بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا
صوبہ ایک سلگتا ہوا انگارہ کیوں بنتا جارہا ہے، اس مسئلے کو کیوں الجھایا
جا رہا ہے، یہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گیا ہے اور بیرونی
طاقتوں کو بلوچستان میں دلچسپی آخر کیوں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے محب
وطن پاکستانیوں کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ ان سب پر مستزاد
امریکہ کا انتہائی مخاصما نہ رویہ جس نے بلوچستان کے حالات کو مسئلہ بنا کر
اپنے ایوانوں میں موضوع بحث بنا دیا۔ امریکہ کا رویہ بذات خود بہت سارے
سوالات کا جواب ہے کہ جو کھیل بیرونی طاقتیں اس کی سرکردگی میں پوشیدہ طور
پر کھیل رہی تھیں آخر کھل کر سامنے آگئی ہیں اور وہ لوگ جو اس معاملے میں
بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو ایک لا یعنی خیال تصور کرتے تھے اب انہیں سمجھ
جانا چاہیئے کہ حالات کو اس نہج تک لانے میں کون کون ملوث ہیں؟ لیکن بیرونی
ہاتھ کے ملوث ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حکومت یا دوسرے عناصر بری
الذمہ قرار دے دیئے جائیں۔ بلوچستان میں وفاقی حکومتوں اور خود بلوچستان کی
صوبائی حکومتوں اور وہاں کے قبائلی نظام اور سرداروں سب کا کردار انتہائی
افسوس ناک ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے انتہائی مشکل اور مختلف حالات کا حامل صوبہ بلوچستان
بلحاظ رقبہ پاکستان کا تینتالیس فیصد ہے جبکہ اس وقت اس کی آبادی تقریباً
اسی لاکھ کے قریب ہے جو کہ چند ایک شہروں کے علاوہ چھوٹے دیہات اور انتہائی
چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے یوں یہ ایک حقیقت بن جاتی ہے کہ ان بستیوں
تک سہولتوں کا پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے لیکن حکومت کا کام صرف بڑے شہروں کی
ترقی نہیں ہوتا بلکہ اصل کام ان دور افتادہ لوگوں اور علاقوں تک ثمرات کا
پہنچانا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں ایسی کوششیں کم ہی نظر آتی ہیں اور اگر ہیں
تو بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ سکول کی عمارت کھڑی کرنا ہی کافی نہیں ہوتا
بلکہ اس کو ایک ادارہ بنانا زیادہ اہم ہے لیکن بلوچستان میں سکولوں کی بڑی
تعداد اساتذہ اور طلبائ سے بے نیاز مخدوش حالت میں گرنے کے قریب ہیں اور
انتہائی مستند ذرائع کے مطابق یہ سالہا سال سے غیر حاضر اساتذہ بڑی
باقاعدگی سے تنخواہ ضرور وصول کرتے ہیں۔ دوسری طرف جہا ں ملک میں نجی
تعلیمی ادارے شرح خواندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں وہاں
بلوچستان میں چھوٹے بڑے صرف 1750نجی تعلیمی ادارے ہیں ۔ اب یہاں بلوچ
سرداروں کو آگے بڑھ کر اپنے صوبے کیلئے کچھ کرنا چاہیئے تھا لیکن یوں ان کی
سرداری خطرے میں پڑتی ہے۔ یوں تو صرف یہ ایک میدان ہے لیکن اگر دیکھا جائے
تو بنیاد یہیں سے کمزور پڑ جاتی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ بلوچستان کو لا علم
رکھنے میں ہی یہاں کے سرداروں کا بھلا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں
پانچ سے نو سال کی عمر کے صرف 3 فیصدبچے سکول جاتے ہیں جبکہ خود یہ سردار
ایچی سن، آکسفورڈ اورکیمبرج کے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بلوچستان سے ان کی
محبت صرف اقتدار کے حصول تک ہے۔ چونکہ بگٹی،مینگل اور مری سرداروں میں سے
کوئی بھی اس وقت حکومت میں نہیں اسی لیے انہیں ہر چیز میں خرابی نظر آرہی
ہے۔ بلوچستان حکومت بھی اس سلسلے میں انتہائی افسوسناک طور پر لاتعلقی اور
لا پرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس اسمبلی کا ہر رکن وزیر ہے لیکن وہ رقم جو
