پاکستان کے خلاف سازشیں اور حکمرانوں کی مفاد پرستی

ملک میں جہاں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں، وہیں بحران بھی سر پر کھڑے ہیں اورامریکا کی جانب سے ملکی سرحدوں کو پامال کرنے کے بعد، ملک کو ٹکڑے کرنے کی سازش بھی بے نقاب ہوچکی ہے۔ لیکن اس ساری صورت حال میں پاکستان کے حکمران اور سیاسی قیادت اپنے مفادات میں الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اس وقت عالمی اور مقامی سازشوں سے دوچار ہے، امریکی کانگریس میں بلوچستان کے مسئلے پر بحث اور بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی بے چینی اس کا عملی ثبوت ہے۔

بلوچستان کے حالات گزشتہ ایک عشرے سے سنگین ہیں، اس کی بنیادی وجہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقدامات ہیں۔فوجی آمر کے ان اقدامات سے بلوچستان میں صوبائی خود مختاری کی جدوجہد علیحدگی کی تحریک بن گئی ، اور اب اس کی آوازیں امریکی کانگریس میں بھی سنائی دے رہی ہیں، یقینا اس اقدام سے اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں خوش ہوں گی۔ دراصل بلوچستان کا زخم اب ناسور بن چکا ہے ،جس کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ اس کا حل صرف فوجی آپریشن نہیں، بلکہ محب وطن بلوچوں سے مل کر اس کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے بعد، آغاز حقوق بلوچستان، نامی پیکیج کا اعلان تو کیا، لیکن بلوچوں کے دکھ درد میں حصہ دار بننے کی بجائے انہیں مزید تکلیف دی، حالاں کہ صدر آصف علی زرداری ایک بلوچ ہونے کے ناطے ان کے مزاج کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کے باوجودان کے دورِ حکومت میں بلوچستان کا مسئلہ مزید گھمبیر ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ بلوچوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کے لیے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے باہر بھیجنے کی بجائے، نواب اکبر بگٹی کے قتل سمیت دیگر جرائم میں اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا، تاکہ بلوچ سمیت ہر مظلوم عدالت کے کٹہرے میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق اس ظالم سے باز پرس کرسکتا۔ لیکن عالمی قوتوں کے دباﺅ اور خواہش پر پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا، آج وہی قوتیں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایک جانب امریکا اور اسرائیل پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے لیے عالمی سطح پر سرگرم عمل ہیں تو دوسری جانب وہ بھارت افغانستان اور ایران میں موجود اپنے سفارت خانوں کے ذریعے اس سازش کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے اداروں کے پاس ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہیں ،لیکن عالمی قوتوں کی ناراضی کے خوف سے حکمران ان ثبوتوں کو منظر عام پر لانے سے گریزاں ہیں۔ مگر اب ہمیں حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے نہ صرف ان ثبوتوں کو منظر عام پر لانا ہوگا۔ بلکہ ایران اور افغانستان کو بھی انتباہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ اگرچہ 17 فروری 2012ءکو اسلام آباد میں پاک،ایران و افغان سربراہ مملکت کی ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن اب دعوؤں اور وعدووں کی نہیں، بلکہ عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ افغانستان کی سرزمین، بلوچستان خیبر پختونخوا کی شورش اور ملک کے دیگر علاقوں میں مذہبی فسادات کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اسی طرح ایران کی سرزمین بھی بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں مذہبی فسادات کے لیے استعمال ہورہی ہے، اس سلسلے میں پاکستان کو بھی ایسے عملی اقدام کرنے ہوں گے ،جن کی وجہ سے ہمیں ان مشکلات سے نجات مل سکے۔

موجودہ حالات میں تینوں ممالک کا باہمی تعاون پاکستان سے بڑھ کر ایران اور افغانستان کی ضرورت ہے۔اس وقت عالمی سطح پر ایک جانب ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، تو دوسری جانب افغانستان بھی انتہائی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔موجودہ صورت حال میں افغان مسئلے کا حل نہایت ضروری ہے مگر یہ حل اصل فریق طالبان کو الگ رکھ کر نہیں نکالا جاسکتا ۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کے حکمران اگر خطے میں امن چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے تمام فریق بالخصوص طالبان سے مشاورت کی جائے۔ اگر ایران ،پاکستان اور افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے اصل فریق کو کنارے پر رکھ کر من پسند حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ ماضی سے بدتر ہوگا۔

