہ شاہ حسین نہری ،سیّد یحییٰ
نشیط،علامہ آفتاب حسن خان اور قاضی رئیس حسن نے تحریر فرمائی ہیں جس سے
ایمن صاحب کا اپنے مولد وطن سے لگاﺅ ظاہر ہوتا ہے ۔ |