دوائیاں مہنگی ہوگئیں، حکومت کا ایک اور کارنامہ

غریب دوائی کھائیں تو مریں اور نہ کھائیں توبھی..؟

ہمارے ملک کے حکمرانوں نے اپنے ہی ملک میں گیس ، بجلی ، پیٹرولیم مصنوعات اور اجناس کی قیمتوں میں بے لگام اضافے کے بعد اَب ملک کے بیمار عوام کی استعمال میں آنے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی اندھادھنداضافہ کرکے ملکی تاریخ میں اپنے اقتدار کا ایک اورکارنامہ رقم کردیاہے یہ اِس عوام دوست حکومت کا ایساکارنامہ ہے جس کی وجہ سے ملک کے وہ بیمار عوام جن کے حلق سے بیماری کے باعث ایک نوالہ بھی نیچے نہیں اُترتاہے آج اِس ظالمانہ حکومتی اقدام پر ملک کے بیمار عوام بھی چیخ پڑے رہیں اور حکمرانوں کے اِس ظلم پر دہائی کررہے ہیں ۔

اِس میں آج کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے خالی ہوتے ہوئے قومی خزانے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ہمارے انتہائی محب وطن حکمرانوں کی مرضی اورمنشاسے( کہنے کوتو غیرفعال مگر اِس کام کے لئے فعال) وزارت صحت نے اپنے حکومتی اخراجات کم کرنے کے بجائے اُلٹا اپنے بیمارعوام کے لئے بھی دواؤں کی قیمت 20سے 100فیصدبڑھانے کی منظوری کا فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کردیاہے جس کے بعد ہمارے ملک میں ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کی مختلف دواؤں کی قیمتوں میں یقینی طور پر20سے 100فیصدتک اضافہ ہوگیاہے اِس حکومت اقدام سے متعلق خبر یہ ہے کہ انڈسٹری ذرائع نے سینہ چوڑاکرکے بیمار عوام کو مخاطب کرکے کہاہے کہ پہلے مرحلے میں تقریباََ350کے قریب و ہ ادویات جنہیں زیادہ تر ملک کا غریب طبقہ کثرت سے استعمال کرتاہے اِن کی قیمت بڑھادی گئی ہے جبکہ اِسی انڈسٹری ذرائع نے اِنہی بیمار عوام کویہ عندیہ بھی دے ڈالا ہے کہ بقیہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری آئندہ اجلاس میں یقینی طور پر دے دی جائے گی جس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 8فروری کے وزارت صحت کے بورڈکے اسلام آبادمیں ہونے والے اِس اجلاس سے جس میں 350ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیاگیاہے اِس سے ملک میں ادویات کی انڈسٹری کو استحکام ملاہے اِس پر ہمیں اُمید ہے کہ اگر حکومت نے اِسی طرح اور اِس سے بڑھ کرمزیدادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیاتوقوم کو اِس بات کا پورایقین کرلیناچاہئے ہے کہ اِس حکومتی اقدام سے ملک میں ہر میڈیکل اسٹور پر مہنگی ادویات توموجود ہوں گیں مگر کوئی بیمار نہیں رہے گا کیوں کہ بیچارے غریب بیمارافراد اِن مہنگی ادویات کو کھائے بغیر یعنی اِن کی بڑھی ہوئیں قیمتیں سُنتے ہی مرجائیں گے .... یہاں ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے کہ ہمارا دنیاکا یہی وہ واحد ملک ہے جہاں بیمار ادویات کھائیں تو مریں اور اِن کی قیمتیں سُن کر نہ کھائیں تو بھی مریں اَب ایسے میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ ہمارے ملک میں اُس عوام دوست جمہوری حکومت کے روٹی ، کپڑااور مکان کا نعرہ لے کر اقتدار کی کرُسی پر ایلفی لگاکر چپکے بیٹھے اِن حکمرانوں کا ایک ایساکارنامہ ہے جس کے لئے اِن پر تنقیدوں کو جنتی بھی انگلیاں اُٹھائی جائیں وہ بھی کم ہیں۔