پاکستان نے9/11کے بعد جس اتحادی کی خاطر اپنا سب کچھ داﺅ پر لگایا، اس اتحادی کی پاکستان کے خلاف سازش بے نقاب ہوچکی ہے ۔امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں نہ صرف مداخلت کررہا ہے، بلکہ اب بلوچستان کی علیحدگی پر بحث کر رہا ہے ،جس کا موقع ہم نے خود دیا ہے۔ بلوچستان کے علاوہ لاپتا افراد کا معاملہ بھی انتہائی سنگین شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس حوالے سے جدوجہد کرنے والی خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق ملک بھر سے 10 ہزار افراد لاپتا ہیں۔اور الزام خفیہ ایجنسیوں پر آرہا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کے سنگین ہونے کی ایک وجہ لاپتا افراد ہیں اور اب تو صورت حال اس لئے بھی سنگین ہے کہ ان افرادکی لاشیں ملنے لگی ہیں۔ پاکستان میں ایجنسیوں کے کردارپر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے، لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران صورت حال انتہائی گھمبیر ہوگئی ہے۔

9/11کے بعد ہم نے عالمی دہشت گرد امریکاکو خوش کرنے کے لیے اپنے، املک کے اندر بڑے پیمانے پر کریک ڈاﺅن کیے۔ اس دوران ان تمام افراد پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جن کا افغان اور کشمیر جہاد سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رہا، عالمی دہشت گرد کی خواہش کی یہی تکمیل اب ہمارے قومی و ملی وجودکاناسور بن گئی ہے۔ بلوچستان میں خود مختاری کی جدوجہد کو علیحدگی کی تحریک تک پہنچانے کے سفر میں لاپتا افراد کی لاشوں نے اہم کردارداکیا ہے۔ اب بھی ہمارے اداروں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔

لاپتا افراد کا معاملہ گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں ایک بہت بڑا ایشو بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اڈیالہ جیل سے لاپتا ہونے والے گیارہ میں سے چار افراد کی لاشوں کا ملنا اور ان میں سے تین افراد کی والدہ کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہونا ہے۔ اگرچہ سیکورٹی اداروں نے 17 فروری 2012ءکو اپنے بیان میں ان گیارہ افراد کے حوالے سے شدید تحفظات اور اعتراضات پر مبنی بیان بھی جاری کیا، لیکن سیکورٹی اداروں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ان افراد کے دہشت گرد نہ ہونے کے حوالے سے کسی نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی، بلکہ میڈیا اور قوم کا مطالبہ ہے کہ جو بھی دہشت گردی یا ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اگر عدالت کے سامنے ثبوت پیش نہیں ہورہے اور عدالتیں ان کورہا کررہی ہیں تو اس میں قوم اور میڈیا کا قصور نہیں، یہ ان اداروں کا قصور ہے جو ثبوت فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ یہاں تو بعض ادارے قومی سلامتی کے نام پر بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں پھر بعض اوقات کئی سال، کئی ماہ اور کئی روز کے بعد انہیں کسی دہشت گردی کے واقعے میں ملوث قرار دے کر گرفتاری ظاہر کی جاتی ہے اور بعضوں کی تو لاشیں ملتی ہیں۔ یہی عمل عوام میں شدید غصے اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث افراد کے حوالے سے باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ایک تعداد ایسے افراد کی ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان کے خفیہ اداروں کی اذیت کا نشانہ بنے اور مجبوراً انہوں نے کسی اور جگہ کا انتخاب کیا جہاں سے وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سازشوں کا حصہ بنے۔ کیوں کہ 9/11 کے بعد فوجی آمرکی ہدایت پر اداروں نے افغان اور کشمیر جہاد میں بالواسطہ یا بلا واسطہ حصہ دار لینے والے گروپوں یا افراد کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کردی اور مذہبی اور دینی قوتوں کے خلاف بڑے پیمانے سازشیں کی گئیں، جس کا نتیجہ ملک کے اندر خلفشار کی صورت میں نکلا۔

ڈرون حملوں اور امریکی اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت نے معاملات کو سنگین کردیا۔ ایف بی آئی اور امریکی سی آئی اے کے پاکستان میں آپریشن نے صورت حال کو مزید گھمبیر کردیا۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اگر ہم نے فوری طور پر اس کا تدارک نہ کیا تو حالات انتہائی سنگین ہوں گے۔

سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد ہمارے حکمرانوں نے نیٹو سپلائی بند کرنے کا دعویٰ کیا، جو بالکل جھوٹ اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ اب امریکی سفیر کیمرون منٹر، پاکستانی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار اوروفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس کا کھلے عام اعتراف کرلیا ہے۔ باخبر حلقوں کاکہنا ہے کہ نیٹو سپلائی نہ صرف فضائی بلکہ زمینی راستے سے بھی بحال ہے، تاہم اس کو افغان ٹریڈ کا نام دیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا دعویٰ ہے کہ صرف بچوں کے استعمال کی اشیاءاور کھانے پینے کا سامان سپلائی ہو رہا ہے ۔کیا وزیر موصوفہ قوم کو یہ بتانا پسند فرمائیں گی کہ فل سائزکے” پیمپرزیاڈائپرز“ کس کے لیے سپلائی ہورہے ہیں۔

اس وقت صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ساری توجہ ملک کی بجائے اپنی کرسی بچانے پر مرکوز ہے۔ حکومت کو وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کیس اور صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط لکھنے کے حوالے سے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی دوران سینیٹ کا انتخابی عمل بھی اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں سادہ اکثریت کے قریب پہنچنے کی جس جدوجہد میں مصروف تھی، اس میں وہ کامیابی کے قریب ہے۔ 17 فروری کو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی تکمیل کے بعد پنجاب اور وفاق سے سینیٹروں کابلا مقابلہ انتخاب عمل میں آچکا ہے۔ پنجاب سے مسلم لیگ( ن) کو 7، پیپلز پارٹی کو 4 اور ق لیگ کو ایک نشست ملی، جب کہ وفاقی دارالحکومت سے پیپلز پارٹی اور ق لیگ نے باہمی مفاہمت کے ذریعے ایک ایک نشست کا حصول ممکن بنایا ہے۔

سندھ میں بھی صورت حال بلا مقابلہ انتخاب کے قریب ہے۔ موجودہ صورت حال میں صرف ایک نشست کا اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ سینیٹ کی 8 نشستیں لے،متحدہ قومی موومنٹ کو 3اور مسلم لیگ(ف)کو ایک نشست دی جائے،جب کہ متحدہ 4 نشستوں کی طالب ہے۔ صوبے میں بلا مقابلہ انتخاب میں ایک رکاوٹ مسلم لیگ ہم خیال گروپ بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہم خیال گروپ کے سربراہ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سے دبئی میں رابطہ کیا، لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی ایک نشست دی جائے تو وہ مفاہمت کے لیے تیار ہوں گے۔ ڈاکٹر غلام ارباب رحیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے تحفظات کا یہ عالم ہے کہ 5ارکان کی جانب سے لکھ کر دینے کے باوجود حکومت انہیں صوبے میں قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے مجبوراً 20 ویں ترمیم کے موقع پر اس ایشو کو اٹھانا پڑا، جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت نے وعدہ کیا تو لیکن اس وعدے کی تکمیل کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت اب مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ صوبے میں پیپلز پارٹی ڈاکٹرارباب غلام رحیم کو قائد حزب اختلاف نہ بنانے کے حوالے سے اس موقف پر قائم ہے کہ الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے نام سے کوئی گروپ رجسٹرڈ نہیں۔ جن ارکان نے درخواست دی ہے وہ مسلم لیگ ق کا حصہ ہیں اور مسلم لیگ ق حکومت کا حصہ ہے، جب کہ اسی پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں ق لیگ کے یار محمد رند کو قائد حزب اختلاف بنایا ہے، جب کہ ق لیگ کے 19 میں سے 16 ارکان وہاں حکومت کا حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی یہ تضاد بیانی اس کے لیے مشکلات کا سبب بنے گی۔ اب پیپلز پارٹی سندھ میں قائد حزب اختلاف کی نشست دینے کے علاوہ ڈاکٹر ارباب غلام کی چھٹی کی منظوری کے عوض سینیٹ میں ان کے امیدواروں کی دست برداری چاہتی ہے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے سخت مقابلے کا امکان ہے۔ جب کہ دوسری جانب پیپلز پارٹی بلا مقابلہ انتخاب کے لئے کوشاں ہے، کیوں کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اس بار کئی ارکان پارٹی وفاداری نہیں نبھائیں گے۔ بلوچستان میں جمعیت علماءاسلام اور قوم پرستوں کے درمیان ہونے والا اتحاد بھی پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کے لئے ہے، کیوں کہ مخالف قوتیں ان دونوں جماعتوں کے خلاف متحد ہورہی ہیں ۔دونوں صوبوں میں مخالفین کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کو 3سے 5نشستوں تک محروم ہونا پڑے گا۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.