پرویز مشرف کے دورآمریت کا سیاسی
اسیر میاں ذوالفقارراٹھور بڑے زور شور سے دلائل دے رہا تھا کہ دوہری شہریت
کے حامل افراد کو پاکستان میں ہونیوالے کسی بھی سطح کے انتخابات میں شریک
ہونے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے، کیونکہ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ
دوہری شہریت رکھنے والوں نے اقتدار میں آ کر دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا
اور پھر لوٹے ہوئے سرمائے سمیت اپنے دوسرے ملک واپس چلے گئے۔ اس کااشارہ
معین قریشی اورشوکت عزیز کی طرف تھا۔اس کاکہنا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی
آج تک احتساب کے شکنجے میں نہیں آیا اورنہ آئے گاکیونکہ جمہوری اورفوجی
حکومت ان کی گرفت سے پہلے ہزاربار سوچے گی۔ وہ اس بات پر مصر تھا کہ الیکشن
کمیشن کاحالیہ فیصلہ بالکل درست ہے اور اس فیصلے سے قومی سیاست پر بہت دور
رس اثرات مرتب ہوں گے ۔جو لوگ اپنے وطن میں خدمات سر انجام دینا بھی پسند
نہیں کرتے انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ یہاں الیکشن لڑ نے کیلئے آئیں
اوراپنی دولت کے بل پر اقتدار کے ایوانوں میں جا بیٹھیں۔ میں اس کی گفتگو
تحمل سے سنتا رہا ۔ جب وہ بول بول کر ہلکان ہو گیا تومیں نے اس سے پوچھا کہ
تمہارا جوبھائی برطانیہ کاشہری ہے اوروہ کئی بارمصیبت میں تمہاری مالی
مددکرتارہا ہے کیا تم ا سے اپنے آبائی گھرآنے ،خوشی غمی اوراہم فیصلوں میں
شریک ہونے سے روک سکتے ہو ۔ اس نے کہا میں تو اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا ،وہ
میرابھائی اورمحسن ہے اورہمارے آبائی گھرپرمجھ سے زیادہ اس کاحق ہے۔اگروہ
کئی بارضرورت کے وقت مجھے رقوم نہ بجھواتاتوشاید ہمارے گھر کی کمزوردیواریں
اورخستہ حال چھتیں زمین بوس ہوجاتیں ۔ تب میں نے اس سے پوچھا کہ سات
سمندرپاران اوورسیزپاکستانیوں کا کیا قصور ہے جواپنے پیاروں سے دور مختلف
ملکوں میں کڑی محنت مشقت کرتے ہیں،اگروہ نہ ہوتے تو دنیا کی کوئی طاقت
پاکستان کی معیشت کی عمارت کومنہدم ہونے سے نہیں بچاسکتی تھی ۔ امریکہ
اوربرطانیہ سمیت دنیا کے کسی مہذب ملک نے دوہری شہریت کے حامل افرادکیلئے
انتخابات میں شریک ہونے پرقدغن نہیں لگائی ۔کیا تم برطانیہ کی سیاست سے
آگاہ نہیں ہو،اس نے مجھے چائے کاکپ تھمایااور کہا کہ برطانیہ ایک مہذب
اورجمہوری ملک ہے اس کے ساتھ پاکستان کا موازنہ مت کرو ۔ میں نے جواب دیا
کیوں نہ کروں،ہم لوگ آزادی کے چونسٹھ برس بعد بھی ذہنی طور پر ان سے مرعوب
ہیں ۔ ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان کی پیروی کو سٹیٹس خیال
کیا جاتا ہے۔ اسی برطانیہ میں ہمارے پاکستانی بھائیوں اوربہنوں نے مختلف
شعبہ جات کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ وہاں ہمارے ہم
وطن لارڈ، ممبرپارلیمنٹ،میئر، کونسلر منتخب ہوتے ہیں۔ لارڈ نذیراحمد،چودھری
سرور ،بیرونس سعیدہ وارثی اورپاکستان مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے مرکزی
سیکرٹری اطلاعات اقبال سندھو کا نام اورکام تمہارے سامنے ہے۔ اگر اس میں
کوئی قباحت ہوتی تو انگریز کبھی بھی دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو
اپنے ملک کے انتخابات میں شریک ہونے کی اجازت نہ دیتے۔ ا س کی دلچسپی کو
دیکھتے ہوئے میں نے مزید کہا کہ مختلف بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانی
ہماراقومی اثاثہ ہیں اور جہاں جہاں مقیم ہیں وہاں مادر وطن کیلئے بغیرتخواہ
کے سفیرکاکام انجام دے رہے ہیں ،وہ پاکستان کی معیشت کیلئے تجارت اورہمارے
قومی مفادات کی وکالت کرتے ہیں۔ جب بھی پاکستان پر کوئی زمینی یاآسمانی آفت
یامصیبت آئی ان لوگوں نے اپنے ہم وطنوں کی بحالی اورآبادکاری کیلئے اہم
کردار ادا کیا ہے۔
اگراوورسیزپاکستانیوں کو قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے توبیجانہ ہوگا۔
آئی ایم ایف اورورلڈبنک کویہ بات پسند نہیں کہ کسی طرح پاکستان ان کے شکنجے
سے نکل جائے اور ایک معاشی طاقت بنے ۔ حکومت پاکستان کے اس عاقبت
نااندیشانہ اقدام پر توآئی ایم ایف اورورلڈبنک والے خوشی کے شادیانے بجا
رہے ہوں گے ۔ ذوالفقارراٹھور سے رہا نہ گیاتو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے
کہا کہ دوہری شہریت کے حامل لوگ جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو
ملکی خزانے کو بے دردی سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اس
کیلئے میرے پاس ایک تجویزموجود ہے کہ دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں
کوانتخابات میں شریک ہونے کے حق سے محروم کرنے کی بجائے ان کی کلیدی عہدوں
تک رسائی کاراستہ بندکردیا جائے اوراس کیلئے اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم
کی جاسکتی ہے ۔
حکومت بتائے اوورسیزپاکستانیوں کا قصور کیا ہے ۔معین قریشی اورشوکت عزیز کے
ناکام تجربات کو بنیاد بنا کرلاکھوں اوورسیزپاکستانیوں کو سزا نہیں دی جا
سکتی اورانہیں ملک وقوم کی خدمت کرنے سے روکا نہیں جاسکتا ۔ اگر ان افراد
کی دل آزاری کی جائے گی تو پاکستان کوسماجی، سیاسی اورمعاشی طورپر نقصان
ہوگا۔ ہمارے اوور سیز پاکستانی جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں کیا ان متمدن
،مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں رائج عمدہ نظام سے تربیت یافتہ نہیں ہوتے ۔
اگر یہ تربیت یافتہ افراد پاکستان کی قومی سیاست اورمعیشت میں اپنا کوئی
مثبت کردار ادا کر ناچاہتے ہیں تو اس پر ان جاگیردارانہ سوچ کے حامل
سیاستدانوں کابدحواس ہونافطری ہے کیونکہ اس طرح ان کی چودھراہٹ خطرے میں پڑ
جائے گی۔ میں نے ذوالفقار راٹھور کو بتایا کہ پاکستان میں رہنے والوں سے
زیادہ ان پاکستانیوں کی ملک سے جذباتی وابستگی ہے جو دیار غیر میں مقیم
ہیں۔ ان کے آباﺅ اجدادکی قبریں،ان کے آبائی گھر،کھیت کھلیان
اورجائیدادوغیرہ سب کچھ پاکستان میں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطن کی
اہمیت اورامن وآشتی کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں
آنیوالی ہرآفت کی شدت اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کےلئے پاکستان
کی مٹی کی خوشبو جنت کی مہک سے کم نہیں۔ یہ محب لوگ ہیں جن کا محبوب
پاکستان ہے اور وہ دیارغیر میں بھی اس کی یادوں کو سینے سے لگائے سلگتے
پھرتے ہیں۔ ان باتوںسے ذوالفقارراٹھور کی آنکھوں کاپیمانہ چھلک پڑا۔ میں نے
ٹشوکاڈبہ اس کی طرف بڑھا دیا اورگفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی
منظر نامے میں پاکستان کا پاسپورٹ رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سبز
پاسپورٹ کو دیکھتے ہی بندے کو مشکوک سمجھ لیاجاتا ہے۔ ا نہیں کریڈٹ جاتا ہے
کہ اس متعصب رویوں کے باوجود یہ لوگ آنکھوں میں وطن کے خواب سجائے اور سبز
پاسپورٹ کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔انہیں انتخابات میں شریک نہ ہونے
دیناان کی پاکستانیت اورقومی خدمات سے انکار ہے اور1973ءکاآئین جمہوری
حکومت کواس انتہائی اقدام کی اجازت نہیں دیتا ۔
اصولی طورپرہونا تو یہ چاہئے کہ سینٹ سمیت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں
اوورسیزپاکستانیوں کیلئے سیٹوں کا مخصوص کوٹہ مقررکیا جائے ۔ ہمیں ان قابل،
مخلص اورمحنت پسندافراد کو ضائع کرنے کی بجائے ان کے تجربات اورمشاہدات سے
استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی پارٹیاں اس بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں
اچانک ذوالفقارراٹھور نے پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ برطانیہ ،امریکہ
اورجاپان سمیت مختلف ملکوں میں مسلم لیگ (ن)،پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ
(ق)اورتحریک انصاف سمیت بیشترسیاسی پارٹیوں کااپناا پنا اوورسیز ونگ کام
کررہا ہے جو ان جماعتوں کو اپنے اپنے ملک سے پارٹی فنڈ زکے نام
پرمتواتربھاری رقوم بھی بجھواتا اوروہاں جانیوالے اپنے قائدین کی خوب
آﺅبھگت بھی کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کتنی افسوسناک بات ہے کہ کسی بھی
سیاسی جماعت نے اس ماورائے آئین اوربنیادی انسانی حقوق سے متصادم اقدام
کےخلاف آواز نہیں اٹھائی ۔حالیہ بیسویں ترمیم میں بھی ایسی کوئی شق نہیں
رکھی گئی جس سے اوورسیزپاکستانیوں کوالیکشن لڑنے کا حق مل جاتا۔تاہم
سمندرپار پاکستانیوں کا ووٹ کاسٹ کرنے کی حدتک ایک بنیادی حق بحال کردیا
گیا ہے ۔ہمارے ملک میںخواجہ سراﺅں اورجیل کے قیدیوں کوبھی ووٹ کاسٹ کرنے کا
حق حاصل ہے جبکہ اوورسیزپاکستانیو ں کایہ حق سلب تھا جواب تسلیم کرلیا گیا
ہے تاہم یہ اقدام کافی نہیں کیونکہ دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں
کوالیکشن لڑنے کی اجازت دیناابھی باقی ہے ۔سمندرپارپاکستانیوں کے ساتھ
امتیازی برتاﺅان کی پاکستانیت اورملک قوم کیلئے گرانقدر خدمات سے انکار
ہے۔دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم ہمارے جہاندیدہ اورکہنہ مشق ہم وطن بلاشبہ
ہماراقیمتی اثاثہ ہیں اورہمارامقروض ملک ان کی ناقدری کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ |