شمالی ہند میں موسم سرما رخصت
پذیر ہے۔ دارالحکومت دہلی سمیت متعدد علاقوں میں مچھروں کی یلغار شروع
ہوچکی ہے۔ایسے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔دروازوں پر جالی کے اہتمام کے
علاوہ متعدد مچھر مار ادویات بازار میں دستیاب ہیں۔ دریں اثناء ایک نئی
تحقیق کے مطابق ہر سال ملیریا کی بیماری سے دس لاکھ بیس ہزار افراد کو جان
سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں جو کہ گذشتہ اندازے سے پچاس فیصد زیادہ ہے۔نئی
تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملیریا سے ہونے یہ ہلاکتیں صرف کمسن
بچوں میں ہی نہیں دیکھی جا رہیں بلکہ اس سے بڑی عمر کے بچے اور بالغ افراد
بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ مچھروں کے کاٹے سے پھیلنے
والی اس بیماری کا پھیلاؤ ماضی کے مقابلے میں خاصا کم ہو گیا ہے۔ مذکورہ
تحقیق امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ
اولیو ایشن نے کی ہے جو کہ ’دا لینسیٹ‘ نے شائع کی ہے۔ اس کے مطابق سن دو
ہزار دس میں ملیریا سے بارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ نئے اعداد و شمار یقینی طور پر صحت سے وابستہ پالیسی میکرز کیلئے کسی
صدمے سے کم نہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں سن دو
ہزار دس میں ملیریا کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد سات لاکھ اکیاسی ہزار بتائی
گئی تھی۔امریکی محقیقین کے مطابق ملیریا سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
اس وجہ سے ریکارڈ کیا جا سکا ہے کہ تحقیق کیلئے ایک وسیع اور زیادہ قابل
بھروسہ ڈیٹا استعمال کیا گیا ہے۔نئی تحقیق کے مطابق ملیریا سے ہلاک ہونے
والے زیادہ تر پانچ برس سے کم عمر کے بچے ہیں۔ دو ہزار دس میں پانچ سے چودہ
برس کے بچوں میں ملیریا کے سبب ہلاکتیں اٹہتر ہزار تھیں جبکہ پندرہ یا اس
سے بڑی عمر کے لوگوں میں یہ ہلاکتیں ساڑھے چار لاکھ کے قریب تھیں، جو کہ
تمام ہلاکتوں کا بیالیس فیصد ہے۔ پانچ برس سے کم بچوں کی شرح اڑتالیس فیصد
بنتی ہے۔خیال رہے کہ سن دو ہزار چار میں دنیا بھر میں ملیریا سے مرنے والوں
کی تعداد اٹھارہ لاکھ تھی تاہم دو ہزار چار کے بعد سے اس تعداد میں کمی
دیکھی گئی۔ اس کی وجہ ملیریا کے توڑ کیلئے استعمال کی جانے والی بہتر
ادویات اور عالمی برادری کی جانب سے ملیریا سے نمٹنے کے لیے زیادہ بہتر
حکمت عملی کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ نئی تحقیق نے متنبہ کیا ہے کہ ملیریا
سے ہلاکتوں میں کمی کا رجحان پلٹ بھی سکتا ہے اگر اس مرض کیلئے عالمی سصح
پر فنڈنگ کو کم کیا گیا یا اس پر توجہ کم کی گئی۔ |