مان جاؤ ،ورنہ۔۔۔۔۔۔۔

سڑک پر گاڑی کو غلط لائن پر چلا کر دیکھیں۔ جہاز کو ھوا میں کسی فضائی قانون سے آزاد اڑائیں،قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ حادثہ ھی ھو گا۔ دفتر کے اوقات میں سو جائیں سونے کے اوقات میں دفتر پہنچ جائیں،نقصان ھی ھو گا۔ سب اس بات کو سمجھتے ھیں۔ ھر شعبے کے قوانین کی پابندی کرتے ھیں۔ لیکن فطرت کے قوانین تمام دوسرے قانونوں سے اٹل ھیں۔ دنیا میں بھی وھی صرف وھی قانون انسانیت کیلئے فائدے مند ھیں جو قانون فطرت کے ھم آھنگ یا کم از کم بہت مماثلت رکھتےھوں۔ فطرت کے قوانین سے ٹکرانا اور مقابلہ ممکن ھی نہیں، لیکن آج کا مسلمان فطری قوانین سے ٹکرا کر اپنے ماضی کی عظمت کی طرف پیٹھ کئے کھڑا ھے۔ مسلمان کی تخصیص اسلئے کہ اسلام کا ماننے والا مسلمان ھے اور اسلام دین فطرت ھے۔ اسلام نے اُسی بات کا حکم دیا ھے جسں میں انسانوں کی بھلائی ھے۔ یہی وجہ تھی جنہوں نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا،اس کائنات کے اسرار ان پر کھلتےچلے گئے۔ ماضی کی عظمت اور تمام علوم و فنون پر مسلم دسترس ایک ایسی حقیقت ھے کہ اپنے کچھ لوگ بھی مغرب کے نشے میں ڈوب کراس کو ایک ڈائیلاگ سمجھنے لگے ھیں۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے اور اس حقیقت کو جاننے والے اس کو اظہار کرتے رھتے ھیں۔ مثال کے طور پر مشہورامریکی یہودی فلم میکر جیکوب بائینڈر کا 1نومبر2010 کو وائس آف امریکہ پر آنے والا بیان ھی لے لیں۔ جیکوب بائینڈر کا کہنا تھا کہ مغرب کے عوام اپنی ترقی کا سبب اپنے آپ کو ٹھراتے ھیں، جبکہ انھیں اپنے سے قبل کے اسلامی محققین کا شکر گزار ھونا چاھئے۔ مغرب کے سائنسی انقلاب کی بنیاد اصل میں مسمانوں نے ڈالی تھی۔ ایسی باتیں کرنے والے بہت دانشور ھیں۔ لیکن آج کا مسلمان کیا کررھا ھے۔ یہ اسےخود سوچنا ھے۔

مسلمان وہ واحد قوم ھیں جن کے پاس فطرت کے قوانین سے فائدہ اٹھانے کا ایک مکمل نظام موجود ھے۔ اس نظام کا نام اسلام ھے اور اسے سے مکمل مستفید ھونے کیلئے ایمان ضروری ھے جس کی امین صرف مسلم قوم ھی ھے۔

اسلام قانون فطرت ھے اور اور اس کا نظام قرآن کریم ھے اور قرآ ن پاک کی تشریح حدیث ھے اور اس تشریح کو سمجھنے کیلئے سورہ فاتحہ کی آیت صراط الذین انعمت علیھم پر عمل کرنا ھو گا یعنی انعام یافتہ لوگوں کے طریقے پر چل کر اس تشریح کو اپنانا ھو گا اپنی عام زندگی میں، تب ھی مسلمانوں کی اپنی زندگیوں میں اور پوری دنیا پراسلام کے فیوض و برکات ظاھر ھو سکیں گے۔ ماضی میں مسلم قوم نے جو اسلامی فیوض و برکات حاصل کئے، آج کے جدید علوم فنون اسی کی مرھون منت ھیں۔ ایسے نہیں کہ کچھ مطلب ھوا تو اسلام کے پاس آ گئے، باقی ساری زندگی میں اسلام سے پرھیز۔ انسانی زندگی جہاں جہاں جس بھی درجے پر اسلامی قوانین سے ٹکراتی ھے، اسلام کی حقانیت نکھر کر سامنے آ جاتی ھے۔ آج سب پیسے کے پیچھے مانگ رھے ھیں، پیسے سے متعلقہ آج تک سارے نظام ، موجودہ سودی نظام ناکام ھو چکے ھیں۔ عالمی سطح پر دیوالیوں کا سیلاب سب نے دیکھ لیا۔ ترقی یافتہ کہلانے والے ملکوں کی عوام کا بڑھتا اضطراب اور ان کے بڑھتے مسائل ان کے ملکوں میں رائج نظاموں کی ناکامی کا اعلان کر رھے ھیں۔ صرف اسلامی نظام ھی ھے جس میں امیر کے ساتھ غریب بھی سکون سے سوتا ھے۔ اپنا موضوع عام مسلمانوں کی عام زندگی میں اسلام سے ٹکراؤ ھے۔ ایک بچے کی مثال سے شروع کرتے ھیں۔ دو سال تک ماں کا دودھ بچے کا حق ھے، اسلامی قانون ھے۔ کیونکہ ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی دوسری چیز بچے کو مطلوبہ طاقت نہیں دے سکتی۔ آج کے بچے اکثر ماں کے دودھ سے محروم ڈبے کے دودھ پر پلتے ھیں۔ ماں کا کوئی دوسری بیماری ھو تو اس کے علاج پر ھزاروں روپے لگا دیتے ھیں لیکن دودھ کی کمی ھو،( جو کہ اکثر بہانہ بھی ھوتی ھے) تو علاج کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور نتیجتہً بچہ کی صحت پرمنفی اثرات جو ھوتے ھیں سو ھوتے ھیں،عمر بڑھنے کا ساتھ ھی ماں پر بریسٹ کی بیماریاں حملہ کر دیتی ھیں۔ وضو اور نماز کو چھوڑنے والے بے شمار جسمانی،ذھنی ، جنسی ، روحانی فوائد سے محروم رھتے ھیں۔

