کراچی لٹریچر فیسٹیول اور اس میں ہوئے ابن صفی پر مذاکرے کا احوال

کراچی لٹریچر فیسٹیول ہفتہ اور اتوار 2012 کے روز اپنی تمام تر رونقیں بکھیرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ جمعے کی رات ڈاکٹر آصف فرخی کی دعوت پر فیسٹیول کے شرکاءکے اعزاز میں منعقدہ عشائیے میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ مشاہیر ادب کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور فلم سے وابستہ کئی چہرے بھی نظر آئے جن میں زیبا بختیار، راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی شامل تھے۔ دہلی سے تشریف لائے ڈاکٹر خالد جاوید سے ملاقات کروا کر ڈاکٹر آصف فرخی نے ہم پر گویا ایک احسان کیا، دو گھنٹے خالد صاحب اور میں، اپنے پسندیدہ موضوع یعنی ابن صفی پر بات کرتے رہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،برٹش کونسل اور ڈاکٹر آصف فرخی کی کوششوں سے اس رنگا رنگ میلے کا انعقاد گزشتہ تین برس سے جاری ہے۔ اس مرتبہ کل 136 مہمانوں کو دنیا بھر سے مدعو کیا گیا تھا۔ دو روز تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں مذاکرے، مباحثے، کتابوں کی نمائش و رونمائی، موسیقی کا اہتمام کیا گیا جبکہ پہلے روز شام کے وقت مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا۔ ادبی میلے میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، انڈیا اور پاکستان سے ادیب، دانشور اور شعراء نے شرکت کی۔ کتابوں پرگفتگو ہوئی، لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان ربط بھی پیدا ہوا۔ میلے کے دوران ادبی و عصر حاضر کے موضوعات پر تھیٹر بھی پیش کیا گیا۔
 

image

عشائیے کے دوران برطانیہ سے آئی بے نظیر بھٹو کی ہم جماعت وکٹوریہ شوفیلڈ کو اخباری نمائندوں نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ اس ادبی میلے میں شرکت اور مقامی لوگوں سے مل کر پاکستان اور یہاں کے باشندوں کے متعلق وہ منفی تاثر ختم ہوگیا جو عالمی سطح پر موجود ہے۔ میرے نزدیک یہ صرف روایتی پروپیگنڈا ہے۔ پاکستانی کھلے ذہن کے مالک اور فراخ دل ہیں۔ مطالعہ کے شوقین ہیں، ملنسار اور خوش اخلاق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ پھر انہیں یہاں آنے کی دعوت دی گئی تو وہ پاکستان آنے سے بالکل نہیں ہچکچائیں گی"

آرٹس کونسل کے سربراہ احمد شاہ نے یہ عندیہ دیا کہ آئندہ برس کراچی لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد میں آرٹس کونسل کا تعاون بھی شامل ہوگا۔

فیسٹیول میں اس مرتبہ انگریزی لکھنے والے ادیبوں میں وکرم سیٹھ، شوبھا ڈے، بینا شاہ، اناتول لیوین، ایم ایچ نقوی، عائشہ جلال، منیزہ نقوی، احمد رشید، کاملہ شمسی، محسن حامد وغیرہ نے شرکت کی۔جب کہ اردو کے ادیبوں میں انتظار حسین، عارفہ سیدہ زہرہ، عطیہ داؤد زہرہ نگاہ، کشور ناہید، زاہدہ حنا، فہمیدہ ریاض، افتخار عارف، فاطمہ حسن، پروفیسر سحر انصاری و دیگر شامل تھے۔
 

image

ادبی میلے کے پہلے روز شام پانچ بجے جناب ابن صفی پر ایک مذاکرہ منعقد کیا گیا ۔ ابن صفی برصغیر پاک و ہند کے سری ادب کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نقادوں اور ادب کے علمبرداروں نے انہیں ’ادب عالیہ ‘ میں کبھی شمار نہیں کیا لیکن اب یہ برف پگھل رہی ہے اور ادب میں ان کو ان کا جائز مقام دینے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
اس ضمن میں ابن صفی اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں:

مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں۔ حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریقِ کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلیٰ و ارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے۔افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہتبرے حصّے کے لئے اعلیٰ ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لئے کیوں لکھوں؟ میں اسی انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں۔بہت ہی بھیانک قسم کے ذہنی ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں۔ ورنہ میں نے بھی آفاقیت کے گیت گائے ہیں۔ عالمی بھائی چارے کی باتیں کی ہیں۔ لیکن 1947میں جو کچھ ہوا اُس نے میری پوری شخصیت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ سڑکوں پر خون بہہ رہا تھا اور عالمی بھائی چارے کی باتیں کرنے والے سوکھے سہمے اپنی پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے تھے۔ ہنگامہ فرو ہوتے ہی پھر پناہ گاہوں سے باہر آ گئے اور چیخنا شروع کر دیا۔ ”یہ نہ ہونا چاہیئے تھا۔ یہ بہت برا ہوا۔“ لیکن ہوا کیوں؟ تم تو بہت پہلے سے یہی چیختے رہے تھے۔ تمہارے گیت دیوانگی کے اِس طوفان کو کیوں نہ روک سکے۔
 

image

میں سوچتا سوچتا رہا۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے۔ اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اِسی لئے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور انہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں۔ فریدی میرا آئیڈیل ہے جو خود بھی قانون کا احترام کرتا ہے۔ اور دوسروں سے قانون کا احترام کرانے کے لئے اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ “

مذاکرے کے شرکاءمیں جامعہ ملیہ دہلی کے ڈاکٹر خالد جاوید، فرزند ابن صفی جناب احمد صفی، جناب شکیل عادل زادہ اور ڈاکٹر شیر شاہ سید شامل تھے جبکہ صدارت کے فرائض ادیب و مترجم بلال تنویر نے سرانجام دیے۔ جناب احمد صفی نے حاضرین کو بتایا کہ : “ایک سوال ہمیشہ سے ذہن میں اٹھتا ہے کہ پلپ فکشن یا مقبول عوامی ادب تو معاشرے کے ایک خاص طبقے ہی میں پڑھا جاتا ہے اور اسی میں ختم ہو جاتا ہے۔ اہل علم و فراست اس پر توجہ نہیں دیتے تو پھر کیا ابن صفی کے ادب کو پلپ فکشن کہا جا سکتا ہے؟ ان کے پڑھنے والوں مین رکشہ ٹیکسی والے سے لے کر علما ، ادیب، دانشور اور شعرا سب ہی شامل ہیں۔ جب ابو (ابن صفی) گھر سے نکلتے تھے تو نکڑ پر بیٹھا پان والا بھی ان سے ان کے نئے آنے والے ناول کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کا اسپیکٹرم بہت وسیع ہے۔ تو ایسے ادب کو کوئی اور نام دینا پڑے گا۔ ممتاز محقق خرم علی شفیق ایسے ادب کو جسے معاشرے کے ہر طبقے میں پذیرائی حاصل ہو جمہوری ادب قرار دیتے ہیں اور ابن صفی کو سر سید، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کے سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں“

فزیشن و سرجن ڈاکٹر شیر شاہ سیدایک جانے پہچانے افسانہ نگار بھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ’ پاکستان نیشنل فورم آن وومین ہیلتھ‘ کے صدر کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔ڈاکٹر شیر شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: ” میں 2005 کے زلزلے کے بعد رفاہ عامہ کے کام کے لیے شمالی علاقاجات میں گیا تھا۔ مانسہرہ میں ہمارا پڑاؤ تھا۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب، ہم آپ کوقریب واقع ایک چھوٹے سے شہر بفہ میں لے چلتے ہیں، یہ شہر ترکوں کا آباد کیا ہوا ہے اور مانسہرہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ یہاں ابن صفی کے ناول کرایے پر ملتے ہیں، یہ سٹی ہال کی لائبریر ی کی جانب سے آویزاں کیا گیا تھا جہاں ابن صفی کے ناول کثیر تعداد میں دستیاب تھے۔ ہم جب تک وہاں رہے، فرصت کے اوقات میں لائبریری سے ناول لے کر پڑھتے رہے۔

