تحریر: فهمي هويدي
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
ہمارے اوپر یہ قرض ہے کہ شامی عوام سے معذرت کریں، گیارہ مہینوں سے جن کا
روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے قتلِ عام ہو رہا ہے۔ عرب عوام انہیں بے سہارا
چھوڑ کر تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ «عرب کا دل» ایسے عربوں کے
درمیان ہے جن کے پاس دل نہیں ہے۔
ـ 1 ـ
جمعہ 3 فروری سے دوسرے جمعہ 10 فروری تک 755 افراد کو قتل کیا گیا۔ مزاحمت
کے آغاز یعنی گزشتہ مارچ کے درمیان سے اب تک موجودہ حکومت نے تقریباً 8
ہزار افراد کو قتل کیا ہے اور دس ہزار افراد لا پتہ ہیں، قید خانے بھر گئے
ہیں، ان میں کتنے افراد کو ڈالا گیا ہے اس کی کوئی تعداد نہیں ہے۔
ان سب کا صرف ایک جرم ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ 45 سالہ قہر و استبداد کے
ان کے ملک کو اس کی آزادی اور اس کا وقار مل جائے۔
صورتِ حال یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ گزشتہ مہینوں میں ہمیں شام کا صرف ایک
منظر دکھائی دیتا ہے کہ فرزندانِ وطن خون میں ڈوبے ہیں۔
اس کی سڑکوں میں یا تو شھیدوں کے جنازے نظر آتے ہیں یا قاتلوں کے ٹینک۔
اس کے شہروں میں حرّیت کا مطالبہ کرنے والی کوئی بھی آواز ابھرتی ہے تو اس
شہر کا انجام تباہی اور بربادی ہے۔
بلکہ ہمیں میزائلوں کی گھن گرج، بمبار طیّاروں کی آواز، قتل و خونریزی
روکنے کا مطالبہ کرنے والے محاصرین کی فریاد، نظام کو تبدیل کرنے کی صدا
لگانے والوں کی آوازوں اور نئے تاتاریوں کے سرکش فتنے کو روکنے کے لئے عربی
اور عالمی مداخلت کی صدا کے سوا کوئی اور آواز نہیں سنائی دیتی۔
ـ 2 ـ
گیارہ مہینوں سے جاری خون کی اس ہولی نے عالم عرب کے اندر کوئی ہلچل نہیں
پیدا کی، ان کی اکثریت اس طرح ان تمام واقعات کو ٹلیویژن میں صرف دیکھتی
رہتی ہے جیسے کہ یہ کوئی ترک سیریل ہو!
کتنا فرق ہے دو مناظر میں کہ کتاب «شیطانی آیات» کے ظہور میں آئی اور
ڈنمارک کے اخبارات نے رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کی شان میں گستاخی
کرتے ہوئے تصویریں شائع کیں تو عرب اور اسلامی دنیا میں ہلچل پیدا ہوئی، ہر
طرف صدائیں بلند ہوئیں لیکن شامی عوام جس قتل گاہ سے گزر رہی ہے اس کا اسے
ذرا بھی احساس نہ ہوا۔
دینی مقدّسات کی حرمت پر غیض و غضب کا اظہار ضروری ہے اسے میں سمجھتا ہوں
لیکن مجھے اس پر تعجّب ہوتاہے کہ مسلمانوں کے عزّ و شرف کے دفاع کے لئے غضب
کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مفاہیم کس قدر بدل گئے ہیں،ان مفاہیم نے انسان کے
عقیدہ اور اس کی عزّت میں فرق پیدا کر دیا ہے، غیرت و حمیّت کے پیمانے بدل
گئے ہیں۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عقیدہ کی حفاظت کی ذمہ داری رب نے لی ہے جبکہ
لوگوں کی حرمتوں کو پامال کرنا، ان کی عزت تباہ کرنا اللہ کے حقوق میں سے
ایک حق کے کو پامال کرنا ہے، اس پر ناپسندیدگی، اور نفرت کا اظہار ضروری
ہے۔ یہ اس بات کی بھی دعوت دیتا ہے کہ ظالم کے ہاتھ کو روکنے کے لئے لوگ
جمع ہو کر نکلیں۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے عرب لیگ نے پیش قدمی کرتے ہوئی مشاہدین کی ٹیم روانہ
کی ہے، اس نے دمشق کی حکومت کا مقابلے میں طاقتور موقف کے لئے سلامتی کونسل
کا رخ کیا ہے تو میں اس سے اختلاف نہیں کروں گا۔
لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ عرب لیگ حکومتوں کی نمائندہ ہے، یہ عوام کی
نمائندگی نہیں کرتی۔ معاینہ کرنے والے لوگ یقیناً گئے، واپس بھی آگئے اور
کچھ نہ کر سکے، ظالم نظام نے ان کے سفر سے اس لحاظ سے فائدہ اٹھایا کہ