بیٹھ کر کھانا پینا اسلامی قانون ھے، اس کی خلاف ورزی کرنے پر جو بیماریاں انسان پر حملہ آور ھوتی ھیں، میڈیکل سائنیس ان کی تصدیق کر رھی ھے۔ کھانے پینے میں صفائی کے اسلامی معیار کو چھوڑنے کے نتائج خصوص طور پر بازاری ھوٹلوں میں مشاھدہ کئے جا سکتے ھیں۔

اسلامی تاکید ھے آٹا ان چھنا کھایا جائے۔ ایک معمولی سی بات۔ عمل نہ کرنے سے قبض کا دروازہ کھل جاتا ھے جو سب بیماریوں کی ماں ھے۔ داڑھی ایک مٹھی رکھنا سنت ھے۔ لیکن رکھتے ھی نہیں اور اگر رکھیں بھی تو ایک مٹھی سے کم یا زیادہ۔ داڑھی رکھنے کے جسمانی اور جنسی صحت پر مثبت اثرات کی رپورٹس آئے بہت دیر ھو چکی۔ بھوک لگے تو کھائیں اور بھوک رھتی ھو تو چھوڑ دیں، یہ بیماریوں سے حفاظت کا قیمتی نسخہ ھم نے چھوڑ دیا اور آج طبی محقیقین بہت ساری بیماریوں کی جڑ اسی بات کو قرار دیتے ھیں۔ فرد سے فرد کے تعلقات میں اسلامی ھدایات کا علم نہ رکھنے کا خمیازہ، ساس بہو، والدین اور اولاد، خاوند بیوی،اپنے کاروبار میں، دفتری ملازمین کی آپس میں ناچاقیوں میں ھم بھگت رھے ھیں۔ پیسہ کمانا چاھتے ھیں، اسلامی قوانین کو پس پشت ڈال کر محنت کرتے ھیں بے برکتی عام ھے۔ سارا دن محنت کرتے ھیں جس ( جل جلالہ) نے رزق دینا ھے اس ( جل جلالہ) پر توکل کی دولت سے خود کو محروم کر رکھا ھے۔ بھول گئے ھمیں ایک مسلمان کو روزی تلاش کرنے کی سنت ادا کرنا ھوتی ھے اور فرائض، واجبات کے اھتمام کے ساتھ ، لیکن رزق اللہ کریم جل جلالہ کی مرضی ھی سے ملتا ھے۔ توکل، بھروسہ ،امید یقین اللہ کریم (جل جلالہ)پر رکھنی ھوتی ھے۔ لیکن آج اکثریت کی نظر اور خیال کا حال ایسا نہیں ھے۔ ایک مسلمان کی سیاسی ذمہ داری کیسی ھونی چاھئے، نہ جاننے کا نتیجہ سارا ملک بھگت رھا ھے،بڑی بڑی ڈگریوں کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی سیکھ لیا جاتا تو اچھا بلکہ سب اچھا ھو جاتا لیکن ھم ایسا نہیں کرتے۔

آج کا مسلمان چاھتا ھے، کہ وہ انڈین فلمیں دیکھے، مغربی لباس پہن کر معزز بنے اور اور اپنے سارے کنبے کے ساتھ مغربی طرز زندگی میں اعلٰی مہارت حاصل کرے اور جب بیمار ھو، دوائیاں کھا کراگر آرام نہ آئے تو ]پھر اللہ کریم جل جلالہ کی یاد آتی ھے۔ گویا جبتک مصیبت نہیں آئے گی ھم اللہ کریم جل جلالہ کو یاد نہیں کریں گے۔ نیتجہ کیا ھے پریشانی ، ذلالت صرف اس زندگی میں نہیں اگلی زندگی میں بھی۔ لیکن جنہوں نے اسلام کو سمجھا ھے، اپنی عام زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کی ھے وہ ھر جگہ کامیاب ھی کامیاب ھیں۔ کئی سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ھے اور ھمارے آج کے دور میں بھی ، اگر ھم دیکھنا اور سمجھنا چاھیں۔ اگر ھم اپنی عام زندگی میں، اپنی معاشرتی زندگی میں، اپنی سیاسی ذمہ داریوں میں ، اس زندگی کے بعد میں آنے والی زندگی میں کامیاب ھونا چاھتے ھیں تو گھر میں، دفتر میں اور اس معاشرے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلم امت کی کامیا بی کیلئے سب کو اپنی ذات پر اسلام نافذ کرنا ھو گا اور کسی کہ یہ بات نہیں ماننی تو عرض ھے مان جائو ورنہ۔۔۔۔ خسارہ ھی خسارہ ھے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117128 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More