مجھ سے بڑے دو بھائی تھے جو ابن صفی کے ناول چھپ چھپ کر پڑھا کرتے تھے اس لیے کہ والدہ صاحبہ کی طرف سے ناول پڑھنے پر پابندی تھی۔ یہ پابندی اس وقت ختم ہوگئی جب ہماری والدہ نے خود ایک مرتبہ ابن صفی کا ناول پڑھا اور ہمیں انہیں پڑھنے کی بخوشی اجازت دے دی۔ میں نے ناظم شہر کراچی سے کئی مرتبہ کہا کہ کسی سڑک یا فلائی اوور کا نام ضرور ابن صفی کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔ آپ اتنے بڑے بڑے فلائی اوور اور پل بنا رہے ہیں کچھ پیسہ اس شہر میں لائیبریریاں بنانے پر خرچ کریں۔ لائیبریریاں بنائیے اور اس میں ابن صفی کی کتابیں بھر دیجیئے۔ مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ پل بنانا بہت آسان ہے، لائبریری بنانا بہت مشکل۔ میں جب کبھی بھی کسی دورے پر جاتا ہوں، ابن صفی کے ناولز ضرور میرے ساتھ ہوتے ہیں۔“
 

image

جناب شکیل عادل زادہ ایک نامور ادیب ہیں، سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر کی حیثیت سے ان کی شہرت مسلمہ ہے، اردو زبان پر گرفت ہے اور اس کی تمام نزاکتوں سے بخوبی واقف ہیں۔شکیل عادہ زادہ نے دوران گفتگو ابن صفی سے متعلق ایک واقعہ سنایا:” سن ستر کے اواخر کی بات ہے، میں اس وقت ایک رسالہ نکالا کرتا تھا جس کی اشاعت بڑھانے کی خاطر یہ سوچا کہ کیوں نہ ابن صفی سے کچھ لکھوایا جائے۔ ابن صفی بہت مشکل سے راضی ہوئے اور رسالے کے لیے ایک سلسلے وار کہانی اب تک تھی کہاں کا آغاز کیا لیکن ایک قسط کے بعد بوجوہ لکھنا بند کردیا۔ جوابا میں نے الف لیلہ کے خاص نمبر کے لیے ابن صفی کے خلاف ایک مضمون لکھ کر مدیر کو روانہ کردیا۔ مضمون تو نہ چھپا لیکن چند روز بعد ابن صفی اپنی صاحبزادی کی شادی کا دعوت نامہ دینے کی غرض سے میرے گھر آئے اور کہا مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے ناراض ہو لیکن شادی میں ضرور آنا۔ یہ ان کی بڑائی تھی اور میں اس بات سے بہت متاثر ہوا۔“

شکیل عادل زادہ نے مزید کہا کہ” مجھے یاد ہے کہ جس روز ابن صفی کا نیا ناول شائع ہوتا تھا، اس روز صدر کے علاقے ریگل میں صبح ہی سے شور بپا ہوجایا کرتا تھا اور ہمیں شام کو پتہ چلتا تھا کہ چودہ ہزار کاپیاں آئیں اور ختم بھی ہوگئیں۔ ابن صفی ایک یکتا و نادر روزگار شخصیت تھے، ان کی تحریر میں روانی، شوخی اور شگفتگی تھی۔ پاکستان میں ادب کے ناخداؤں نے کم تر اور برتر ادب کی درجہ بندی کی ہوئی ہے اور جاسوسی ناول نگاری کو یہ لوگ ادب میں شمار نہیں کرتے یا پھر کم تر ادب میں شمار کرتے ہیں جبکہ یورپ میں یہ صورتحال نہیں ہے۔ کوئی ادب، اعلٰی ادب نہیں ہوتا بلکہ اس کی پیشکش اسے اعلٰی بناتی ہے۔“

جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر خالد جاوید اس مذاکرے میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر خالد ہندوستان میں اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔حال ہی میں ان کا ناول ’موت کی کتاب‘ شائع ہوا ہے جس نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ڈاکٹر خالد نے ابن صفی پر ’ ابن صفی ۔چند معروضات‘ کے عنوان سے 2006 میں ایک اہم مضمون تحریر کیا تھا جس کی اشاعت کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ابن صفی کے فن اور شخصیت پر تحقیقی کام کی باضابطہ شروعات ہوئی۔ تقریب سے ایک روز قبل دوران عشائیہ ڈاکٹر خالد نے راقم الحروف کو بتایا کہ انہوں نے پانچ برس کی عمر سے ابن صفی کو ’سننا ‘شروع کیا تھا، ان کے والد انہیں رات کے وقت ابن صفی کے ناول پڑھ کر سنایا کرتے تھے جو بقول ان کے ر فتہ رفتہ ان کے خون میں شامل ہوتے چلے گئے۔
 

image

مذاکرے میں ڈاکٹر خالد جاوید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:” جب تک کسی تحریر میں ادبی چاشنی نہ ہو ، وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ عموما روایتی لکھنے والے کو اپنے قاری کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا اور وہ ایک ’پروڈکٹ‘ کی شکل میں اپنی تخلیقات کا ڈھیر لگاتا چلا جاتا ہے جبکہ سنجیدہ لکھنے والا اپنے قاری کی پسند و نا پسند کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہے۔ ابن صفی کو اس بات کا مکمل ادراک تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں اب ابن صفی کی تحریروں کا ایک نیا جنم ہورہا ہے۔ ہندوستان میں عارف مارہروی،مسعود جاوید، انجم عرشی، جمیل انجم، اظہار اثر اور اکرم الہ آبادی نے ابن صفی کے اسلوب کی نقل کی لیکن آج ان لوگوں کی تحریروں سے کوئی واقف نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران کا کردار ایسا تھا جس نے ابن صفی کو لازوال بنا دیا۔عمران کے کردار میں حماقت کا فلسفہ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے، اگر ہم غور کریں تو ملا نصیر الدین کے کی ہر داستان کا آغاز بھی کسی حماقت ہی سے ہوتا ہے، اسی طرح 1509 میں ایک ولندیزی فلسفی ڈیزیڈیریس اراسمس نے In Praise oF Folly نامی کتاب میں حماقت کے فلسفے کو بیان کیا ہے،۔ عمران کے کردار کی حماقت کا موازنہ باآسانی کامیو کی Absurdity ، کافکا کی Redundancy اور سارتر کی Nothingness سے کیا جاسکتا ہے۔ ان مثالوں کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حماقت کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب جامعہ ملیہ دہلی میں کوئی طالب علم ابن صفی پر تحقیق کام کرنے کی خواہش ظاہر کرتا تھا تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی، اس سلسلے میں میں (خالد جاوید) نے ’بورڈ آف اسٹڈیز ‘میں خاصی بحث و مباحثے کے بعد ابن صفی پر تحقیقی کام شروع کرانے کی منظوری حاصل کی اور اب جامعہ ملیہ میں میری زیر نگرانی ایک ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام ہورہا ہے۔ یہ اطلاع بھی آپ کے لیے اہم ہوگی کہ بات اب جامعہ ملیہ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ دیگر جامعات میں بھی ابن صفی پر تحقیق کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ دہلی یونیورسٹی اور حیدرآباد دکن میں اس پر کام کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں بھی ’ادب عالیہ ‘ کے مارے ایسے ادیب موجود ہیں جو ابن صفی کو تسلیم نہیں کرتے، اس ضمن میں راجندر یادو کی مثال پیش کروں گا جنہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بڑا ادب وہ ہے جسے لوگ بار بار پڑھیں، اس پر انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ بار بار تو ہم ابن صفی کو پڑھتے ہیں، جواب میں راجندر یادو بولے کہ ہم ان کا ایک ہی ناول بار بار نہیں پڑھ سکتے۔“