مظاہرات کا گلا گھونٹنے کا کام پایہٴ تکمیل تک پہونچانے کے لئے انہیں کچھ
اور وقت مل گیا۔
سلامتی کونسل میں کی جانے والی کوشش کا انجام یہی ہوا کہ روس اور چین کے
ویٹو نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اور اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ہمارے سامنے
بین الاقوامی سطح پر صرف دو مرحلے رہ گئے: شام کے دوستوں کی کانفرنس جو
فرانس کی طرف سے بلائی گئی ہے اور اس کی متوازی بین الاقوامی کانفرنس جو
ترکی نے بلائی ہے۔
عرب دنیا کی سطح پر رسمی طور پر جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ کہ معاینہ کاروں
کے وفد کو واپس بلا لیا گیا، تیونس اور خلیجی تعاون کونسل کے ممالک سے شام
کے سفراء کو نکال دیا گیا، اور لیبیا نے اس مجلسِ وطنی کو تسلیم کر لیا ہے
جو شامی انقلاب کی نمائندگی کر رہی ہے۔
ـ 3 ـ
لیبیا کے مسئلہ میں یہ بات واضح تھی کہ قذافی کا سقوط ناٹو کے حلیف ممالک
کی مداخلت سے ہوا۔ یہی چیز یمن میں بھی ہوئی کیونکہ مغرب کی کھلی تائید کے
بعد ہی خلیجی ممالک نے پیش رفت کی تھی۔
اور پھر علی عبد اللہ صالح کے سامنے آخر میں اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ
رہا کہ وہ کنارے ہو جائے۔
شام کا معاملہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں بین الاقوامی مداخلت بھی
ناممکن ہے اور اس قدر خون بہنے، فوج کی طرف سے قتلِ عام اور عربوں کی طرف
سے کمزور دباؤ کے بعد عوام اور حکومت کے درمیان مصالحت بھی نا ممکن ہے ۔
اس پورے منظر نامہ سے تین باتیں سامنے آتی ہیں :
پہلی بات یہ ہے شام کی موجودہ حکومت ابھ بھی اس بات کی طاقت رکھتی ہے کہ وہ
ساری کارروائی انجام دے جو اتفاقی نہیں ہے بلکہ منصوبہ بند ہے۔
دوسری بات یہ کہ عربوں کی موجودہ صورتِ حال اور موجودہ بین الاقوامی صورتِ
حال سے ایسا لگتا ہے کہ اب شامی عوام کے لئے یہ طئے ہو چکا ہے کہ اپنی جنگ
وہ تنہا ہی لڑیں۔
تیسری بات دوسری بات کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ معرکہ بہت لمبا ہوگا، عوام کی
مشکلات بڑھتی رہیں گی، قربانیوں اور تکلیفوں کی فہرست لمبی ہوتی رہے گی۔
اندرونی عوامل، ملکی قوت اور خارجی تعاون سے قوت حاصل کرکے شامی حکومت اس
بات پر مطمئن ہے کہ شامی عوام کو اس نے تنہا کر دیا ہے اور اب وہ ایک قدم
بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیّار نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شامی حکومت کے وہ سارے اعلانات جس میں تبدیلی، ملکی
مذاکرات، اور سیاسی اصلاحات کی بات کی گئی تھی بے معنی ہو چکے ہیں، اس کو
شامی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ اور اب یہ بات سب کے سامنے واضح
ہے کہ وہ سارے بیانات صرف لوگوں کو بہلانے اور وقت حاصل کرنے کے لئے تھے۔
شامی حکومت کے پاس اندرونِ ملک مضبوط فوج کا گمان ہے اور اس طویل و عریض
خطّہ کا بھی احساس ہے جس میں علوی گرہ آباد ہے، یہ گروہ پروندوں کو ڈرانے
والے پتلے کی طرح ہے جو نہ صرف اندرونی خانہ جنگی کا خوف دلا رہا ہے بلکہ
یہ اپنے پڑوسی ملک ترکی کو بھی ڈرا رہا ہے کہ وہاں علویوں کی تعداد دس لاکھ
سے زائد ہے۔
اسی مناسبت سے شامی حکومت نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو بھی استعمال کر رہی
ہے، وہ انہیں نظام کی تبدیلی کے بعد کے حالات سے ڈرارہی ہے اور ساتھ ہی اس
ہتھیار سے اپنے پڑوسی ممالک کو بھی دھمکی دے رہی ہے۔
مثلاً ترکی کے دباؤ کے جواب میں وہ صرف علوی گروہ کا استعمال نہیں کرے گی
بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ کردوں کو استعمال کرے۔
یہ بھی واضح رہے کہ شام کے کردوں کی تعداد سرحدی علاقوں میں دو لاکھ ہے جن
میں سے اکثر قامشلی ضلع میں ہیں اور شمالی ترکی میں ان کی تعداد 12 لاکھ ہے
جو اور انقرہ کی حکومت سے ان کی جھڑپ کی تاریخ بہت طویل ہے۔
شامی حکومت کو اس بات سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ اسے ایران کی پوری تایید
حاصل ہے، عراق بھی اس کے ساتھ ہے اور لبنان کے حزب اللہ کا تعاون بھی اسے
حاصل ہے۔ یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ ایران اور شام کے درمیان اسٹریٹجک
معاہدہ ہے جس میں طھران نے اسد سے معاہدہ کیا ہے نہ کہ شامی عوام سے۔
یہ دوستی دونوں ممالک کو کسی نہ کسی درجہ میں اس بات کا اطمینان دلاتی ہے
کہ اسرائیلی دھمکی کے مقابلے میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے لیکن اس
دوستی کے پیچھے مذہبی محرّکات بھی ہیں۔
چنانچہ ایران شام کے علوی گروہ کے موقف کی اسی طرح تائید کر رہا ہے جس طرح
لبنان کے حزب اللہ کی کیونکہ وہ شیعوں سے بہت قریب ہیں۔
اگر دمشق میں نظمِ حکومت بدل جائے تو یہ صرف شام کے اہلِ سنّت کے حق میں
نہیں ہوگا بلکہ اس سے عراق کے اندر بھی حالات میں تبدیلی کے امکانات پیدا
ہوں گے کیونکہ اس سے عراق کے سنّیوں کو ایران کے دوست اور حکومت پر مسلط
شیعی پارٹیوں کی مزاحمت میں مدد ملے گی۔
خلاصہ یہ ہے شام کے اندر کسی بھی سیاسی تبدیلی کی کوشش کے مقابلہ میں شامی
حکومت کے پاس کئی ہتھیار ہیں، اور وہ علاقائی توازن کی وجہ سے وہ دوسروں کو
خوف دلا رہی ہے۔ گویا سب کے لئے اس کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ
اگر وہ بری ہے تو اس کے جانے کے بعد جو حکومت آئے گی وہ اور بھی بری ہوگی۔
بین الاقوام ی سطح پر شام کو روس اور چین کی مدد سے فائدہ مل رہا ہے۔ یہ اس
وقت واضح ہو گیا جب سلامتی کونسل میں شام کے خلاف منظور کی جانے والی قرار
داد کا ن دونوں ممالک نے ویٹو کیا۔ اس سے ان دونوں ممالک کا یہ موقف ظاہر
ہوتا ہے کہ اس خطّہ میں امریکہ کو نفوذ بڑھے یہ انہیں منظور نہیں۔
دونوں ممالک نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ مغربی ممالک نے «ان دونوں کو اس
وقت دھوکہ دیا تھا» اس وجہ سے انہوں نے لیبیا پر نو فلائی زون کے نفاذ کی
مخالفت نہیں کی تھی۔
ان کی تائید کے بعد ناٹو کے حلیف ممالک کے ہاتھ فوجی کارروائی کے لئے آزاد
ہوگئے تھے اور روس اور چین کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ یہ دونوں ممالک
نہیں چاہتے کہ یہ منظردوبارہ دہرایا جائے۔ اس کے علاوہ روس یہ بھی حقیقت ہے
کہ دمشق کے ساتھ روس کے خاص تعلّقات ہیں۔ طرطوس کی بندرگاہ میں اس کی بحری
خدمات کا بیس ہے۔ تمام ہی شامی ہتھیار ماسکو سے خریدے جاتے۔
چین اس معاملہ میں حسّاس ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کسی بھی
ڈیموکریٹک تبدیلی کی تائید کرے۔ وہ نہیں چاہتا کہ سلامتی کونسل کسی بھی ملک
کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے کیونکہ یہ خود بیجنگ کے خلاف پڑ سکتا ہے
اور بہت سے وہ داخلی معاملات ابھر سکتے ہیں جس سے چینی حکومت خود تنگی میں
پڑ جائے۔
ـ 4 ـ
اس پورے منظر میں جو چیز ناپید ہے وہ عرب عوام کا پریشر ہے خصوصاً مصر کا
دباؤ کہیں نہیں نظر آتا، اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قائدانہ
رول ادا کرے گا، تمام ممالک اس کے ساتھ ایک «بڑے بھائی» کا سا معاملہ کرتے
ہیں۔ اس سے درج ذیل سوال سامنے آتا ہے:
شام میں بہتی ہوئی خون کی ندیاں عالمِ عرب کی سڑکوں اور خاص طور پر مصر میں
کوئی ہلچل کیوں نہ پیدا کر سکیں؟
