اتحادی فوجیوں کی جانب سے
پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد ناٹو سپلائی بند کیا کرنا تھی کہ
نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے افغانستان میں
برسرپیکار امریکی فوج کے بارے میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جنہیں پڑھتے،
سنتے اور ان پر تبصرہ کرتے ہی ہنسی نکل جاتی ہے۔ ملک کے ایک مقبول روزنامہ
اخبار میں گزشتہ ماہ سات جنوری کو ایک ایسی خبر شائع ہوئی جو انتہائی دلچسپ
قرار دی جا رہی ہے۔ اس خبر کے مطابق امریکا نے حکومتِ پاکستان اور عسکری
قیادت سے نجی طور پر درخواست کی ہے کہ اگر ناٹو سپلائی جلد بحال نہیں ہوتی
تو کم از کم پیمپرز اور ٹشو پیپر فوری طور پر فراہم کر دیئے جائیں کیونکہ
امریکی فوجی پیمپرز باندھ کر طالبان سے لڑتے ہیں۔ یہ بہادر فوجی بکتر بند
گاڑیوں میں بیٹھ کر طالبان کے سامنے آتے ہیں مگر ان کے خوف سے باہر نکل کر
رفع حاجت نہیں کر سکتے لہٰذا پیمپرز باندھے رکھتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے
ناٹو سپلائی بند ہونے سے پیمپرز اور ٹشو پیپر نہیں مل رہے جس کی وجہ سے
شدید پریشانی ہے۔
اس اخباری رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں کا جب
طالبان سے سامنا ہوتا ہے تو اُن کا پیشاب نکل جاتا ہے اس لیئے پتلون کو
خراب ہونے سے بچانے کے لیئے پیمپر پہننا ضروری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ
پاکستان امریکی درخواست قبول کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس دلچسپ اور امریکیوں
کے لیئے مضحکہ خیز اخباری رپورٹ نے قارئین کو اپنی جانب ایسے متوجہ کیا کہ
دنیا بھر میں اس پر تبصرے ہو رہے ہیں جبکہ امریکی سفارت خانے کو اپنی فوج
کا وقار اور قوم کا مورال بچانے کے لیئے مجبوراً ایس ایم ایس کی صورت میں
ایک پریس ریلیز کے ذریعے اس خبر کی تردید کرنا پڑی کہ افغانستان میں امریکی
فوج کا کوئی اہلکار پیمپراستعمال نہیں کرتا لیکن دوسری جانب افغانستان سے
لے کر پاکستان تک پھیلی سینہ گزٹ خبروں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ
امریکی میرینز ہوں یا اسپیشل آپریشن فورسز، اُس وقت تک کسی جنگی مہم کا
آغاز نہیں کرتے جب تک اپنی پتلون پہننے سے قبل پیمپرز کو اچھی طرح باندھ
نہیں لیتے۔
پیمپر جسے ڈائپر بھی کہا جاتا ہے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا حضرت
انسان پرانا ہے۔ کم عمری میں بچوں کا پیشاب یا گندگی کرنا جنہیں اس بات کا
ادراک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ایسی صورت میں بچوں کو ڈائپر یعنی
نیپی پہنانا ایک ضروری عمل سمجھا جاتا ہے۔ چند برس قبل تک مائیں ایک نہالچہ
گدی بچے کے نیچے رکھتی تھیں تاکہ بستر پیشاب اور پاخانے سے آلودہ نہ ہو
جبکہ آج کل کے ماڈرن دور میں اس کی جگہ ڈائپر نے لے لی ہے جو کہ ٹشو پیپر
کے موافق ہوتا ہے۔ پہلے مائیں مُنے کو گندا ہونے پر دھو لیتی تھیں لیکن اب
وہ بھی نفاست پسند ہو گئی ہیں اور ڈائپر کے بناءاُن کا گزارا نہیں ہوتا۔
کیوں نہ ہو بھئی! مُنے کے ابا آخر کماتے کس لیئے ہیں۔ ان ڈسپوز ایبل ڈائپرز
کی وجہ سے بیگم ”بے غم“ ہو جاتی ہے کیونکہ ایک بار ڈائپر استعمال کرنے سے
دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتا اور اس کی خریداری کی ذمہ داری کا غم