مذاکرے کے اختتام پر حاضرین نے احمد صفی سے مختلف سوالات کیے۔ خاتون حنا جاوید نے ابن صفی کی شاعری اور اس کی عدم دستیابی کے بارے دریافت کیا ، احمد صفی نے جواب میں کہا کہ ابن صفی کا پہلا شعری مجموعہ گز شتہ برس شائع ہونا تھا لیکن ان کی (احمد صفی کی)کراچی سے لاہورمنتقلی کی وجہ سے یہ کام تاخیر کا شکار ہوگیا اور اب ان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مجموعہ جلد از جلدشائع ہوجائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں احمد صفی نے کہا کہ ابن صفی کی بنائی فلم دھماکہ کا کوئی پرنٹ انہیں تاحال نہیں مل سکا ہے، یہ فلم بازار میں دستیاب کہیں دستیاب نہیں ہے، اس سلسلے میں احمد صفی نے راقم الحروف اور جناب محمد حنیف (نگراں کارابن صفی ڈاٹ انفو) کا ذکر کیا کہ یہ لوگ فلم دھماکہ کے حصول کی خاطر کوششیں کررہے ہیں۔
 

image

راقم الحروف نے ’ابن صفی۔ایک نئے انداز میں ‘کے عنوان سے منعقد ہوئے اس مذاکرے میں ڈاکٹر خالد جاوید کی گفتگو کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی محفوظ کی جسے تین حصوں میں مندرجہ ذیل لنکس پر دیکھا جاسکتا ہے:

ڈاکٹر خالد جاوید کا ابن صفی کے فن و شخصیت پر اظہار خیال۔حصہ اول
https://www.youtube.com/watch?v=S_Obh792O8o&feature=youtu.be

ڈاکٹر خالد جاوید کا ابن صفی کے فن و شخصیت پر اظہار خیال۔حصہ دوم
https://www.youtube.com/watch?v=19lVEnsU5x8&feature=youtu.be

ڈاکٹر خالد جاوید کا ابن صفی کے فن و شخصیت پر اظہار خیال۔حصہ سوم
https://www.youtube.com/watch?v=Luo7WIl8tjo&feature=youtu.be
 

image

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہوگا کہ جناب انتظار حسین نے ہندوستان میں ایک سیمینار میں ابن صفی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور ان کی اس بات پر خاصی لے دے بھی ہوئی تھی بالخصوص گوپی چند نارنگ نے ، جو ابن صفی کے مداح ہیں، اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ راقم نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں اس بارے میں انتظار صاحب سے خصوصی گفتگو کی۔ جناب انتظار حسین اس ضمن میں ایک بیان ریکارڈ کروانے پر رضا مند ہوگئے جس میں انہوں نے ابن صفی کی عظمت کو تسلیم کیا اور اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ وہ اب ابن صفی کو پڑھیں گے۔مذکورہ ویڈیو مندرجہ ذیل لنک پر جاکر دیکھی جاسکتی ہے:
https://www.youtube.com/watch?v=U3PhejNblMc&feature=youtu.be

کراچی لٹریچر فیسٹیول کا اختتام ہوا۔ منتظمین کی ہوا کا رخ بدلنے کی ، کتاب سے محبت کی، باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی، وطن عزیز کا دلاآویز اور معتدل چہرہ بیرونی دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی، کوششوں کو ہر سطح پر سراہا گیا۔منتظمین کی محنت وصول ہوئی۔ لوگ ایک دوسرے سے رخصت ہوئے، اگلے برس ایک نئے ولولے کے ساتھ اسی جگہ ملاقات کے وعدے کے ساتھ:
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.