ــ اس عدم موجودگی میں کئی عوامل کا دخل رہا ہے، مثلاً:
ــ 1979ء میں جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہوا اس وقت سے عملی طور پر
اپنا قائدانہ کردار کھو چکا ہے، اس کے بعد سے وہ پسِ پردہ چلا گیا اور یہ
کیفیت ہنوز جاری ہے۔
غیر حاضری کی اس مدّت میں مصر اپنے خول میں نہیں سمٹ گیا بلکہ یہ اس گروہ
میں شامل ہوگیا جسے «اعتدال»کا گروہ کہا جاتا ہے اور عملی طور پر یہ امریکی
سیاست کے گرد چکّر لگاتا رہا۔ آپ یہ سوچیں کہ جب بڑے بھائی کا یہ معاملہ ہو
تو باقی ممالک میں شامی خون کا درد کس طرح محسوس کیا گیا ہوگا۔
ـ عرب بہار نے بہت سے ممالک کو اپنے داخلی معاملات میں مصروف کر دیا کیونکہ
ایک نظام کا خاتمہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ نئے نطام کے قیام کے لئے
بڑی کوشش کی جائے۔ اس کی وجہ سے عالمِ عرب کے منظرنامہ پر ابھرنے والے بہت
سے دوسے اہم امور سے لوگوں کی توجّہ ہٹ گئی۔
ـ بعض حلقے شامی حکومت کےبارے میں یہ تحفّظ رکھتے ہیں کہ یہ حکومت فلسطینی
مزاحمت کے شانہ بشانہ رہی ہے، اور ان کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک ایسی نیکی ہے
جو اس کے بہت سے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس حکومت سے مزاحمت
کرنے والوں کے بعض عناصر کے سلسلہ میں ان کے نزدیک شکوک و شبہات پائے جاتے
ہیں۔
ـ شامی معاملات اس سے زیادہ پیچیدہ ہیں جتنا بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ البتہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی موجودہ حکومت مٹّھی بھر شرپسندوں کے ہاتھ
میں ہے، لیکن جو خارجی قوتیں اسے گرانے کی کوشش کرتی ہین انہیں شرپسندوں کی
ایک طویل قطار پیچھے دھکیلتی ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا
ہے جو
ـ لیبیا میں ناٹو کے حلیف ممالک کی کارروائی کے تجربہ کے بعد اس قضیہ کو
بین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ
بھی ایک معلوم امر ہے کہ شام کے صورتِ حال لیبیا سے زیادہ سخت ہے کیونکہ
لیبیا کے پیچھے صرف پٹرول کی دولت تھی اور ایران اور ترکی پر شامی حکومت کے
زوال کے اثرات کو ہم سامنے رکھیں تو شام کے پیچھے مشرق کا، بلکہ مشرق وسطیٰ
کا ایک نیا نقشہ ہے۔
پھر راہِ عمل کیا ہے؟
ـ اس کا کوئی حاصل نہیں کہ ہم بلند آواز سے چلّائیں: قتلِ عام بند کرو،
ناٹو کی مداخلت نہیں چلے گی۔
اس سلسلہ میں یہ اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عرب حکومتوں کے کھوکھلا
پن کی وجہ سے ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ عرب ممالک کی سطح پر اس مسئلہ کا
کوئی ایسا حل سامنے آئے گاجو قتلِ عام کو روک سکے اور شامی وطنی عناصر کو
اقتدار سونپا جائے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سامنے اب وہی عوام امید ہیں جو حال ہی میں بیدار
ہوئی ہیں، ان کی بلند آواز نے استبدادی حکمرانوں کو منظرنامہ سے دور کیا۔
ہم نے قریبی دنوں میں ان اقوام کی آوازیں تیونس، لیبیا اور موریتانیا میں
ہونے والے مظاہرات میں سنا ہے۔
جب تک ہم باقی عرب ممالک خصوصاً مصر کی عوام کی آوازیں نہ سنیں، ہمارے لئے
ضروی ہے کہ شامی عوام سے معذرت خواہ ہوں کہ ہم نے تمہارا ساتھ دینے میں
کوتاہی کی ہے اور تمہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے۔
اگر وہ ہمیں معاف نہ کریں اور ہماری معذرت قبول نہ کریں تو وہ معذور ہیں۔
معذرت پیش کرنے کے لئے میں کسی کی طرف سے مجاز نہیں ہوں پر میں یہ معذرت
اپنی طرف سے پیش کر رہا ہوں کہ مجھے حد درجہ افسوس اور رسوائی کا احاس ہے۔
ماخذ.. جريدة الشرق ۔ قطر |