اطلاع ہے کہ ہماری وزارتِ صحت جسے اگر عوام کی فلاح وبہود کے لئے کام کا کوئی کہئے تو یہی خود کو غیرفعال کہہ کر کنی کٹاجاتی ہے مگر آج جب اِسے عوام دشمن اور ادویات کی صنعتوں کے مفادات اور اقدامات کرنے کا موقع ملاتو یہی غیرفعال وزارت صحت اِس طرح متحرک ہوگئی جیسے اِس کے وجود میں 14000ولٹ کا کرنٹ دوڑگیاہواور اِس نے آؤ دیکھانہ تاؤ اور ترنت ہرقسم کے کف سیرپ (کھانسی کے شربت) کی قیمت میں 100فیصداضافے کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ ڈسپرین کے 600والے پیکٹ کی قیمت میں آنکھیں بندکرکے130روپے کا اضافہ کردیاگیاہے اور اِسی طرح لبریکس کی 20گولیوں والے پیکٹ کی قیمت میں 20روپے، پیناڈول کے 200گولیوں والے ڈبے کے نرخ میں 40روپے ، ٹراسیل500گولیوں والے پیکٹ کی قیمت میں 110روپے کا بے تحاشہ اضافہ کرکے بیماروں کو زندگیوں کی سے نااُمیدکرکے دیدہ و دانستہ طور پر مرنے کا انتظام کردیاگیاہے۔

یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ خود کو غیر فعال کہنے والی ہماری اِسی وزارتِ صحت نے فاسٹم جیل کی قیمت میں بھی140روپے، سوموجیل کی قیمت 19روپے ، سی پوریکس کیپسول کے نرخ بھی 20سے 100بڑھانی کی منظوری دے دی ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ شوگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کو یہ بھی بتادیاہے کہ ذیابطیس اور انٹی بائیوٹک ادویات کی قیمتوں میں بھی اِسی حساب سے اضافہ کردیاگیاہے اور ساتھ ہی غیر فعال مگر ادویات کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں تک لے جانے والی فعال وزارتِ صحت نے اِس عزم کا بھی اعادہ کیاہے کہ ہم آئندہ بھی ادویات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کریں گے اور اِس پر اِس نے یہ اُمید بھی ظاہر کی ہے کہ عوام اِس حکومتی اقدام کی ہر صُورت میں حوصلہ افزائی کریں گے اور حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے خالی ہونے والے قومی خزانے کو لبالب بھرنے کے لئے ادویات کو زائد قیمتوں میں خریدکراپناقومی فریضہ اداکریں گے ...اور بیمارمریضوں کو ادویات استعمال کرنے سے پہلے یہ یقین بھی کرلیناچاہئے کہ شفادینایانہ دیناتو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر کیاہی اچھاہوکہ ہمارے ملک کے بیمار مریض جاتے جاتے یعنی مرتے مرتے بھی مہنگی ادویات یہ سمجھ کرخریدیں کے اِس سے یہ قومی خزانے کو بھرکر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے خدمت کررہے ہیں ۔