انہیں ترقیاتی کاموں کیلئے مل رہی ہے اور وہ رقم جو بلوچستان میں ترقیاتی
کاموں کیلئے مختص ہے جو کہ 160بلین روپے ہیں ان کا استعمال کہیں نظر نہیں
آرہا ۔ یوں بلوچستان میں ایک عام استاد یا دوسرے سرکاری ملازم سے لے کر
سیاستدانوں ، سرداروں اور حکمرانوں تک تمام حالات کے ذمہ دار ہیں۔ جہاں تک
نامعلوم لاشوں کا ملنا اور لاپتہ افراد کی فہرست میں اضافے کا تعلق ہے اس
کے لیے ہر بار کی طرح بغیر سوچے سمجھے ایجنسیوں کو دوش دینا بھی کچھ زیادہ
مناسب نہیں ان حالات کی آڑ لے کر ذاتی دشمنیوں کی بنا پر ہونے والے قتل بھی
ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور مجرمانہ افعال کیلئے ہونے
والے بھی۔ اس سلسلے میں ہمارا میڈیا اور ہمارے سیاستدان بھی کچھ تعمیری
کردار نہیں ادا کر رہے۔ ان معاملات کو جس طرح اچھالا گیا اسی نے غیر ملکی
طاقتوں کو حوصلہ دیا کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کر سکیں ایسا بھی نہیں
کہ خبر کو منظر عام پر نہ لایا جائے لیکن اس میں تعصب چاہے وہ آئی ایس آئی
کے خلاف ہو، فوج کے خلاف ہو یا حکومت کے خلاف نہ آنے دیا جائے اور یہ بھی
بتانا چاہیئے کہ پورا بلوچستان اس وقت حرب یار مری ،براہمداغ بگٹی یا اختر
مینگل کے ساتھ نہیں جو تشدد کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں جو کسی بات کے
سننے کو تیار ہی نہیں جن کی تان صرف بلوچستان کی آزادی پر ٹوٹتی ہے اور جن
کے بیرونی ممالک ہوٹلوں کے کرائے تک RAWادا کرتی ہے۔ میڈیا کو انہیں بلوچوں
کے لیڈر بنانے سے گریز کرنا چاہیئے اور اس بلوچ قیادت کو بھی سامنے لانا
چاہیئے جو پاکستان کی سا لمیت کی بات کرتی ہے اور ان ملکو ں پر بھی سفارتی
دباؤ ڈالا جائے جو کسی بھی طریقے سے بھی ان شر انگیزوں کو تعاون فراہم کرنے
کے ذمہ دار ہیں۔ بلا سوچے سمجھے یہ کہنا کہ ایف سی اور فوج برے حالات کی
ذمہ دار ہیں درست نہیں بقول آئی جی ایف سی وہا ں پر شر پسندوں کے 60 کیمپ
کام کر رہے ہیں کیا ان کیمپوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت لینے کو تیا رہے
اگر ایسا ہے تو پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ ایف سی پیچھے ہٹ جائے اور ان
کانوں، ڈیموں اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی جو بلوچستان کے لوگوں کی زندگی کی
امید ہے صوبائی حکومت کے حوالے کر دے جن کی حفاظت وہ صوبائی حکومت ہی کے
کہنے پر کر رہی ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو اس وقت سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے کا موقع نہیں
اور نہ ہی اس پر کسی غیر سنجیدگی کی گنجائش ہے اس مسئلے کو قومی سطح پر مل
بیٹھ کر حل کرنا ضروری ہے ۔ ہونا یہ چاہیئے کہ سنجیدہ اور ذمہ دارقسم کے
بلوچ لیڈروں سے بات کی جائے اور نہ صرف طرفین اپنی غلطیاں تسلیم کرے بلکہ
ان کا مداوا بھی کیا جائے۔ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف شدید ردعمل
ظاہر کیا جائے۔ آئی ایس آئی لوگوں کی شکایات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ
بیرونی ایجنسیوں کی سازشوں کا توڑ کرے کیونکہ صرف یہ کہہ دینا نہ اس کیلئے
کافی ہے اور نہ اس کا کام ہے کہ بیرنی ہاتھ ملوث ہے بلکہ اس کی ڈیوٹی اس
بیرونی ہاتھ کو توڑ دینا ہے جو ہمارے خلاف مصروف عمل ہے اور حکومت کو
ترقیاتی کاموں کو ترجیحی بنیاد وں پر کروا کر بلوچوں کا اعتماد بحال کرنا
ہے اور ترقی کے فوائد کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ایک دوسرے کو الزام دینے
کی بجائے ہر ایک کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی
ضرورت ہے۔ دشمنوں کی پہچان اور خبرداری بھی انتہائی ضروری ہے لیکن ان سے
نبٹنا بھی ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے۔ |