شوہر پر عائد ہو جاتا ہے جبکہ بیگم ہمیشہ کے لئے بے غم ہو جاتی ہے۔شوہر ذمہ
داری سے نہیں گھبراتا بلکہ بیگم کے ”بے غم“ ہو جانے پر پریشان ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں ایسا کوئی بچہ نہیں جو ڈائپر استعمال نہ کرتا ہو۔ خواہ ان
کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہو یا ترقی یافتہ ممالک سے، یہ عام افراد کے
بچے ہوں یا شہزادے ہوں، ان کی مائیں اپنے آپ کو اور گھر کو صاف ستھرا رکھنے
کیلئے انہیں ڈائپر یا نیپی پہناتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ زمانے میں
ڈسپوزایبل ڈائپرز آ جانے سے مائیں بچوں کو بار بار دھونے جیسی جھنجھٹ سے
آزاد ہو گئی ہیں۔ ڈائپر بنانے سے پہلے ڈائپر کی ضرورت پیدا کرنی پڑتی ہے
لیکن اب تو امریکی فوج بھی ان بچوں کی فہرست میں شامل ہو گئی جن کا ڈائپرز
کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ طالبان سے لڑائی کے دوران خوف کا یہ عالم ہے
کہ اکثر امریکی فوجی پتلون کے نیچے پیمپر استعمال کرنے لگے ہیں تاکہ موقع
پر ساتھیوں کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ور کہے جانے
والوں کی اس حالت پر ترس آتا ہے۔ امریکی افواج میں ڈائپرز پہننے کے بڑھتے
ہوئے رحجان کے باعث شائد اسی وجہ سے افغانستان کے پڑوسی ممالک میں اِن کی
قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اسکے باوجود ان پڑوسی ممالک کے تمام بے بی ڈائپرز
اظہارِ ہمدردی کی بنیاد پر اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ
افغانستان میں طالبان سے برسرپیکار اُنکے پیٹی بھائی ڈائپرز پہنے بغیر نہیں
رہ سکتے اس لیئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈائپرز اور ٹشو پیپر بھیج دینے
چاہئیں۔
طالبان نے افغانستان میں دس سالہ جنگ کے دوران امریکا کا بھرکس نکال دیا
ہے۔اس جنگ نے امریکی معیشت کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔معاشی بدحالی اور
افغانستان کے اندر بڑی واضح شکست کے باعث امریکا بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتا
ہے۔ دنیا امریکا کو ابھی تک اس لیئے سپر پاور تسلیم کرتی ہے کہ اس کے پاس
پوری دنیا کی فوجی طاقت سے زیادہ اسلحہ اور قوت ہے لیکن ڈائپر سٹوری کے
حوالے سے چھڑ جانے والی بحث نے ایک نیا ایشو فراہم کر دیا ہے جس کا امریکا
کو بھی ادراک ہے کہ اس سٹوری نے امریکیوں کیخلاف افغانستان کے پڑوسی ملکوں
میں پائی جانے والی نفرت کو ایک نئی مہمیز دی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکی
فوج افغانستان میں اپنی شکست کیساتھ ڈائپر آرمی کا خطاب بھی لیکر جانیوالی
ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکا کا یہ دعویٰ ہے کہ اُسامہ بن لادن کی
لاش سمندر بُرد کر دی گئی ہے۔ اس لاش کی تلاش میں امریکی غوطہ خوروں کا
سمندری مشن ایک عرصہ سے جاری ہے لیکن ابھی تک مہم جو ناکام ہیں۔ آج کل ٹی
وی اشتہارات میں پیمپرز کے بارے میں کئی بلنگ بانگ دعوے کیئے جاتے ہیں۔ اس
لیئے امریکی غوطہ خوروں کو بھی چاہئے کہ ایسے پیمپر پہن سمندر میں کود
جائیں ۔اس طرح سارا پانی غائب ہو جائے گا اور اُسامہ کی لاش مہم جوﺅں کے
ہاتھ لگ جائے گی کیونکہ ”نیا پیمپر پہلے سے بھی زیادہ جذب کرتا ہے۔“ |