آج امریکیوں کو دیوتاسمجھ کر اِن کی بوچاکرنے والے ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے اِن دیوتاؤں کی اوتار میں اتنے منہمک ہوگئے ہیں کہ اِن کے یہی دیوتا اِنہیں اپنے ہی ملک (پاکستان) میں جوکرنے اور نہ کرنے کا حکم دیتے ہیں توہمارے یہی حکمران اور سیاستدان اپنے امریکی دیوتاؤں کی خوشنودی کے خاطر ایسے ظالمانہ اقدامات کئے ڈال رہے ہیں کہ بھلے سے ملک کی معیشت کا ستیاناس ہو اور عوام زندہ لاشیں نظرآئیں آج جس کی کوئی ایک آدھ مثال ہوتوہم بیان کریں اور چشم پوشی کرکے آگے بڑھیں مگریہاں تو عوام کے لئے ہمارے ماضی اور موجودہ حکمرانوں نے جتنے بھی ظالمانہ اقدامات کئے ہیں اِن کا اعدادو شمار سیکڑوں اور ہزاروں میں موجودہے ہم کس کس کا اِن سطور میں تذکرہ کریںیہاں توجیسے آوے کا آوخراب ہے۔ اَب ایسے میںذراسوچوآج جس سرزمین پردولت اور سرمایہ ہی آمریت اور جمہوریت سب کچھ ہوتو وہاں ناانصافی اور افلاس کو بھلا پھر کیسے زوال آسکتاہے...؟؟یہ بات ہم نے اپنے وطن پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدان اور مقدرکی ماری مظلوم عوام سے متعلق کہی ہے آج جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نزدیک اپنے عوام کے لئے یہ کُلیہ بڑااہمیت اختیارکرگیا ہے کہ عوام کا کیا ہے ...؟یہ تو ہر حال میں روتے ہی رہتے ہیں اِنہیں تو کسی بھی حالت میں سُکھ اور چین نصیب ہوہی نہیں سکتاہے اور ایسے میں پاکستانی جلدبازاور جذباتی عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے جس کے لئے حکمران اور سیاستدان چاہئے جتنابھی اچھاکیوں نہ کرڈالیں یہ کُرہ ءارض پر ا یسی عوام ہے جوہمیشہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے خائف ہی رہتی ہے ۔ایسے میں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اپنے ہی عوام کے لئے ایسی سوچیں ہوں تواِن کے گورکھ دھند میں تو عوام یوں ہی مرتے رہیں گے جیسے اِن دنوں مررہے ہیں۔

جبکہ اِس منظراور پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ عوام ہیں جن کے ووٹوں سے ہمارے حکمران اور سیاستدان اقتدارِ اعلیٰ کی سیج پر قدم رنجافرماتے ہیں اِس لئے عوام سے اقتدار کی بھیک مانگنے والوں کو عوام دشمن اقدامات کرنے سے پہلے اتناتویہ ضرور سوچ لیناچاہئے کہ اگرآج عوام اِنہیں ووٹ نہ دیتے توکیایہ اقتدارِ کے حقدار ہوسکتے تھے...؟یہ عوام کا ہی رحم وکرم ہے کہ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لئے اِنہیں اپنامسیحاجان کر اِنہیں ووٹ دیااور اِن پر بھروسہ کرتے ہوئے اِنہیں ایوانوں تک پہنچایامگر یہ کیا....؟کہ آج ایوانوں میں جانے کے بعد یہی عوام سے ووٹوں کی بھیک مانگنے والے اپنے محسنوں(عوام )کو ہی بھول گئے ہیں اورانتخابات میں اپنی خرچ کی گئی رقم کو دگناوچگنااوراِس سے بھی کہیں زیادہ کرنے کے چکرمیں کسی جواری کی طرح پڑے دکھائی دیتے ہیں اور یہی سوچ رکھتے ہیں کہ آج عوام کی فلاح و بہود کے لئے( اِن کے اور بیوی بچوں کے نصیب سے) قومی خزانہ لوٹنے اور اپنی تجوری بھرنے کا جو موقع اِن کے ہاتھ لگاہے اِسے غنیمت جان کر پہلے اپنے ذاتی اور اپنے اہلِ خانہ کے نام ملکی اور غیرملک بینکوں میں نئے کھاتے کُھولے جائیں اورپھر اپنے حلقے انتخاب کے لوگوں کی حالت زندگی بہتربنانے کے نام سے نکالی جانے والے رقوم سے اپنے کھاتوں کو قومی خزانے سے زیادہ سے زیادہ بھرنے کی حکمتِ عملی اختیارکی جائے اور جب اپنے اِس عظیم نصب العین سے فرصت ملے توپھرعوام کے لئے ایسے ظالمانہ اقدامات کئے جائیں کہ عوام اِن سے پریشان ہوکر بلبلااُٹھیں جس سے اِنہیں دلی تسکین پہنچے ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971624 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.