مسلمان بچی کافر ماں کے حوالے…؟

یہ کیساقانون ہے،جس نے ایک مسلمان لڑکی کواس کی کافر ماں کے حوالے کردیا؟ماناکہ اس کی عمرکم تھی،کہ گیارہ سال کی عمرآئین پاکستان کے مطابق بلوغ کی عمرسے کم ہے،مگرکہاں گیا شریعت کا یہ اصول کہ اگرماں کاچال چلن درست نہ ہو،یاوہ جس معاشرے اورسوسائٹی میں رہتی ہو،وہاں ماں کی زیرسرپرستی پروان چڑھنے پربچی کے دین اوراخلاق کے نقصان کاپکایقین ہوتوایسی صورت میں نابالغ بچی کوبھی اس کی بے راہ روی کی مجرم ماں اوراس کے مادرپدرآزادماحول کے حوالے نہیں کیاجائے گا؟۔

وہ بے تکان بولے جارہاتھا۔وہ ایک لمحے کوسانس درست کرنے کے لیے رکا،پھربولناشروع کردیا۔اب اس کارخ اہل قلم کی طرف تھا،وہ کہہ رہاتھا:الیکٹرانک میڈیاسے توہمیں بھی کوئی توقع نہیں ،مگراس موقع پراہل قلم کے قلم کیوں ساکت وجامدہوگئے؟انہوں نے اس معاملے کواپنی نگارشات کاموضوع کیوں نہیں بنایا؟کیاان کافرض نہ تھا کہ وہ اپنے قلم سے ان دلدوزمناظرکی تصویرکشی کرتے،جب ایک مسلمان بچی اپنے باپ سے گلے لگ کرفریادکررہی تھی کہ میں اپنی پاک دھرتی اورمسلمان باپ کوچھوڑ کرایک کافرومشرک ماں کے ساتھ فرانس کے آزادانہ ومتعفن ماحول میں نہیں جاناچاہتی۔اس پرنم ماحول اوراشکبارآنکھوں کے مناظر،جب ججوں سمیت ہرخاص وعام احساس شرمندگی وترحم سے گویازمین میں گڑاجارہاتھا۔اس مسلمان بچی کازبردستی گاڑی میں بٹھایاجانا،اس کااپنی خلاصی کے لیے ہرممکن کوشش کرنا اورمسلسل ایک ہی فریاد،ایک ہی دہائی کہ میں انگریزکافرماں کے ساتھ نہیں جاناچاہتی۔اف!کتناسنگ دل تھاوہ آئینی فیصلہ،جس نے ایک مسلمان بچی کوباپ کی شفقت ہی سے نہیں ،بلکہ اس دین متین پرعمل کرنے کے حق سے بھی محروم کردیا،جواسے پاپاکی گودمیں ملاتھا۔

وہ کہہ رہاتھا:ٹھیک ہے باپ کافیصلہ اوراس کاعمل اول تاآخرغلط،غلط اوریکسرغلط تھا،مگراس کی سزااس معصوم بچی کودینا…کیایہی ہے آئین وقانون کی حکمرانی،کیایہی ہے عدل وانصاف۔یہ آزادعدلیہ ،جومقدمات کوشیطان کی آنت کی طرح طول دینے میں معروف ہے،اسے سرخاب کے پرکیوں لگ گئے؟کیاہماری عدلیہ کوقانونی تقاضے اسی وقت یادآتے ہیں،جب کسی کافر،مشرک اورباغی دین ووطن کے مفادات خطرے میں پڑتے محسوس ہوتے ہیں؟یہی توہین عدالت کے مسئلے کولے لیجیے،وزیراعظم ببانگ دہل عدلیہ کی توہین کررہاہے،مگراعلیٰ عدلیہ ہے کہ اسے طول دیتی چلی جارہی ہے۔نظربددوریوں لگ رہاہے کہ یہ مسئلہ کم ازکم اتناطول توپکڑے گاہی کہ منتخب حکومت اپنی میعادپوری کرلے۔اب توچیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جناب عظمت سعیدصاحب نے یہاں تک فرمادیاہے کہ توہین عدالت کا قانون آسمان سے نہیں اترا۔

''تنگ آمدبجنگ آمد''کے مصداق اب وہ موضوع سے ہٹتاجارہاتھا۔اسے شکوہ تھا اوربے جابھی نہیں ،بلکہ بجاتھا۔دیکھاجائے تونہ ہماری عدلیہ نے اس معاملے میں شرعی باریکی کالحاظ رکھا،نہ اس کی زحمت ہی گواراکی کہ علماومفتیان کرام سے رائے لے لیتی،شایداس لیے کہ علماکوپہلے ہی ملک کے عائلی قوانین پرشدیدتحفظات رہے ہیں۔چلیے علماکامعاملہ ایک طرف…کم ازکم اسلامی نظریاتی کونسل اورشریعت اپیلٹ بینچ سے ہی پوچھ لیاجاتایاکیس ان کے حوالے کردیاجاتاتوآج معترضین اس فیصلے کو''کسی ان دیکھے دباؤ کانتیجہ''توقرارنہ دیتے۔بہرحال تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ آمنہ تارڑکولاہورہائیکورٹ کے حکم پرکافر ماں کے حوالے کیاجاچکاہے۔اس صدمے میں اس کاباپ عبدالرزاق تارڑ دل کے دورے کے باعث ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔فیصلے کے خلاف پنجاب کے صوبائی وزیر چوہدری عبدالغفور نے چیف جسٹس آف پاکستان کو درخواست دے دی ہے، درخواست میں چوہدری عبدالغفور نے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 11 سالہ بچی آمنہ کو اس کی فرانسیسی ماں کے حوالے کرنے کا حکم دیاہے،لیکن بچی اپنی ما ں کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔ خدشہ ہے کہ ماں اسے فرانس لے جا کر مذہب اسلام سے متنفرکردے گی ۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی طریقہ کار نہیں کہ بچی کو فرانس سے واپس لیا جاسکے ۔دوسری طرف جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹرفریداحمد پراچہ نے ایک مسلمان بچی آمنہ کو اس کی مرضی کے خلاف فرانسیسی ماں کے حوالے کرنے کے عدالتی فیصلہ پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل تک بچی کو بیرون ملک منتقل کرنے پر پابندی عائد کی جائے ۔ انہوں نے عدالتوں سے اپیل کی کہ وہ فیصلہ دیتے وقت قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ایمانی تقاضوں کو بھی مد نظر رکھیں ۔

آمنہ اگرپاکستان میں ہے،توہماری عدلیہ کوہنگامی بنیادوں پرایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اس مسلمان بچی کوروک لیناچاہیے،یہ اس کے دین واخلاق کے تحفظ کی بھی ضمانت ہے اورمن حیث المسلم ہمارے مذہبی فریضہ بھی۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308552 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More